یہ جینا بھی کوئی جینا ہے

بزدلوں اور بے غیرتوں کی بھی کوئی زندگی ہے۔وہ قدم قدم پر مرتے ہیں۔ہر اگلے قدم پہ موت پھر سامنے کھڑی ہوتی ہے۔ایک ایک سانس کے لیے منت کرتے ہیں،ہاتھ جوڑتے ہیں ،پاﺅں پڑتے اور ناک رگڑتے ہیں۔پھر جو تھوڑی سی مہلت ملتی بھی ہے تو وہ بھی تحقیر اور ذلت کی گندگی سے لتھڑی ہوئی۔ بزدلوں اور بے غیرتوںکی زندگی تو اس کتے سے بھی بدترہوتی ہے جو ایک ٹکڑے کے لیے زبان لٹکائے رال ٹپکاتا ، جھڑکیاں سہتا اورٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے ۔ اور پھر بھی خوشامد اور چاپلوسی کے مارے پیروں میں لوٹ پوٹ ہوتااور اپنی دم کو ہلاتا رہتا ہے۔

بزدلوں کا سفینہ کنارے پر ہی ڈوب جاتا ہے۔منجدھار تک پہنچنا ان کے نصیب میں کہاں۔منجدھار میںتووہ پہنچتے ہیں جو موجوں سے لڑنے کا حوصلہ اور ہمت رکھتے ہیں۔میدان جنگ میں شہسوار ہی تو گرا کرتے ہیں۔گھٹنوں کے بل رینگنے والا کیا گرے گا۔گیدڑکی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔بزدل اور بے غیرتوں کی طرح سسک سسک کر قسطوں میں مرنے سے بہتر ہے کہ آر یا پار کی بازی لگا دی جائے۔بے شک چیونٹی کو ہاتھی مسل سکتا ہے۔لیکن چیونٹی اگر ہمت کرکے ہاتھی کی سونڈ میں گھس جائے تووہ اسے ایک عذاب میں مبتلا کر سکتی ہے۔

دنیا کی تاریخ ایسی بہت سی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ ایک کمزور گروہ کو اللہ نے کسی طاقتورگروہ پر غلبہ عطا فرمایا۔اللہ کا حکم ہے ۔ کہ حق کے لیے اٹھوحق کا ساتھ د و ۔حق کے لیے لڑو ،جنگ کرو۔تم ہی غالب رہوگے۔مومن کبھی مغلوب نہیں ہوتا۔وہ شکست نہیں کھاتا۔وہ مایوس ہوتا ہے نہ ہار مانتا ہے۔وہ غازی بن کرجیتا ہے یاشہیدہوکرزندہ جاویدہو جاتا ہے۔وہ موت سے کیوں ڈرے۔موت تو اس کے لیے نئی زندگی کا دروازہ ہے۔

جو حق پر ہوتا ہے وہ اس دنیا میں بھی کامیاب اوراگلے جہان میں بھی کامران۔اللہ حق ہی توہے۔ جس کے سا تھ اللہ ہو،اس کو ڈر کاہے کا۔اس سے تو ڈر بھی ڈرتا ہے۔اور ان لوگوں کی کم بختی کا کیا کہنا۔جوکسی غیر اللہ کو سپرپاور سمجھتے ہیں۔اس دنیا میں ان کا جینا مردار خور بجوکی طرح، مرناکتے کی موت اوراگلے جہان میں ان کی زندگی نا قابل تصور حد تک بد ترین ہو گی۔

کفر کے کاسہ لیس یہی وہ منافق ہیں جواللہ کی بجائے طاغوت کو سپر پاو رسمجھتے ہیں۔اور جدید ٹیکنالوجی ،مہلک ہتھیاروں کے انباروں اور پچاس اتحادیوںکی متحدہ قوت سے ڈراتے ہیں ۔تو اس پر اللہ بھی یہی فرماتا ہے ۔کہ وہ تمہیں کفر کی طاقت اور سج دھج سے ڈرائیں گے۔ لیکن بارہا ایسا ہوا کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آ گیا ۔ فر عون جو خود ہی خدا بن بیٹھا تھا، کمزوراور مسکین بنی اسرائیل کو اللہ نے بچالیااور خود ساختہ خدا کولاﺅ لشکر سمیت غرقاب کر کے عبرت کا نشان بنا دیا۔ تاریخ گواہ ہے۔ اللہ کا گھر ڈھانے کا قصد کرکے آنے والوں کا انجام تو عبرت کی روشن مثال ہے۔ہاتھی والوں کی تدبیریں دھری کی دھری رہ گئیں۔ ایک ایک ابابیل کی گرائی ہوئی ایک ایک کنکری نے چن چن کر ایک ایک ہاتھی کو کھائے ہوئے بھوسے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔ان ہاتھی والوں نے بھی طاقت کا غرور کیا تھا۔اور اللہ کو کسی کا غرور ایک ذرہ برابر گوارا نہیں ۔فخروغرو ر فقط اسی کی ذات کبریا کو زیبا ہے۔

