ۤتمام محاسن و مکارم اللہ عزوجل کے لیے اور
درودوں کے تحفے حضور اکرم نورمجسم ؐ کے لیے ۔ربّ تعالٰی کی ہر تخلق سے اس
کی کاریگری ٹپکتی ہے ۔وہ کریم ہے رحیم ہے ،رحمٰن ہے ،فتاح ہے ،علیم ہے ۔سبحان
اللہ !میرا ربّ پیارا ربّ ہے ۔میں گناہ کرتاہوں ۔میں خطا کرتاہوں ۔لیکن جب
بھی اس سے اقبال ِ جرم کرتاہوں اس کے فضل سے مغفرت کا امیدوار رہتاہوں ۔کیونکہ
وہ میراربّ ہے ۔جو دیتاہے لیتاکچھ نہیں ۔اس کریم ربّ نے اپنے تعارف ،اپنی
پہچان کے لیے اپنے چنے ہوئے بندے بھیجے جنھوں نے کرہئ ارض پر اپنے سوہنے ،پیارے
ربّ کی معرفت کا چرچہ کیا۔شرق و غرب ،جب و جہاں ،جیسے اور جس طرح ہوسکااپنے
خالق و مالک کی رضا کے لیے کوشش کی اور اپنی مراد کو پہنچ گئے ۔انہی عظیم
اور بامراد ہستیوں میں ایک عظیم ہستی حضرت ادریس علیہ السلام بھی ہیں ۔
آئیے !اب ہم حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کرتے
ہیں ۔
حضرت ادریس علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان ایک ہزار سال
کا فاصلہ ہے ،یہ حضرت نوح علیہ السلام کے والد کے دادا ہیں۔آپ کانام اُخنوخ
ہے۔
نسب:
آپ کانسب اُخنوخ بن یَرِد بن مَھْلابِیل بن اَنُوش بن قِیتان بن شیث بن آدم
علیہ السلام ۔
ایجادات کا دور:
آپ کی ایجادات بے شمارہیں جن سے آج تک دنیاتک مستفیدہورہی اورہوتی رہے
گی،وہ یہ ہیں۔
سب سے پہلے ستارو ں میں نظر کرنا اور حساب کرنا آپ سے ہی ثابت ہے ۔اس کے
علاوہ دنیاکاکام علم حاصل کرناہے جس کا ذریعہ فقہافرماتے ہیں علم کولکھ
کرقیدکرلوجی ہاں قلم کااستعمال ۔قلم کے ذریعے لکھنے کو سب سے پہلے آپ نے
رواج دیا ۔جبکہ کپڑوں کے سینے اورسلے ہوئے کپڑوں کوپہنے کی ابتداء بھی آپ
سے ہی ہے،اس سے پہلے لوگ چمڑے کا لباس استعمال کرتے تھے سب سے پہلے چیزوں
کے وزن کرنے اور کپڑے وغیرہ کو ناپنے کو آپ نے ہی رواج دیا ۔سب سے پہلے
اسلحہ کی ایجاد بھی آپ ہی نے فرمائی ۔حضرت آدم علیہ السلام کے بعد پہلے
رسول آپ ہی ہیں اور آپ پر تیس صحیفے نازل ہوئے ۔
ادریس کیوں کہلائے:
اس کے علاوہ آپ کا اصل نام توادریس نہیں بلکہ اُخنوخ ہے مگرآپ کوادریس کی
کہنے کی وجہ چونکہ آپ اللہ تعالیٰ کی کتابوں سے بہت زیادہ درس دیاکرتے ہوئے
اس وجہ آپ کونا م ادریس یعنی بہت زیادہ درس دینے والاپڑا۔آپ کالقب اس قدر
مشہورہوگیاکہ لوگ آپ کے اصلی نا م سے ناواقف ہوگئے اورقرآن پاک میںبھی آپ
کوادریس کے نام سے ہی پکاراکیاگیا۔جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :اور
کتاب میں ادریس کویاد کروں وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا اور ہم نے اسے
بلند مقام کی طرف اٹھایا۔
مشہورتاریخ ساز واقعات:
ان کے مشہورواقعات میں سے ایک حضرت کعب احباررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی
ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام نے ملک الموت یعنی حضرت عزرائیل علیہ السلام
سے فرمایا: میں موت کا مزہ چکھنا چاہتا ہوں ،کیا ہوتا ہے تم میری روح قبض
کرکے دکھاؤ،انہوں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی روح قبض کرکے پھر اسی وقت
لوٹادی آپ زندہ ہوگئے۔
پھر آپ نے فرمایا مجھے جہنم دکھا دو تاکہ خوف الہٰی زیادہ ہو۔آپ کے ارشاد
کی تعمیل کرتے ہوئے آپ کو جہنم کے دروازے لے جایا گیا ۔آپ نے مالک نامی
فرشتہ جو جہنم کا داروغہ ہے ۔۔۔سے فرمایا دروازہ کھولومیں اس سے گزرنا
چاہتا ہوں ،چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ اس پر سے گزرے پھر آپ نے ملک
الموت سے فرمایا کہ مجھے جنت دکھاؤ وہ آپ کے حکم کے مطابق آپ کو جنت کے پاس
لے گئے آپ نے جنت کا دروازہ کھولنے کا ارشاد فرمایا: تو آپ کے لئے جنت کے
دوازے کھول دئے گئے آپ جنت میں تشریف لے گئے۔
ملک الموت نے کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد فرمایااب آپ زمین میں اپنے مقام
پر تشریف لے چلیں آپ نے فرمایا میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا کیونکہ اللہ
تعالیٰ نے فرمایا : ہر نفس نے موت کا مزہ چکھنا ہے میں نے ذائقہ چکھ چکا
ہوں پھر اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل ہونے کی یہ شرط لگائی ہے کہ ہر شخص کو
جہنم پرسے گزر نا ہے ۔میں جہنم سے بھی گزر چکاہوں ۔اب جنت میں داخل ہوچکا
ہوں اورجو لوگ جنت میں داخل ہوجاتے ہیں انہیں وہاں سے نکالا نہیں جاسکتا
کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا ارشاد گرامی ہے جنت والوں کو جنت سے نہیں
نکالا جائے گا۔اللہ تعالیٰ کے ارشادات کے مطابق میں نے یہیں رہنا ہے یہاں
سے مجھے نہیں نکالا جاسکتا ۔
حضرت ادریس علیہ السلام کے اس کلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو
فرمایا اے عزرائیل میرے بندے ادریس نے سب کام میری مرضی سے کئے ۔انہیں یہاں
ہی رہنے دو !آپ علیہ السلام ابھی تک آسمانوں میں زندہ ہیں۔
یہاں ہم گفتگواختتام کی طرف لیکرچلتے ہیں۔
اللہ عزوجل !اپنے انبیاء کے صدقے ہمارے مغفرت فرمائے اور ہمیں دین متین پر
استقامت کی دولت عطا فرمائے۔
آمین |