فضائل و مسائل ِرمضان ُالمبارک

محمد برھان الحق جلالیؔ (وائس پرنسپل المعصوم شرعیہ کالج و صفہ اکیڈمی)
ؔ(فاضل جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور، ایم ۔اے،بی۔ایڈ۔بی۔ایم۔ایس۔ایس،ٹی ۔این ۔پی)

مالک کون ومکاںخدا وند قدوس نے ہمیں بارہ مہینے عطافرمائے ہیں ان سب کی فضیلتیں اپنی اپنی جگہ مسلم ّہیں ۔سب فضائل کے حامل ہیں۔ مگر آقا کریم ؐ نے ارشاد فرمایا کہ شعبان ُشھری ورمضان ُشھرُ اللہ(شعبان میر ا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے ) نماز جسمانی عبادت ہے ۔زکوٰۃمالی عبادت ہے۔ اور روزہ باطنی عبادت ہے رمضان قلبی صفائی کا مہینہ ہے رمضان المبارک خیر ہی خیر والا مہینہ ہے۔رمضان المبارک رحمت ومغفرت اور آزادی جہنم کا مہینہ ہے ۔اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیریں ڈال دی جاتی ہیں۔

فضائلِ رمضان:۔
١:۔حضور نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا کہ'' رمضان کا نام رمضان اس لئے رکھا گیا ہے کیونکہ یہ گناہوں کو جلا دیتا ہے''۔
( کنزالعمال جلد نمبر ٨ صفحہ نمبر ٢٣٠)

٢:۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''جس نے ایمان اور خلوص ِ نیَّت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے سب گناہ بخش دئیے جائیں گے'' ۔
( مشکٰوۃ شریف صفحہ ١٧٣)

٣:۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ'' روزے دار کا سونا بھی عبادت ہے اس کی سانسیں تسبیح کرتی ہیں اور اس کے گناہ بخشے ہو ئے ہیں''۔
( نز ھۃ ُالمجالس جلد نمبر ١ صفحہ نمبر ٣٢٨)

رمضان کے بے شمار فضائل ہیںالمختصر اب اس کے مسا ئل ملاحظہ فرمائیں۔

مسائلِ رمضان ُالمبارک:۔
سحر ی و افطاری:۔
١:۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ــ''سحری کرنے میں تاخیر کرو اور افطاری کرنے میں جلدی کرو ''مگر اتنی تاخیر نہ کی جائے کہ اذان فجر کا وقت شروع ہو جائے یاد رہے کہ اذان فجر کا وقت سحری کے وقت کے ختم ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے اور وہ لوگ جو سحری میں فجر کی اذان کے ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور کھاتے رہتے ہیں وہ اپنے روزے کو ضائع کر رہے ہیں ۔اگر سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد آپ نے ایک لقمہ بھی کھایا تو آپ کا روزہ نہ ہوا۔
( فتاوٰی عالمگیری جلد نمبر ١ صفحہ نمبر ٢٠٣)

٢:۔افطاری کے وقت کئی مساجد کے مؤذنین غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اذانیں جلد دے دیتے ہیں لہذا لوگ اُن کی پیروی نہ کریں اپنی گھڑیوں کا وقت درست رکھیں ۔اور مقررہ وقت پر ہی روزہ افطار کریں ابھی سورج کی کرنیں باقی ہوتی ہیں کہ لوگ روزہ افطار کردیتے ہیں یہ لوگ اپنے روزوںکو ضائع کر رہے ہیں ۔
سورج ڈوب جانے کا اطمینان ہوجائے تب روزہ افطار کریں ۔
( قانون ِشریعت صفحہ نمبر ١٧٤)

٣:۔اگر کسی نے دوران روزہ مباشرت کر لی تو اس کا روزہ جاتا رہا۔
( قانونِ شریعت صفحہ نمبر ١٦٧،دُرِّمختار جلد نمبر ١ صفحہ نمبر ١٥٠، دُرِّمختار جلد نمبر ١ صفحہ نمبر ١٤٢)

