کالج دور سے میں سوچتا تھا کہ
اللہ تعالٰی کیسے ہر ایک کی شہہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب اور کیسے ہر شے
پہ محیط ہے۔کئی سالوں کی سوچ کی اس کوشش میں میں نے محسوس کیا کہ کائنات
میں ہر نظام شمسی اپنے محور کے گرد گھومتا ہے،کائنات کا حدود اربعہ ناقابل
اندازہ ہے تاہم اس کے بھی نظام شمسی کی طرح گولائی میں ہونے کاخیال کیا جا
سکتا ہے۔اسی طرح کسی بھی شے کے چھوٹے سے چھوٹے ذرے کو ایٹم کہا جاتا ہے جس
کی تعریف میں کبھی اسے ناقابل تقسیم کہا جاتا تھا۔اس ایٹم کی ہیت بھی نظام
شمسی کی مانند ہے کہ جس میں الیکٹران،پروٹان اور نیوٹران اپنے مرکزے (نیو
کلئیس) کے گرد گھومتے ہیں۔اندازہ کرنا بھی مشکل ہے کہ انسان کے جسم میں
کتنے ایٹم ہو سکتے ہیں۔عشروں پہلے سے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جس دن ایٹم
کے مرکزے کا بھید کھل گیا اس دن کائنات کا راز بھی کھل جائے گا۔میری اس سوچ
کی تحقیق آخر یہاں پہنچی کہ ایٹم کے مرکزے کا اللہ تعالٰی سے کوئی تعلق ہے۔
سالہا سال کی سوچ و بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ انسان کے جسم کے
ہر ایٹم کے مرکزے کا اللہ تعالی کی ذات سے کوئی ’لنک‘ ہے،یوں میری سمجھ میں
یہی آیا کہ اسی طرح اللہ تعالی انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب
ہے۔اسی طرح کائنات کی ہر مرئی و غیر مرئی شے ایٹم کے مجموعے سے بنی ہے اور
ہر شے کے ہر ایٹم کا مرکزہ اللہ تعالی سے ’لنک‘ ہے۔ یوں اللہ تعالی انسان
کی شے رگ سے بھی قریب اور ہر شے پہ محیط ہے۔میری سمجھ میں یہی آیا ۔ یہی
بات اب سائینس کی تحقیق و تجربات سے اس صدی کی سب سے بڑی سائینسی
دریافت”گارڈ پارٹیکل“ کے طور پر سامنے آئی ہے۔
چار جولائی کو جب جنیوا میں سائنس دانوں نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں
گاڈ پارٹیکل کی دریافت کا اعلان کیا تو اس موقع پر سب سے پہلے بڑی ٹیلی
ویڑن سکرین پر اس نظریے کے خالق پروفیسرہگز بوسن نے کہا کہ میری سب سے بڑی
خوش قسمتی یہ ہے کہ میں نے اپنے نظریے کی سچائی اپنی زندگی میں ہی ثابت
ہوتے ہوئے دیکھ لی ہے۔گارڈ پارٹیکل کی دریافت کو اس صدی کی سب سے بڑی
سائنسی دریافت قرار دیا جارہاہے۔
گاڈ پارٹیکل ایٹم کے اندر پایا جانے والا ایک بہت ہی مختصر ذرہ ہے جس کا
وزن اندازاً ہائیڈروجن گیس کے ایٹم سے، جو دنیا کا سب سے ہلکا ایٹم ہے، 130
گنا کم ہے۔کسی بھی چیز کا ایٹم الیکٹران، نیوٹران اور پروٹان سے مل کربنتا
ہے۔ لیکن انہیں ایک مرکز پر اس طرح اکٹھا کرنے کا کام کہ وہ ایک ایٹم کی
شکل اختیار کرلیں، گارڈ پارٹیکل کرتا ہے۔ جوہری اجزا انتہائی تیز رفتار
ہوتے ہیں، جنہیں گارڈ پارٹیکل اپنی جانب کھینچ کر ان کی رفتار کم کردیتا ہے