وہ تین سو اور تیرہ ہی تو تھے۔ اس لیے کہ چودھواںان کو میسر ہی نہ تھا۔اور ان کے ہاتھوں میں تلواروں کے سوا گیلی شاخوں کی خود ساختہ کمانیں ،نوکدار ٹہنیوں کے تیر اور لاٹھیوں میںچھریاں باندھ کر بنائے گئے نیزے ہی توتھے۔اور کفر کی طرف ہزاروں میں سے چنے ہوئے،ایک ہزارجنگجو تھے۔جو ا پنے وقت کے بہترین ہتھیاروں سے سج دھج کر اس زعم باطل کے سا تھ چڑھ آئے تھے کہ ان مٹھی بھرسر پھرے ۔ایک خدا کے پرستاروں کو آسانی سے پیس کررکھ دیں گے۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ اللہ نے اپنے بے سروسامان بندوں کی غیب سے مدد فرمائی اور کفر کا سرانہی بے سروسامان قلیل نفری کے ذریعہ کچل کر رکھ دیا۔

جنگ احزاب میں کفر کی طاقتیں چاروں طرف سے امڈ کر مدینہ کی چھوٹی سی بستی پر آندھی کی طرح چڑھ آئی تھیں۔خوف کے مارے لوگوں کے دیدے پھٹے پڑتے تھے۔ کلیجے منہ کو آ گئے تھے۔لیکن مومنین کا ایمان اس وقت بھی اور مضبوط ہو گیاتھا کہ ” اللہ ان کے لیے کافی ہے“۔ اور دنیا نے دیکھا کہ شیطان کی تدبیریں مکڑی کے جالوں سے بھی بودی ثابت ہوئیں ۔ کفر کا ٹڈی دل خوف زدہ ہو کر بے نیل ومرام بھاگ کھڑا ہوا۔

مصیبتیں جوہم پر نازل ہوتی ہیں۔یہ ہمارے اپنے کئے دھرے کا نتیجہ ہیں۔اپنے گریبان میں تو ذرا جھانک کر دیکھوکہ ہم کیا کر رہے ہیں اور اب تک کیا کر تے رہے ہیں۔اللہ ہمیں بار بار خبردار کرتا ہے کہ ” مسلمانو!یہودی اور عیسائی کبھی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے“۔لیکن اللہ کے اس فرمان پرہمیں یقین نہیں ہے۔ امریکہ کو آقا اور ان داتا بنا رکھا ہے۔ ”مسلمانو!تم کافروں سے دوستی نہ کرو ۔مسلمان ہی دراصل تمہارے دوست ہیںتم مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں کا ساتھ دو گے تو تم بھی انہی میں شمار کئے جاﺅ گے۔ بلکہ اللہ کا غضب تم پر دوہرے عذاب کی شکل میں نازل ہوگا“۔اورہم!کافروں کو پسندیدہ قرار دیتے ہیں۔ اور اپنے مسلمان بھائیوں کوکافروں کے ہاتھوں مروانے میں ہر طرح کا تعاون کر رہے ہیں۔اس کے بدلے میںوہ چند تر لقمے کتا سمجھ کر ہماری طرف پھینک دیتے ہیں۔جو ہمارے اپنے بھائیوں کے خون میں لتھڑے ہوتے ہیں۔

اللہ جب کسی نافرمان قوم کو سزا دینا چاہتا ہے تواسی قوم میں سے بدترین افرادکو چن کراس قوم پر مسلط کر دیتا ہے۔اور اس قوم پر ذلت اور مسکنت طاری کر دیتا ہے۔یا کسی ظالم قوم کی غلامی میں دے دیتا ہے۔اور اس وقت ہم تودوہرے تہرے عذاب بھگت رہے ہیں۔

