طالع آزماﺅں کے دور میں ہماری
عدالتیں طالع آزماﺅں کو آئین میں تبدیلی کا اختیار بھی دیتی ہیں اور ان کے
شب خو نوں کو جائز بھی قرار دیتی ہیں لیکن جب جمہوری حکومتیں آ تی ہیں تو
پھر عدلیہ کو آئین کی پاسداری کا مرض لا حق ہو جاتا ہے جو پورے ملک میں
جمہوری روایات کو کمزور کرنے اور غیر یقینی صورتِ حال پیدا کرنے کا باعث بن
جاتا ہے حالانہ عدلیہ کو پارلیمنٹ کی مضبوطی اور آئین کی بالادستی کی خاطر
پارلیمنٹ کے ہاتھ مضبوط کرنے چائیں تا کہ غیر یقینی کے سارے بادل چھٹ
جائیں۔عدلیہ کو پارلیمنٹ کے قانون سازی اور آئین سازی کے حق کو تسلیم کرنا
چائیے تاکہ کوئی آمر دوبارہ شب خون مارکر جمہوری بسا ط کو لپیٹنے کی جرات
نہ کر سکے ۔یہ بات ساری دنیا کے علم میں ہے کہ 12 اکتوبر1999 کے ماشل لائی
اقدام کو سپریم کورٹ نے نہ صرف جائز قرار دیا تھا بلکہ جنرل پرویز مشرف کو
آئین میں اپنی مرضی کی تبدیلیوں کا اختیار بھی سونپا تھا ۔ سپریم کورٹ کے
اسی فیصلے کی روشنی میں جنرل پرویز مشرف نے تمام اختیا رات اپنی ذات میں
مرکوز کر لئے تھے جسے موجودہ حکومت نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے
پارلیمنٹ کو واپس لوٹائے ہیں جس سے پارلیمنٹ کی مضبوطی کا سفر دوبارہ شروع
ہو گیا ہے ۔ساری دنیا میں پارلیمنٹ کو ہمیشہ سب سے بالا تر ادارہ تسلیم کیا
جاتا ہے کیونکہ عوام اپنے ووٹ سے اسے ہی حقِ حکمرانی تفویض کرتے ہیں۔ اس
بات پر تو بحث ہو سکتی ہے کہ پارلیمنٹ عوامی توقعات پر پورا کیوں نہیں
اترتی اور عوامی مسائل کو حل کرنے میں اس حد تک کیوں نہیں جاتی جس حد تک
لوگ اس سے توقعات وابستہ کر لیتے ہیں لیکن اس پر کوئی دو رائے نہیں کہ حقِ
حکمرانی صرف پارلیمنٹ کو ہی حاصل ہے ۔ دنیا کا کوئی ادارہ پارلیمنٹ کا نعم
ا لبدل نہیں ہو سکتا اور نہ اس کی بالا دستی کو کمزور کر سکتا ہے کیونکہ
سارے ادارے پارلیمنٹ کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔یہ پارلیمنٹ کی صوابیدید پر
ہو تا ہے کہ وہ کس قسم کی قانون سازی کرنا چاہتی ہے اور کس طرز کا نظامِ
حکومت رائج کرنا چاہتی ہے کیونکہ پارلیمنٹ کی مرضی اور منشاءکو کسی دوسرے
ادارے کی خواہشوں کے تابع نہیں کیا جا سکتا۔سپریم کورٹ کسی قا نون کی تشریع
ضرور کر سکتی ہے لیکن کسی آئینی شق کو آئین سے نکال باہر کرنے کی مجاز نہیں
ہو تی اور ر نہ ہی آئین میں کسی قسم کا کوئی اضافہ کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ
ان قوانین پر نظر ثانی کا حق ضرور رکھتی ہے جہاں پر کوئی ابہام پایا جا تا
ہولیکن جہاں پر ابہام موجود نہ ہو اسے نظر ثانی کے زمرے میں لانا پارلیمنٹ
کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہو تا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے اندر جب
ججز کی تعیناتی کےلئے ایک طریقہ کار وضع کیا گیا تو سپریم کورٹ کو اس پر
تحفظات تھے اور اس نے وہ بل پارلمینٹ کو نظر ثانی کےلئے واپس بھیج دیا تھا