٤:۔ اگر کسی نے بھول کر کھا لیا اور روزہ دار ہونا یاد نہ تھا تو روزہ نہ گیا مگر جونہی روزے دار ہونا یاد آیا تو ایک لقمہ بھی کھایا یا جو منہ کے اندر نوالہ تھا اس کو نگل گیا تو روزہ جاتا رہا۔
( قانونِ شریعت صفحہ نمبر ١٧١، نورُالایضاح صفحہ نمبر ١٥٤، عالمگیری جلد نمبر ١ صفحہ نمبر ١٧٩، قدوری شریف صفحہ نمبر ٥٢)

٥:۔بے اختیار قے ہوئی اور خود بخود اندر لوٹ گئی تو روزہ نہ ٹوٹا چاہے تھوڑی ہو یا زیادہ ۔ روزہ یاد ہو یا نہ یاد ہو اگر روزہ یا د تھا اور جان بوجھ کر اندر نگل گیا تو روزہ جاتا رہا اگر قصدا قے کی اور روزہ دار ہو نا یاد تھا تو روزہ ٹوٹ گیا اگر منہ بھر سے کم تھی تو روزہ نہ ٹوٹا ۔
( قانونِ شریعت صفحہ نمبر١٦٨، فتاوٰی رضویہ ، کنزُالعمال جلد نمبر ٨ صفحہ نمبر ٢٣٠، دُرِّمختار جلد نمبر ٣ صفحہ ٣٩٢)

٦:۔ کھٹی ڈکا ریں آنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ۔
(فتاویٰ رضویہ جلد ١٠ صفحہ نمبر ٤٨٢)

٧:۔رمضان المبارک میں اگر کسی نے قصدا روزہ توڑا تو کفارہ لازم آئے گا کفارہ یہ ہے کہ(پہلی صورت) ایک رقبہ(غلام )کو آزاد کرے ، (یہ صورت اب ختم ہو چکی ہے کیونکہ غلام اب نہیں رہے)،(دوسری صورت )یا وہ لگا تار ساٹھ روزے رکھے گا ،یا (تیسری صورت)ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے گا۔
(نورُالایضاح صفحہ نمبر ١٥٧، ( قانونِ شریعت صفحہ نمبر٠ ١٧)

٨:۔سرمہ ڈالنے یا تیل لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
(نورُالایضاح صفحہ ١٥٥،فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ١٠صفحہ ٥١٠،قدوری شریف صفحہ نمبر ٥٢)

٩:۔اگر کوئی بوڑھا ہے جس میں روزہ رکھنے کی طاقت نہیں یا آئندہ امید نہیں وہ دونوں وقت مسکین کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے ۔
( قدوری شریف صفحہ ٥٣، کنزُالدَّقائق ، جنتی زیور)

(زکوۃٰ و فطرانے کے فضائل و مسائل )

فضا ئل ِز کوۃ:۔
زکوۃٰ مالی عبادت ہے ۔ زکوۃٰمال کو پاک کردیتی ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ــ''فلاح پاتے ہیں جو زکوۃٰ ادا کرتے ہیں ۔''اور مزید ارشاد فرمایا ہے کہ ''اور جو تم خرچ کرتے ہو اللہ تعالی اس کی جگہ اور دے گااور اللہ بہتر روزی دینے والا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے ہے کہ ''جو لوگ بخل کرتے ہیں،اس کے ساتھ جو اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا وہ یہ گمان نہ کریں کہ یہ ان کے لیے اچھا ہے ۔ بلکہ یہ ان کے لیے برا ہے اسی چیز کا قیامت کے دن ان کے گلے میں طوق دالا جائے گا۔جس کے ساتھ بخل کیا۔''

زکوۃٰنہ دینے والوں کے لئے سزا:۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ''جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ مین خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنادو۔جس دن جہنم کء آگ تپائی جائے گی اس دن انکی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں داغی جائیں گی اور ان سے کہا جائے گا کہ جو تم نے اپنے نفس کے لیے جمع کیا تھا اب اس کو چکھو جو جمع کرتے تھے۔''

رسول کریم ؐ نے فرمایا ! جو مال برباد ہوتا ہے وہ زکوٰۃ نی دینے کی وجہ سے برباد ہوتاہے۔ ''

طبرانی میں ہے'' جو زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔'' زکوۃٰ فرض ہے اور اس کا منکر کافر اور نہ دینے والا فاسق اور قتل کا مستحق ،اور ادا کرنے میں دیر کرنے والا گنہگار اور مردود الشھادت ہے۔''
( قانونِ شریعت حصہ اول صفحہ نمبر 180)

