ماہ صیام کی جداگانہ حیثیت

رو زہ وا حد عبا دت ہے جسے اللہ رب العزت نے اپنی طرف منصو ب کیا ہے ۔ با قی تما م عبا دات میں انسان کو ریا کا ری کا خدشہ لا حق رہتا ہے لیکن یہ ایک ایسی بندگی ہے جس میں انسان ریا سے کا فی حد تک بچا رہتا ہے ۔ کیو نکہ با قی عبا دات ظا ہری ہیں تنہا ئی میں نہیں ہو تی نما ز ، حج، زکوٰة ، جہا د ایسی عبا دات ہیں جو لو گو ں کے سامنے وا ضح ہو جا تی ہیں لیکن رو زہ وا حد عبا دت ہے جو مخفی اور تنہا ئی پر مبنی ہے اس میں انسان ایک حجا ب میں قید رہتا ہے اور وہ اپنے رب کے ساتھ را ز و نیا ز کے بندھن میں جڑا ہو تا ہے ۔ رو زہ کبھی دکھا ئی نہیں دیتا چا ہے کوئی زبان سے اظہا ر بھی کر دے یہ ایسی بے مثال اور جدا گا نہ عبا دت ہے جو بندے اور رب کے درمیان ایک راز کی ما نند ہو تی ہے ۔ اور با طنی طور پر روزے دار یا اس کا رب ہی جا نتا ہے کہ وہ اس وقت روزے کی حا لت میں ہے اس کی عظمت اور اہمیت کی دلیل یہی ہے کہ رب ذوالجلال نے اسے خاص طور پر سا ری عبا دات سے ہٹ کر اپنی طرف منصوب کیا ہے فرمان با ری تعالیٰ ہے مفہوم روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دینے والا ہو ں ۔ با قی تمام عبا دات بھی اللہ پا ک کی بندگی اور وحداینت سے وا بستہ ہیں لیکن یہ وا حد عبا دت ہے جسے اللہ پاک نے خاص طور پر اپنے لیے کہا ہے اور اس کے اجر اور ثوا ب کو اپنی نو ری مخلو ق سے بھی مخفی رکھا ہے ۔ رو زے دار کے لیے دو خوشیا ں ہیں ایک جب وہ سارے دن میں کھا ئے پیئے بغیر حا لت صبر میں رہتا ہے اور اپنا ایک ایک لمحہ بھی عبا دت و ریا ضت میں گزارتا ہے تو وقت افطا ر اس کے لیے بہت بڑی خو شی اور مسرت کا لمحہ ہو تا ہے اور دوسری خو شی خا لق و مالک روز قیا مت جب حشر بر پا ہو گا تو روزے دار کو اپنے دیدار کا تحفہ بخشے گا جو کا ئنات کے ہر منصب اور ہر منزل سے بڑھ کر ہے اور یہ مالک کی رضا و خو شنو دی کا اہم تر ین حصہ ہے ۔با قی عبا دات محض بند وں کے اوصا ف اور اعمال سے وابستہ ہیں لیکن یہ ایسی بے مثال اور نا یا ب عبا دت ہے جس میں بندہ رب کے اوصاف اپنا لیتا ہے اور نہ کھا کر اور نہ پی کر وہ قرب الہیٰ کی اس منزل کو پا لیتا ہے جس تک پہنچنے کے لیے صدیوں کا سفر اور عبا دت و ریا ضت درکا ر ہے ۔تا ریخ گواہ ہے کہ با قی عبادات جھوٹے خدا ﺅ ں کے لیے بھی کی جا تی رہی ہیں لیکن روزہ صرف اور صرف ایک وا حدہ ہو لا شریک ذات کی خا طر رکھا جا تا ہے ۔رمضان المبا رک کی با برکت اور نو رانی سا عتوں میں عبا دات کا اجر و ثوا ب دگنا ہو جا تا ہے اور اس ماہ مبا رک میں جو انسان رب کے حضور اپنی مغفرت و بخشش نہ کروا سکے تو اس سے بد قسمت دنیا میں کو ئی بھی نہیں ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا مفہوم ہلا ک ہو گیا وہ شخص جس نے میرا نام سنا اور مجھ پر درود و سلام نہ بھیجا ،اوردوسرا جس نے اپنی ظا ہری حیا ت میں رمضان پا یا اور رب کے حضور اپنی مغفرت نہ کروا سکا اور تبا ہ و برباد ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے بو ڑھے ما ں با پ کو پا یا اور ان کی خد مت کر کے جنت کا حقدار نہ بن سکا ۔رو زے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ منہ بند کر لیا جا ئے اور اور کھا نا پینا چھوڑ کر روٹین کی طر ح جھوٹ بو لا جا ئے ، چغلی کی جا ئے ، حرام خو ری سے اجتنا ب نہ کیا جا ئے اپنی آنکھو ں کو بد نگا ہی سے روک نہ سکیں اپنے کا نو ں کو گندی آواز سننے سے با ز نہ رکھ سکیں فحش مو ویز دیکھی جا ئیں ، گا نو ں سے اپنے کا نو ں کو بچا یا نہ جا ئے اور ہر نا جا ئز کا م کیا جا ئے تو حقیقی رمضا ن المبا رک کی بر کتوں اور رحمتو ں سے محروم رہ جا ئیں گے ۔ یہ سیڑھی ہے زہد و تقویٰ کی اور منزل ہے قرب الہٰی کے حصول کی اس کے حقیقی منا سک کی ادائیگی کے بعد بندہ اس مقام کو حاصل کر لیتا ہے کہ بقول شاعر
خو دی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پو چھے بتا تیری رضا کیا ہے

ما ہ صیا م دینی اور دنیا وی اعتبار سے اس لیے بھی زیا دہ اہمیت و حثیت کا حامل ہے کہ اسی مقدس مہینہ میں ہما را پیا را وطن پا کستان وجود میں آیا اور نزول قرآن بھی انہی لمحات میں وقوع پذ یرہوا اس لیے ہمیں چا ہیے کہ اس ماہ مبا رک میں رب کی بندگی اور عبا دت کا اخلا ص اور اچھی نیت کے ساتھ حق ادا کریں اور اپنے گنا ہو ں سے سچی تو بہ کرلیں اور صراط مستقیم کو اپنا تے ہو ئے اپنی دنیا اور آخرت کو کا میاب بنا لیں ۔
S M IRFAN TAHIR
About the Author: S M IRFAN TAHIR Read More Articles by S M IRFAN TAHIR: 120 Articles with 118433 views Columnist / Journalist
Bureau Chief Monthly Sahara Times
Copenhagen
In charge Special Assignments
Daily Naya Bol Lahore Gujranwala
.. View More