کسی بھی ریا ست کے تین بنیا دی
ستون ،عدلیہ ،مقنیہ اور انتظامیہ ہو تے ہیں اور ریا ست کا چو تھا قا نون
صحا فت ہے کو پو ری سلطنت کو ہر معا مل سے با خبر رکھتا ہے ۔کو ئی بھی ریا
ست اور سلطنت اس وقت تک مستحکم نہیں ہو سکتی جب تک اس میں صحافت کا شعبہ آ
زاد اور مضبو ط نہ ہو ایک صحافی صرف اپنی سلطنت کے بڑے کا موں ہر تنقید کر
نے کے لئے نہیں ہو تا بلکہ وہ ریا ست کے جملہ اچھے کا موں کی تفصیلات ریاست
کے ہر شہری تک پہنچا یا ہے ۔تا ریخ عالم کے مطالعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ ہر
ریا ست میں صھافت کا شعبہ قا ئم رہا ہے۔یہ الگ با ت ہے کہ ان کی صورتیں
اپنے اپنے زمانہ کے لحاظ سے الگ ہو تی تھیں ۔حضرت سلیمان ؑ کو ریا ست کی
خبریں ہو ا پہنچا یا کر تی تھی ۔اس طرح بعض پر ندے بھی یہ ڈیو ٹی دیتے تھے
۔بعض ریا ستوں میں منتخب افراد خبر رسا نی کا کام کر تے تھے۔جس طرح
ہندوستان میں مغلیہ حکمرانوں نے ہر کا رے رکھے ہو تے تھے جو ریا ست بھر کی
خبریں با شا ہوں تک لاتے تھے ۔
غرض صحا فت ریا ست کا وہ ستون ہے اگر مضبوط ہو تو پو ری ریا ست کا نظام در
ست چل سکتا ہے ور نہ مال و دولت اور عیش و عشرت کے پجا ری حکام پو ری سلطنت
کو یر غمال بنا لیتے ہیں جب تک اسلا می ریا ستیں ،خلا فت کی صدت میں قا ئم
رہیں تو شعبہ صحافت بھی صحیح ڈگر پر چلتا رہا ۔جب خلافت کا شیرازہ بکھر گیا
۔تو پھر قیاش حکمرانوں کی من ما نیوں کو عوام تک پہنچانے کا سلسلہ بھی
منقطع ہو گیا ۔حکمرانوں نے اصھاب قلم کو اپنی مر ضی کے مطا بقانتقام کر نا
شروع کر دیا اور وہ سیا ہ سفید کے مالک بن بیٹھے ۔
ہم اپنے ما ضی قریب کے دورپر نظر ڈالیں تو بر صغیر وپاک و ہند میں ، بر طا
نوی راج کے تسلط کے باوجود ایسے نا مور اصحاب قلم کی جد و جہد نظر آ تی ہے
کہ جیسے ہم بلا مبالغہ ایشیا ءمیں اسلا می صحافت کا دور اوّل کہہ سکتے ہیں
۔انہوں نے انگریز کی سخت سچمنی کے با وجود اسلام اور حق کی دعوت کا کام سر
انجام دیا ۔ایک نظریہ اور مشن قوم کو دسنے کے لئے مختلف اخبارات اور رسائل
کا اجرائ کیا کا غذ کے فقدان کا تبوں کی عدم دستیابی اور پریس مشینوں سے
محرو م ہو نے کے با وجود ان چند وار ثین علوم نبوت نے امت مسلمہ کی شیرازہ
بندی عقا ئد و نظریات کے تحفظ کی خاطر با طل نظام سے ٹکراؤ کیا ۔خود مصائب
و آ لام کے دریا عبور کیے ،اپنی زندگی کے قیمتی ما ہ وسال جیل میں بھی
گذرنے پڑے لیکن اپنے مشن پر ڈٹے رہے ۔اور باطل نظام کا تسلط قبو ل نہیں کیا
۔بر صغیر میں جن عظییم شخصیات کی تقریریں اور تحریروں نے جو انقلاب بر پا
کیا ان میں مو لا نا ظفر علی خان ،خطیب الہند مو لا نا ابو الکلام آ زاد
،مو لانا محمد علی جو مہز ،علا مہ محمد اقبال اور شورش کشمیری تھے۔
مو لا نا ظفر علی خان کا اخبا ر زمیندار ،مو لانا ابو الکلام آ زاد کا
اسہلال اور تر جمان القرآن علی برادران کا ندائے خلافت اور عبدالکریم شورش
کا شمیری کا چٹان ،یہ وہ خبارات و جرئد تھے جہنوں نے بر طا نوی سا مراج کی
ریا ست کی جو لیں ہلا کر رکھ دی تھیں ۔ان اخبارات پر کئی بار پا بند یاں
لگیں ،مدیران کو سزائیں بھی دی گئیں لیکن یہ مردان حق کلمہ حق کہنے اور
سننے سے با زنہیں آ ئے اور اسیجدو جہد کی بدولت ہند کی عوام کو نظریہ
پاکستان بلا اور جن کی وجہ سے ہند وستان کی سر زمین ،بر طانوی تسلط سے آ
زاد ہو ئی بالآ خر انگریزی حکومت کا خاتمہ ہوا۔
اسلا می صحافت کا یہ سنہری دور اگر جاری رہا تو آ ج اہل اسلام دنیا کے
اقتدار کے مالک ہو ئے لیکن بد قسمتی سے ان نا مور اصحاب قلم کے بعد راسخ
العلم اور جری قلم کا ر اس سر زمین کو نصیب نہ ہو سکے ۔جس کی وجہ سے حکمران
طبقہ نے جو کہ خود بھی بے دین تھا بے دین لو گوں کو ہی صحافت کی کا ر پر
داز عنایت کی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نام نہا د دانشوار اور صحافی قومی
و علا قائی اخبارات میں امت مسلمہ کے خلاف زہر ا گھنے لگے ۔مدارس و مسا جد
اور مین مراکز کی خو بیاں عوام الناس تک پہنچانے کی بجائے ان کے خلاف زہر آ
لود تحریر یں شا ئع کر نے لگے ۔اسلام کی تشر یخ منتشرتین کے اسلوب ہر ہو نے
لگی اور دین اسلام کی جڑوں پر حملہ کر نے کے منصوبے بننے لگے ۔اس تمام دور
میں انفرادی طور پر اس کفر یہ یلغار کو روکنے کے لئے چند دینی ،مذہبی و
سیاسی جما عتوں کے تر جمان رسائل نے ہندہ با ند ھنے کی کو شش کی جن میں ما
ہنامہ ”الجمعة“دہلی ،ماہنامہ ”الفر قان ’لکھنﺅ اور ”تر جمان القرآن
“کلکتہکی خد مات قابل زکر ہیں لیکن اس سیلاب کا راستہ بند نہ ہو سکا ۔
آ ج سے 15 سال قبل کرا چی ’پاکستان ‘کے ایک مرد قلندر مفتی رشید احمد لد
ھیانوی نے ایک ہفت روزہاخبار ”ضر ب مومن“کا اجرائکیا ۔یہ ایک ایسا جا ندارو
مضبوط قدم تھا جس نے مغرب زدہ صحا فت کے میدان میں ایک بھو نچال پیدا کر
دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پو ری دنیا میں اسلامی صحافت کا کثیر اشاعت جریدہ
گیا اس کے پانچ سال بعد 2001ءمیں کر اچی سے ہی روزنامہ ”اسلام“کی اشاعت
شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ اخبار بھی قومی اخبارات میں ایک مثالی
مقام پیدا کر گیا ۔آ ج کے دو ر میں یہ دو نوں اخبار اسلامی صحافت کے تر
جمان کی حیثیت سے جانے جا تے ہیں ۔ان اخبارات کی اشاعت سے کئی نئے قلم کا
پیدا ہو ئے جہنوں نے میدان صحافت میں اپنا لو ہا منوایا۔
انہی مر دان حق اور اصحاب قلم میں سے ایک نام اسلام آ باد قومی دارالخلافہ
کے وسط میں بیٹھ کر اسلامی صحافت کی تحریک چلانے والے مو لا نا عبدالقدوس
محمدی صاحب ہیں جو نظریاتی صحافیوں کی ایک ایسی کھیپ تیار کر رہے ہیں جو
ظفر علی خان اور ابو الکلام آ زاد کا کر داراد اکر ے۔مو لانا محمدی صاحب کو
اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلا حیتوں سے نوازا ہے ۔وہ گذشتہ چا ر سا لوں سے
اپنے ادارے میں مدار س میڈیا ور کشاپ کا انتظام کر تے ہیں گذشتہ 15سالوں کے
اپنی صحافی کیر یٹر کی بنا پر مضبوط رجا ل کا ر پیدا کر تے اور یہ اور ایک
ایسا کا ر نامہ ہے جو پو رے پاکستان میں کسی جگہ پر نہیں پو رے ملک سے
مدارس عربیہ اور کا لجز و یو نیور سٹیز کے اعلٰی تعلیم یا فتہ حضرات اس ور
کشاپ میںشریک ہو تے ہیں اور تین ہفتوں میں انہیں صحافت کے تمام بنیا دی
اصول و ضوابط اور اسلوب کی تر بیت دی جا تی ہے۔اور الحمداللہ اس ورکشاپ کا
ثمر معا شرہ مین نظر آ نا شروع ہو گیا ہے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دینی طبقہ کے
چند افراد مزید اس میدان میں آ جائیں تو گزشتہ ایک صدی سے پیدا ہو نے والا
خلا پر ہو جائے گا۔ |