زکوۃٰ کے مسائل :۔
زکوۃٰواجب ہونے کی چند شرائط ہیں ۔مسلمان ہونا،بالغ ہونا، عاقل ہونا، آزاد ہونا، صاحب ِ نصاب ہونا، مالک ہونا، نصاب پر ایک سال گزرنا، نصاب کا حاجتِ اصلیہ سے زائد ہو نا،
(حاجتِ ا صلیہ سے مراد زندگی بسر کرنے میں جس چیز کی ضرورت ہو اس میں زکوۃٰنہیں )۔
( قدوری شریف ص 42مطبو عہ مکتبہ الحسن ، نورالایضاح ص 168مطبو عہ ضیا ء العلوم )

نصاب:۔
۔ ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونا یا اسکی کی قیمت پر بھی زکوۃٰ فرض ہے ۔
اگر آدمی نصاب کا مالک ہے مگر اس پر اتنا قرض ہے کہ اگر وہ ادا کرے تو نصاب میں نہیں رہتاتو اس پر مطبو عہ نہیں ۔
( قانونِ شریعت حصہ اول صفحہ نمبر 181)

زکوۃٰ دیتے وقت یا اس کا مال الگ کرتے وقت نیت کا ہونا ضروری ہے اگر پوچھا جا ئے تو بلا جھجک بتا دے کہ زکوۃ ہے ۔

مصارفِ زکوۃ:۔
زکوۃ کے مصارف سات ہیں ۔
فقیر، مسکین ، عامل ، رقاب (غلام)مدیون ( جس پر اتنا قرض ہے کہ اس کو نکالنے سے نصاب باقی نہ رہے)فی سبیل اللہ(طالب علم جو دین کا علم حاصل کرتے ہیںاور مدارس دینیہ وغیرہ بھی اسی ذمرے میں آتے ہیں اس زمانے میں مدارس دینیہ اس کے زیادہ حقدار ہیں)اور مسافر ۔(ایسا مقروض بھی جو قرض ادا نہ کر سکتا ہو )
(قانون شریعت صفحہ نمبر ١٩١، غنیۃُ الطالبین مترجم صفحہ ٢٥،نورالایضاح صفحہ نمبر ١٦٩، قدوری شریف صفحہ نمبر ٤٨)

فطرانہ:۔
حضورنبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تک فطرانہ ادا نہ کیا جائے بندہ کاروزہ زمین و آسمان کے درمیان معلق ہو جاتا ہے صدقہ فطر کا وقت عمر بھر ہے سنت عید کی نماز سے قبل ادا کرنا ہے
(درمختا ر ،بہار شریعت حصہ پنجم صفحہ ٣٨٦، عالمگیری جلد اول صفحہ ١٩٢)

صبح صادق شروع ہونے سے قبل جو بچہ پیدا ہوا اس کا بھی فطرانہ ادا کیا جائے ۔
(قانونِ شریعت صفحہ ١٩٤)
مقدار صدقہ فطر :۔
صدقہ فطر کی مقدار گندم یا اس کا آٹا یا ستو آدھا صاع کھجور یا منقیٰ یا جو یا اس کا آٹا ایک صاع (یا ان کی قیمت بھی ادا کی جا سکتی ہے)۔
(قدوری شریف صفحہ ٥٠، نورالایضاح صفحہ ١٧١)

اور صاع چار سیر اور سوا چھ چھٹانگ کا ہوتا ہے ۔فطرانہ گھر کا سربراہ ادا کرے گا اس اس کا جو اس کے زیر سایہ ہیں ۔
(غنیۃ الطالبین ،قدوری شریف صفحہ ٥٠، نورالایضاح صفحہ ١٧١)

مصارف:۔
صدقہ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں سوائے عامل کے۔
(درمختار ،ردالمختار، بہارشریعت حصہ پنجم صفحہ ٣٨٨)
MUHAMMAD BURHAN UL HAQ
About the Author: MUHAMMAD BURHAN UL HAQ Read More Articles by MUHAMMAD BURHAN UL HAQ: 164 Articles with 275386 views اعتراف ادب ایوارڈ 2022
گولڈ میڈل
فروغ ادب ایوارