پنجاب حکومت نے اپنی بچت پالیسی
کو جاری رکھنے کے لئے مزید احکامات جاری کردیئے ہیں۔ اس کے لئے سب سے اہم
قدم یہ اٹھایا گیا کہ ایک ”کفایت شعاری کمیٹی“ قائم کردی گئی ہے، صوبائی
وزراءاور بیوروکریسی کو ہوائی سفر میں اپنے استحقاق سے ایک درجہ کم کلاس
میں سفر کرنے کے احکامات جاری کردیئے گئے ہیں، نئی گاڑیوں اور دیگر ساز
وسامان خریدنے پر بھی پابندی ہوگی۔ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میںوزیراعلیٰ کی
طرف سے چیف سیکریٹری کو یاددہانی کرادی گئی کہ جس بچت پالیسی کا ذکر بجٹ
میں کیا گیا تھا وہ آنے والے سال میں بھی جاری رہے گی۔ خبر میں بتایا گیا
ہے کہ اگر کسی چیز کی خریداری ناگزیر ہوگی تو کفایت شعاری کمیٹی کے سامنے
کیس پیش کرنا ہوگا۔ اخراجات میں نمایاں کمی لانے کا حکم بھی ملا ہے،
سپلیمنٹری گرانٹ کا حجم بھی کم کرنے کی پابندی ہے، پٹرول کے ساتھ ساتھ
یوٹیلیٹی بلز پر بھی قابو پانا ہوگا۔ یہ حکم بھی ملا ہے کہ جس سرکاری ادارے
کے اخراجات میں کمی نہ آئی یا جس ادارے کے اخراجات میں کسی حوالے سے اضافہ
ہوا اس محکمہ کا صوبائی وزیر اور سیکریٹری ذمہ دار ہوں گے۔
اس صورت حال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی کوئی پالیسی گزشتہ برس بھی موجود تھی
جس کے تسلسل کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اگر تھی تو اس کی مناسب تشہیر نہیں کی
گئی جس کی وجہ سے وہ عوام میں’ قبولیت عام ‘حاصل کرنے سے محروم رہی، حکومت
پنجاب نے ضرور اس کے ثمرات سمیٹے ہونگے ، تبھی تو اس کار خیر کو دوام بخشا
جارہا ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت کے ترجمانوں کے پاس اس پالیسی سے حاصل
شدہ نتائج کی طویل فہرست موجود ہو ، مگر کیا کیجئے کہ عوام ان سے بے خبر ہی
رہے، اب بھی اگر انہی کا تسلسل ہے تو حکومت کو سوچنا چاہیئے، اگر یہ پالیسی
نئے نکات اور تخیلات سے مزین ہے تو اچھے وقت کا انتظار کرنا ہوگا، مگر یہاں
بھی بے بسی اور مایوسی آڑے آجاتی ہے کہ ہمارے حکمران اپنے اعمال کے نتیجے
میں اعتماد اور یقین کی منزلوں سے آگے گزر چکے ہیں۔
حکومتی لوٹ مار سے عوام کے دل ودماغ میں غیظ وغضب کے عناصر جنم لیتے ہیں،
عوام میں بغاوت کے جذبات بھی بھڑکتے ہیں، نفرت سے غصہ میں اضافہ ہوتا ہے۔
ان کے للوں تللوں کا بوجھ بالآخر عوام کو ہی برداشت کرنا ہوتا ہے، مہنگائی
کی ایک بڑی وجہ حکومتی عیاشی ہے۔ عیاشی ایک ایسی بیماری ہے جو لگ جائے تو
سر کے ساتھ ہی جاتی ہے ، مگر یہ حکومتی عیاشی تو ایسی مجبوری ہے کہ جو بھی
اقتدار کے تالاب میں اترے گا ، لامحالہ بھیگنا تو اس نے ہے ہی، کون ایسا
درویش ہے جو سرکاری عیاشی کو خیر باد کہہ دے ؟ پروٹوکول حکمرانوں اور
بیوروکریسی کی سب سے بڑی کمزوری ہے ، جس سے نجات کے بغیر اخراجات کم کرنے
کا خواب ایک مذاق ہی ہوسکتا ہے۔
ضلع کے درجہ پر بیوروکریسی کے پاس گاڑیوں کا حساب لگالیجئے، ان کے صوابدیدی
فنڈز کا اندازہ کرلیجئے، ان کی مراعات کو دیکھ لیجئے، یہی عالم نیچے سے
اوپر تک ہے۔ کیا بہت ہی جذباتی اور نیک نام وزیراعلیٰ کو علم نہیں کہ ان کے
سرکاری افسران کے پاس کتنی کتنی گاڑیاں ہیں، ان کے وزراءکے پاس سکیورٹی کی
مد میںپولیس۔ ایک ایسے صاحب کو ہم بھی جانتے ہیں کہ جو کسی نامعلوم ٹاسک
فورس کے چیئرمین ہیں، جن کے پاس ایک بڑی سبز نمبر پلیٹ گاڑی مع ڈرائیور اور
بندوق بردار پہرہ دار بھی۔ آپ کی وفاداری کا نتیجہ قومی خزانے سے عیاشی ،
غیر قانونی ، غیر جمہوری ، غیر اخلاقی عمل! اس سے عوام پر منفی اثرات مرتب
ہوتے ہیں۔ اسی طرح سرکاری افسران کو سرکاری گاڑیوں کو دفاتر تک ہی محدود کر
کے کروڑوں روپے ماہانہ بچائے جاسکتے ہیں، یہ کام وزیر اعلیٰ کے ایک معمولی
سے اشارے سے ہوسکتا ہے۔ بچت کیجئے ، مگر جن فضول خرچیوں کو آپ لوگوں نے
مراعات اور استحقاق قرار دے کراپنے لئے ضروری قرار دے رکھا ہے ان میں بھی
کمی کی ضرورت ہے۔ دیکھیں اب یہ کفایت شعاری کمیٹی بچت کا کیا طریقہ اپناتی
ہے، یا ٹی اے ڈی اے بنا کر خود بھی اسی رنگ میں رنگی جاتی ہے۔ |