احکام شریعت(مسائل اور جوابات) زکوۃ سوم

سوال نمبر۱: کرایہ کے مکان کی ایڈوانس رقم مالک مکان کے پاس جمع ہو یا کسی ایجنسی ہولڈر کی رقم بطور ضمانت کسی فرم کے پاس جمع ہو اس کا کیاحکم ہے کیا اس کی زکوۃ ہے یا نہیں
جواب: کرایہ کے مکان ،دوکان یا کوئی ایجنسی ہولڈر کسی فرم کو بطور ضمانت جو رقم دیتاہے فی زمانہ وہ قرض کے حکم میں ہے لہذا جو مال قرض پر دیا ہواور وہ زکوۃ کے نصاب کو پہنچتا ہو یا دیگر اموال سےملانے پر زکوۃ کے نصاب کو پہنچ جاتا ہو تو جب سال زکوۃ گزر جائے تو اس کی بھی زکوۃ دینا فرض ہے لیکن ابھی فورا اس مال کی زکوۃ کی ادائیگی واجب نہیں ہے بلکہ جب یہ مال ملے گا اس وقت اس مال کی زکوۃ دینا فرض ہوگا مگر بہتر یہی ہے کہ اسی سال اس مال کی بھی زکوۃ دیدے کیونکہ اگر اس سال زکوۃ نہیں دی تو جتنے سال بعد یہ مال ملے گا ان تمام سالوں کی بھی زکوۃ دینی ہو گی لہذا ایک ساتھ تمام سالوں کی زکوۃ دینی ہوگی اور یہ دشوار عمل ہوگا لہذا آسانی اسی میں ہے کہ ہر سا ل ہی اس مال کی بھی زکوۃ ادا کرتا رہے


سوال نمبر ۲: بی سی کی صورت ميں موجود پیسوں کی زکوۃ کا کیا حکم ہے
جواب: بیسی یا کمیٹی ،لاٹری وغیرہ کی دوصورتیں ہیں
۱۔ بیسی کھلنے سے قبل ۲۔ بیسی کھلنے کے بعد
۱۔ بیسی کھلنے سے قبل
بیسی کھلنے سے پہلے جتنی رقم بیسی میں جمع کروائی ہے وہ سب قرض ہے یعنی بیسی بھرنے والے نے اتنی رقم قرضہ کے طور پر دی ہوئی ہے لہذا وہ شخص اگرپہلے سے ہی صاحب نصاب تھایعنی اس کے زکوۃ کے سال کی ابتداء ہوچکی تھی یا اور پہلے صاحب نصاب نہ تھا دوران بیسی صاحب نصاب ہوا اور ان کا سال زکوۃ بیسی کھلنے سے قبل ہی مکمل ہوگیا تو اب جتنی رقم انہوں نے بیسی میں جمع کروائی ہوئی ہے اس کی بھی زکوۃ دینا ان پر لازم ہوگئی ہے

۲۔ بیسی کھلنے کے بعد
جتنی رقم بیسی میں جمع کروائی ہے وہ اسی کی ملک ہے اور جو اضافی رقم ہے وہ اس پر بیسی بھرنے والے دیگر افراد کاقرضہ ہے
تواگر یہ پہلے سے ہی صاحب نصاب تھا یا دوران بیسی صاحب نصاب ہوا مگر سال زکوۃ مکمل ہونے سے پہلے ہی اس کی بیسی کھل ہوگئی اور اس نے سال زکوۃ سے پہلے اس مال کو خرچ کردیا تو جس دن اس کا زکوۃ کا سال مکمل ہوگا اس دن دیکھا جائے گا کہ اس کے پاس کتنا مال موجود ہے اور اس پر کتنا قرضہ ہے اور اس قرضہ کو منھا یعنی قرضہ نکالنے کے بعد کتنی رقم بچتی ہے
تو قرضہ منھا کر نے کے بعد جورقم باقی بچے اس کی زکوۃ دیگا بشرطیکہ وہ مال زکوۃ کے کسی نصاب کو پہنچتا ہو اور اگر نصاب زکوۃ سے کم مال ہو تو پھر اس پر زکوۃ نہیں

مثال :ایک شخص نے پچاس ماہ تک ۴ ہزار روپے ماہانہ سے دو لاکھ کی بیسی شروع کی
اب دوران بیسی وہ صاحب نصاب ہوا
اس طرح سے کہ ۱۲ماہ میں اس نے ۴۸ ہزار روپے جمع کرادیے اور اس کا اب سال زکوۃ شروع ہوگیا
اب اگر اگلے اسلامی ۱۲ ماہ میں بھی اس کی بیسی نہ کھلی تو اب جس دن اس کا سال زکوۃ مکمل ہوگا اس دن اس کے پاس حاجت سے زائد جتنا مال ہوگا اس کی زکوۃ واجب ہوگی
تو اس شخص کے پاس ۲۳ ویں ماہ ۹۲ ہزار روپے بیسی کے جمع ہوگئے ہیں اور سال زکوۃ مکمل ہوگیا لہذا اس پر ۹۲۰۰۰ ہزار کا چالیسواں حصہ زکوۃ لازم ہوگئی جو کہ ۲۳۰۰ روپے بنتی ہے

اور اگر اس شخص کے سال زکوۃ کے مکمل ہونے سے پہلے اس کی بیسی کھل گئی
مثلا ۲۲ماہ میں دو لاکھ روپے مل گئے تو اس نے کل ۸۸ ہزار روپے جمع کرائے تھے اور باقی ایک لاکھ بارہ ہزار اس کو بیسی بھرنے والے دیگر افراد نے قرضہ دیا ہے تو اگر اس نے سال زکوۃ مکمل ہونے سے پہلے اس مال میں سے کچھ خرچ کردیا مثلا ایک لاکھ روپے سے اس نے اپنے گھر کی مرمت کروالی تو اس کے پاس باقی ایک لاکھ روپیہ بچا اور سال زکوۃ جس دن مکمل ہوا اس دن اس کے پاس یہ ہی روپیہ تھا تو اس صورت میں اس پر زکوۃ نہیں
کیونکہ یہ ابھی ایک لاکھ آٹھ ہزار روپے کا مقروض ہے اور قرضہ نکالنے کے بعد نصاب زکوۃ مکمل نہیں
اور اگر بالفرض قرضہ نکالنےکے بعد نصاب زکوۃ بچتا ہو تو اس کی زکوۃ دی جائے گی

اور اگر مال خرچ نہیں کیا بلکہ دو لاکھ محفوظ کرلیے یا کسی کاروبار میں لگادیے جس دن سال زکوۃ مکمل ہوا س دن اس کے پاس مثلا صرف ایک لاکھ اسی ہزار ہی رکھے ہوں باقی خرچ کردے تو کیونکہ یہ ۹۲ ہزار بیسی میں بھر چکاہے اور ایک لاکھ آٹھ ہزا کا مقروض ہے اور اس کے پاس موجود ایک لاکھ اسی ہزار روپے ہیں تو ایک لاکھ اسی ہزار سے ایک لاکھ آٹھ کو منھا کریں یعنی نکالیں
قرضہ 108000
موجودہ رقم -180000
قرضہ نکا لنے کے بعد اصل رقم 72000
تو بہتر ہزار روپے بچیں گے لہذا اس صورت ميں بہتر ہزار کا چالیسواں حصہ ۱۸۰۰ روپے زکوۃ ادا کرے

سوا ل نمبر ۳: حج یا بچوں کی شادی کے لئے رکھی ہوئی رقم پر زکوۃ لازم ہے یا نہیں
جواب : اگر وہ رقم زکوۃ کے کسی نصاب کو پہنچتی ہے تو اس مال پر سال گزرجانے کے بعد زکوۃ دینا لازم ہے ۔

سوال نمبر ۴: کن رشتہ داروں کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں؟
اِن رشتہ داروں کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں جبکہ زکوٰۃ کے مستحق ہوں:
(1)بہن (2)بھائی (3)چچا(4) پھوپھی(5)خالہ (6)ماموں (7)بہو (8)داماد (9)سوتیلاباپ (10)سوتیلی ماں (11)شوہر کی طرف سے سوتیلی اولاد (12)بیوی کی طرف سے سوتیلی اولاد۔