اور وہ ایک ایٹم کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔کائنات میں مادے کی عام اشکال
ٹھوس مائع اور گیس ہیں۔ اگر گارڈ پارٹیکل نہ ہوتا تو اس کائنات میں ستاروں،
سیاروں اور کہکشاؤں اور ان پر آباد دنیاؤں کی بجائے صرف توانائی کی لہریں
ہی ہوتیں۔
1964ءمیں ایڈن برگ میں واقع برطانیہ کی سکاٹ لینڈ یونیوسٹی کے سائنس دان
ہگز بوسن نے ایک پراسرار جوہری ذرے کا نظریہ پیش کیا۔ تخلیق کائنات کے ماڈل
کی جدید عمارت ان کے نظریے پر کھڑی ہے۔ تصوراتی پراسرار ذرے کانام ان کے
اپنے نام پر ہگز بوسن رکھا گیا۔ بعدازاں اس موضوع پر گارڈ پارٹیکل کے نام
سے کتاب شائع ہوئی ، جس کے بعد پراسرار ذرہ عمومی طور پر گاڈ پارٹیکل کے
نام سے مشہور ہوگیا ۔ سائنس دان اس نظریے پر متفق ہیں کہ کائنات ایک بہت
بڑے دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ جسے بگ بینگ کہاجاتا ہے۔ بگ بینگ سے
قبل ایک بہت بڑا گولا موجود تھا جو اپنی بے پناہ اندرونی قوت کے باعث پھٹ
کر بکھر گیا۔گولہ پھٹنے سے لامحدود مقدار میں توانائی بہہ نکلی اور تیزی سے
پھیلنے لگی۔بگ بینگ کے بعد ایک سیکنڈ کے ایک ارب ویں حصے میں گارڈ پارٹیکل
وجود میں آگیا اور اس نے توانائی کے بے کراں سیلاب کو اپنی جانب کھینچنا
شروع کیا۔بنیادی طور پر توانائی کی دو اقسام کی ہے ، ایک وہ جو گاڈ پارٹیکل
کی کشش قبول کرتی ہے اور دوسری وہ جس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔اس وقت
کائنات میں بکھری ہوئی توانائی کا زیادہ تر حصہ وہی ہے جسے گاڈ پارٹیکل
اپنی جانب کھینچ نہیں سکا۔
کوئی بھی سائنسی نظریہ وجود میں آنے کے بعد لیبارٹری میں اس کی سچائی کی
تصدیق کی جاتی ہے۔ہگز بوسن کے نظریے کی تصدیق کا کام اگرچہ پچھلی صدی کے
آخر میں شروع ہوگیا تھا لیکن بڑے پیمانے پر اس تحقیق کا آغاز پارٹیکل فزکس
کی دنیا کی سب سے بڑی تجربہ گاہ لارج ہیڈرن کولائیڈر کے قیام کے بعد ہوا۔
اربوں ڈالر مالیت کی اس تجربہ گاہ میں حلقے کی شکل میں 17 میل لمبی زیر
زمین سرنگ بنائی گئی۔ جس کے دونوں سروں پر نصب طاقت ور آلات کے ذریعے جوہری
ذرات کی لہریں اس انداز میں بھیجی گئیں کہ وہ اتنی قوت سے ایک دوسرے سے
ٹکرائیں ان کے جوہری ذرات ٹوٹ کر بکھر جائیں اور وہی شکل اختیار کرلیں جو
اربوں سال پہلے بگ بینگ کے وقت تھی۔جوہری ذروں کے ٹکراؤ کے نتیجے میں پیدا
ہونے والے ڈیٹا کو ہزاروں کمپیوٹروں کے ذر یعے پراسس کیا گیا۔ سائنس دانوں
کی دو الگ الگ بڑی ٹیموں نے علیحدہ علیحدہ تجربات کیے اوران کے نتائج کو
باربار پرکھا۔4 جولائی کو اس صدی کی سب سے بڑی سائنسی دریافت کا اعلان کرتے
ہوئے سائنس دانوں کہا کہ انہیں اپنے نتائج کی صداقت پر پانچ سیگما تک یقین
ہے۔ سائنسی اصطلاح میں سیگما سے مراد ایک ارب واں حصہ ہے۔ یعنی اس دریافت
میں غلطی کا امکان ایک ارب میں صرف پانچ ہے۔ |