بد قسمتی سے اس ملک کو اس کے بانی کے بعد سے آج تک کوئی مخلص قیادت میسر نہ آئی۔ملک پر غیرقوموں کے غلام اور ایجنٹ قابض رہتے ہیں۔جو ان کے اشارئہ ابرو کے مطابق عمل کرتے ہیں۔اس ملک کو غیروں کی چراگاہ بنے ہوے گیارہ برس بیت گئے۔مشرف کی بے غیرتی ،بزدلی اور بد عملی کا سلسلہ پہلے سے بھی زور شور کے ساتھ جاری وساری ہے۔ جس کے نتیجہ میں پاکستا ن د نیا کی نظروں میں ایک بے وقار،کرپٹ اور طفیلی ریاست کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ یہ مسلم دنیا کی اکلوتی ایٹمی قوت ہے۔

داخلی طور پراس این آر او ”جنی‘ ‘ حکومت نے اس ملک کا جو حال کیا ہے ۔ وہ ایسا منظرپیش کرتا ہے گویا کسی ہرے بھرے کھیت میں کوئی اندھا بھینسا گھس آیا ہو۔اور اس نے اس کھیت کو کھلیان بنا کر رکھ دیا ۔ملک کا کوئی ادارہ کوئی محکمہ کوئی شعبہ اس حکومت کی دست برد ، لوٹ مار اور اکھاڑ پچھاڑ سے محفوظ نہیں رہا۔واپڈا ،ریلوے،پی آئی اے،سٹیل ملزاور قدرتی وسائل غرضیکہ سب کچھ اس حکومت کی طبعی جولانیوں کا تختہ مشق بن کرتباہی کے گڑھے کاکوڑا کرکٹ بن چکا ہے۔

این آر او کی پیداوار اس حکومت کے کارپردازان کو ایک یہ غلط فہمی بھی ہے کہ ملک کا آئین گویا ایک ممی ہے۔ جو موم کی بنی ہوئی ہے۔اسے جس من پسند شکل میں ڈھالناچاہیں ہم ڈھال سکتے ہیں۔ اور عدلیہ جو ان کی کھر مستیوں کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ان کی آنکھوں میںخار بن کر کھٹک رہی ہے۔اس کا علاج حکومتی بزرجمہروں نے جو تجویذ کیا ہے۔وہ یہ ہے کہ اسے پیس کر سرمہ بنا لیں۔

ملک کی خارجہ پالیسی پوری طرح امریکہ کے تابع ہے تو داخلی اقتدار پر اس کے گماشتوں کی گرفت ہے۔حد ہے۔ اکیسویں صدی میںایک ایٹمی قوت کی حامل مملکت کے حکمران امریکہ ہی کو اپنا آقا اور ان داتا سمجھتے ہیں۔ اس کی مرضی کے بغیر کسی دوسرے ملک سے گیس اور بجلی تک وہ نہیں لے سکتے۔شایدوہ اپنے وسائل بھی بروئے کار نہیں لاسکتے۔ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ساری صنعت کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے۔بیروزگاری کے ساتھ کارکنوں اور مزدوروں کے چولھے ٹھنڈے پڑگئے ہیں۔تو پھر ان غلاموں کی غلامی میں۔۔ہم جی کر کیا کریں گے۔ یہ جینا بھی کوئی جینا ہے؟

اللہ اپنی ہدایات سے روگردانی کرنے والوں پر خود بھی لعنت کرتا ہے اور سب لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت کرتے ہیں۔جب بھوک کے مارے بچے،بوڑ ھے اور دکھے ہوے لوگ رات کوسونے سے پہلے لعنت کریںاور پھرسوئیں۔اور صبح اٹھتے ہی پھر لعنت پھٹکار کرنی پڑے ۔ توبھلا یہ جینا بھی کوئی جینا ہے؟

اے اللہ!پاکستان کو ایسی جاندارقیادت عطافرمادے۔جوامریکہ کوافغانستان سے روس کی طرح بھاگنے پرمجبورکردے۔۔۔
Rao Muhammad Jamil
About the Author: Rao Muhammad Jamil Read More Articles by Rao Muhammad Jamil: 16 Articles with 11233 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.