۔ پارلیمنٹ نے ان اعتراضات پر نظر ثانی کر کے انیسویں ترمیم میں انھیں
دوبارہ آئین کا حصہ بنا دیا تھا لہذاا گر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ کسی بھی
آئینی شق یا قانون سازی کو سپریم کورٹ اپنی صوابیدید ی قوت سے ردی کی ٹوکری
میں پھینک سکتی ہے تو وہ غلط سوچ رہاہے ۔فرض کریں کہ توہینِ عدالت کے مجوزہ
قانون پر سپریم کورٹ ایسا کرتی ہے تو پھر سپریم کورٹ آئین میں دئےے گئے
اختیارات سے تجا وز کر جائے گی اور اس کے اپنے کردار پر سوا لیہ نشان لگ جا
ئے گا ۔ ایک ایسا پنڈورا باکس کھل جا ئےگا جس کے انجام کے بارے میں کچھ بھی
کہنا قبل از وقت ہو گا۔یہ سچ ہے اس وقت سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے درمیان
ایک تصادم اور کھینچا تانی کی کیفیت موجود ہے جس میں اس بات کے قوی امکانات
ہیں کہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ توہینِ عدالت بل کو سپریم کورٹ عدلیہ کی
آزادی پر حملے کا نام دے کر غیر فعال کر دے اور یوں وہ کچھ ہو جائے جو پورے
جمہوری نظام کی بساط لپیٹ کر رکھ دے لہذا سپریم کورٹ کو ذاتی انا سے بلند
ہو کر سوچنا ہو گا ۔اسے فیصلہ کرنا ہو گا کہ اس کی ذاتی انا بڑی ہے یا
جمہور ی نظام بڑا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی جمہوری نظام کے حق میں ہو نا
چائیے کیونکہ آمریت کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ا ب عدلیہ کے فیصلے جمہوری
نظام کو تقویت عطا کرتے ہیں یا طالع آزماﺅں کو ا اس ملک کی قسمت سے کھیلنے
کا موقعہ فراہم کرتے ہیں اس کا فیصلہ بھی بہت جلد ہو جائے گا۔۔
موجودہ حکومت نے عدلیہ کے ایکٹو ازم میں انتہائی صبر و تحمل کا مظا ہرہ کیا
ہے اور قانون کی سربلندی اور عدلیہ کے احترام میں اپنے وزیرِ اعظم کی
قربانی دی ہے لیکن اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ حکومت اس دفعہ قربانی کا بکرا
بننے کےلئے تیار نہیں ہے اگر اس دفعہ بھی سپریم کورٹ نے توہینِ عدالت کی آڑ
میں پرانی تاریخ دہرانے کی کوشش کی تو پھر حکومت بھی پیچھے نہیں رہےگی
اورعدلیہ کے چہرے پر چڑھے ہو ئے جانبد داری کے نقاب کو نوچ پھینکے گی۔آزاد
عدلیہ کے بہت سے حواری ابھی سے چھریاں چاقو تیز کر کے بیٹھے ہو ئے ہیںاور
توہینِ عدالت کے قانون کے خلاف میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں ۔وہ حکومت کے
خلاف ایک محاذ تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور پھر گلی گلی وہی نعرے
بازی ہو گی وہی بساط بچھائی جائےگی جس میں حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور
کرنے کی کوشش کی جائےگی لیکن ایسا سوچنے والے بھول جاتے ہیں اس وقت ملک میں
جنرل پرویز مشرف کی نہیں بلکہ پی پی پی کی حکومت ہے جس نے ججز کو بحال کیا
تھا اور عدلیہ تحریک میں اپنا لہو دیا تھا لہذا ایسے ہتھکنڈوں سے وہ دبنے
والی نہیں ہے وہ جمہوریت کی حفاظت کےلئے کسی بھی حد تک جائےگی لیکن
پارلیمنٹ کو کسی بھی گروہ کی غنڈہ گردی اور دھونس دھاندلی کا یرغمال نہیں
بننے دے گی۔توہینِ عدالت قانون کے منظور ہونے سے حکومت یکسوئی سے حکومتی
معاملات کو چلانے میں اپنی توانائیاں صرف کرنا چاہتی ہے اور عوامی فلاح و
بہبود کےلئے اپنا قبلہ درست کرنا چاہتی ہے لیکن آزاد عدلیہ نے اس کا ناطقہ
بند کر کے اسے الجھا رکھا ہے ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ ججز نے
پی سی او کے تحت حلف اٹھا یا ہوا ہے اور یہ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی
صوابیدید پر تھا کہ وہ ان پی سی او ججز کو بحال کرتے یا انھیں فارغ کر دیتے
لیکن انھوں نے عوامی خواہشات کی پاسداری کرتے ہوئے انھیں بحال کر دیا تھا
لیکن اس نے اپنے عمل کی وہ قیمت چکائی جو جمہوری تاریخ میں اپنی مثا ل نہیں
رکھتی۔ یہ زہر کا پیالہ تھا جسے پی پی پی کی حکومت نے خود ہی پیا تھا اور
زہر تو آخر زہر ہے جو اپنے اثرات دکھا کر رہتا ہے ۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ
کوئی زہر تو پی لے لیکن اس سے شہد کے اثرات تلاش کرتا پھرے۔ سنکھیا کا نام
مِشری کی ڈلی بھی رکھ لیا جائے تو وہ رہے گا سنکھیا ہی ااور اس سے ہلا کت
یقینی ہوگی ۔ وزیرِ اعظم پاکستان کی قربانی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ایک
زلز لہ تھا جس نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ عدلیہ کی آزادی کے
متوالے تو اس پر جشن برپا کئے ہو ئے تھے۔ اور جشن برپا کرنا انکی پرا نی
روائت ہے۔ وہ ا پنے مخالفین کے قتل پر ایسے ہی جشن برپا کئے کر تے ہیں۔ ان
کی ساری زندگی ایسے جشن مناتے ہی گزر گئی ہے اور وہ اسی طرح کے ایک اور جشن
کی امید بھی لگائے ہو ئے ہیں لیکن شائد اس دفعہ ان کے جشن منانے کی آرزو
پوری نہ ہو کیونکہ موجودہ حکومت خم ٹھونک کر میدان میں نکل آئی ہے۔اس میں
کوئی شک نہیں کہ چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری سے عوام نے انصاف کی امیدیں
وابستہ کر رکھی تھیں اور چاہتے تھے کہ انصاف کا ایسا نظام متعارف ہو جائے
جس میں انھیں فوری اور سستا انصاف مہیا ہو جائے لیکن ان کی یہ خواہش پوری
نہیں ہوسکی کیونکہ عدالتوں میں وہی پرانی روش کا دور دورہ ہے اور انصاف کا
حصول ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔
میری ذاتی رائے ہے کہ موجودہ عدلیہ چونکہ حکومت سے تصادمی محاذ پر ہے لہذا
اس عدلیہ سے موجودہ حکومت کو انصاف ملنے کے امکانات بالکل معدوم ہیں۔پچھلے
چار سالوں سے تو یہی دیکھنے میں آرہا ہے کہ عدلیہ حکومت کو کچھ بھی کرنے
نہیں دے رہی بلکہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر
رہی ہے جس کا سارا فائدہ حکو مت کے مخالفین کو پہنچ رہا ہے۔ حکومت کو ئی
بھی بڑا فیصلہ کرتی ہے عدلیہ اس پر خطِ تنسیخ پھیر دیتی ہے اور اچھی حکوت
کی آرزو ملیا میٹ ہو کر رہ جاتی ہے ۔ حکومت اپنا سارا وقت اپنے بچاﺅ کی
تدابیر میں ضائع کر تی رہتی ہے لہذا عوامی فلا ح و بہبود کاشعبہ ان کی
نگاہوں سے قدرے اوجھل رہتا ہے۔پی سی او ججز کے بارے میں افتحار محمد چوہدری
نے اپنے حالیہ فیصلے میں انھیں نااہل قرار دے رکھا ہے حالانکہ وہ خود بھی
پی سی او جج ہیں لیکن اس فیصلے کا اطلاق اپنی ذات پر نہیں کرتے اور جب کوئی
انھیں یاد دلانے کی کوشش کرتا ہے تو پھر وہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف اپنے
موقف کو ڈھال بنا کر ایسے ہر اعتراض کو رد کر دیتے ہیں۔قانون کی نظر میں
اخلاقی پہلو وں کی نہیں بلکہ قانونی پہلووں کی اہمیت ہو تی ہے۔ بادی ا لنظر
میں جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے سامنے ان کا ڈٹ جانا ایک جرات مندانہ
اظہار ہے اور قوم اس باجرات کارنامے پر ان کا احترام کرتی ہے لیکن سچ تو یہ
ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف ان کی مورچہ بندی بھی ان کی اپنی ذات کے
دفاع میں تھی جسے انصاف وقانون کی جنگ بنا کر پیش کیا گیا لیکن اس سے یہ
حقیقت کہ وہ پی سی او جج ہیں پھر بھی بدل نہیں سکتی۔حکومت اگر چاہے تو وہ
اسی پی سی او کے فیصلے کو بنیاد بنا کر انھیں چیف جسٹس کے عہدے سے فارغ کر
سکتی ہے اور ان کی جگہ نیا چیف جسٹس نامزد کر سکتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح
میاں محمد نواز شریف نے اپنے دورِ حکومت میں 1998 میں سید سجاد حسین شاہ کے
فیصلے کی بنیاد پر انھیں چیف جسٹس کے عہدے سے سبکدوش کر کے میاں محمد اجمل
کو نیا چیف جسٹس نامزد کر دیا تھا لیکن اس کےلئے جراتِ رندانہ کی ضرورت ہے
جو موجودہ حکومت میں مفقود نظر آ رہی ہے۔یہ کام بہت اہم بھی اور بہت مشکل
بھی ہے لیکن اس فیصلے کے بغیر چارہِ کار بھی نہیں ہے۔ ملک کی ناﺅ کو غیر
یقینی کے بھنور سے نکالنے کےلئے ایسا کرنا اشد ضروری ہے۔ یہ سچ ہے کہ
کلاءبرادری اس فیصلے کے خلاف عدلیہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کےلئے سڑکوں پر
نکل آئے گی اور نئے ججز کی نامزدگی میں دیوار بن جائے گی اور وہ وکلاءجو
حکومت کا ساتھ دینے کی جرات کریں گئے ان کے خلاف تادیبی کاروائی کرے گی
لیکن حکومت کو ریاستی رٹ کی بحالی کی خا طر کچھ بڑے فیصلے کرنے ہوں گئے اور
اگر کوئی گروہ اور جماعت اس رٹ کو چیلنج کرنے کےلئے میدان میں کودتی ہے تو
بہتر حکمتِ عملی اور عوامی حمائت سے اسے ناکام بنا ہوگا ۔ وہ وکلاءجو
بیرسٹر اعتزاز احسن، زاہد بخاری اور عاصمہ جانگیر جیسے نامی گرامی وکلاءکو
حکومتی مقدمہ لڑنے کی وجہ سے غداروں کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں تو اس
بات کا اندازہ لگانے میں چنداں دشواری نہیں ہونی چائیے کہ نئی عدلیہ کو
نامزد کرنے پر وہ کونسا طوفان برپا نہیں کریں گئے۔وہ موجو دہ چیف جسٹس
افتخار محمد چوہدری کےلئے کسی بھی حد تک جانے کےلئے تیار ہوں گئے اور
حکومتی اقدامات کے خلاف بھر پور مزاحمت کریں گئے لیکن اگر پارلیمنٹ کی بالا
دستی کو قائم رکھنا ہے، جمہوریت کو بچانا ہے اور ملک کو غیر یقینی کی کیفیت
سے نکا لنا ہے تو پھر یہ کڑوا گھونٹ تو پینا ہی پڑے گا۔۔۔۔ |