سوال نمبر۵:کن کوزکوٰۃ نہیں دے سکتے اگرچہ کہ شرعی فقیر ہو؟
جواب:اِن مسلمانوں کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اگرچہ شرعی فقیر ہوں:
(۱) بنوہاشم (یعنی ساداتِ کرام)چاہے دینے والاہاشمی ہو یا غیر ہاشمی
بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب سے مراد پانچ خاندان ہیں،آلِ علی،آلِ عباس ، آلِ جعفر، آل عقیل، آلِ حارث بن عبدالمطلب ۔ ان کے علاوہ جنھوں نے نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی اِعانت نہ کی، مثلاً ابو لہب کہ اگرچہ یہ کافر بھی حضرت عبدالمطلب کا بیٹا تھا، مگر اس کی اولادیں بنی ہاشم میں شمار نہ ہوں گی۔
(۲) اپنی اَصل (یعنی جن کی اولاد میں سے زکوٰۃ دینے والا ہو)جیسے ماں، باپ ، دادا،دادی ، نانا،نانی وغیرہ
(۳) اپنی فروع (یعنی جو اس کی اولاد میں سے ہوں) جیسے بیٹا، بیٹی، پوتا ،پوتی، نواسا ، نواسی وغیرہ
(۴) میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے البتہ طلاق دینے کے بعد جب عدت گزرجائے تو زکوۃ دے سکتے ہیں۔
(۵)غنی کے نابالغ بچے(کیونکہ وہ اپنے باپ کی وجہ سے غنی شمار ہوتے ہیں ۔)

سوال نمبر ۶: گھر میں کام کاج کرنے والی یا والے کو زکوۃ دی بعد کو معلوم ہو ا کہ وہ شرعی فقیر نہ تھا یا نہ تھی تو کیا زکوۃ ادا ہوجائے گی
جواب: جسے ہم زکوٰۃ دینا چاہ رہے ہیں وہ مستحقِ زکوٰۃ ہے یا نہیں ؟ظاہر ہے کہ اس کی مکمل تحقیق بہت دشوار ہے اس لئے جس کو دینا ہو اس کے متعلق اگر غالِب گمان ہو کہ یہ مستحق ِ زکوٰۃ ہے(یعنی ادائیگی کی شرائط پر پورااترتا ہے) تو اس کو کوٰۃ دیدی جائے تو زکوۃ ادا ہوجائے گی اور اگر گمان غالب نہ ہوتا ہو تو اسے زکوۃ نہ دیں۔
توگھر میں کام کرنے والی یا کام کرنےوالے کو غالب گمان کے بعد زکوٰۃدی تھی کہ یہ زکوۃ کاستحق ہے
توزکوٰۃ ادا ہوگئی اگر چہ کہ بعد کو معلوم ہوا کہ وہ غنی تھا یا ہاشمی تھا یعنی زکوۃ لینے کا مستحق نہ تھا۔
اور اگر بغیر سوچے سمجھے انہیں زکوٰۃ دی تھی اورپھر معلوم ہوا کہ یہ زکوٰۃ کے مستحق نہیں تو زکوٰۃ ادا نہ ہوئی ۔

سوال نمبر ۷: پیشہ ور بھکاریوں کو زکوۃ دی تو کیا ادا ہوجائے گی
جواب:گداگر تین قسم کے ہوتے ہیں :
(۱) غنی مالدار: انہیں سوال کرنا حرام اور ان کو دینا بھی حرام ،انہیں دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی کہ مستحق ِ زکوٰۃ نہیں ہیں۔
(۲)وہ فقیر جو تندرست اور کمانے پر قادر ہو: یہ لوگ بقدرِ حاجت کمانے پر قادر ہونے کے باوجود مفت کی روٹیاں توڑنے اور اس کے لئے بھیک مانگنے کے عادی ہوتے ہیں ۔ ایسے پیشہ وروں کو سوال کرنا حرام ہے اور جو کچھ ان کو ملے ان کے حق میں مال ِخبیث ہے
جسے مالک کو لوٹانا یا صدقہ کردینا واجب ہوتا ہے ۔لیکن اگر ان کو کسی نے زکوٰۃ دے دی تو ادا ہوجائے گی کیونکہ یہ شرعی فقیر ہوتے ہیں جبکہ کوئی اور مانعِ زکوٰۃ نہ ہو۔

(۳)کمانے سے عاجز فقیر: یہ لوگ یا تو کمانے کی قدرت نہیں رکھتے یا پھر حاجت کے بقدر کما نہیں سکتے ،انہیں بقدرِ ضرورت سوال حلال ہے اور جو کچھ ان کو ملے ان کے لئے حلال ہے ، انہیں زکوٰۃ دی تو ادا ہوجائے گی۔

والسلام مع الاکرام
ابو السعد مفتی محمد بلال رضا قادری
mufti muhammed bilal raza qadri
About the Author: mufti muhammed bilal raza qadri Read More Articles by mufti muhammed bilal raza qadri: 23 Articles with 71724 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.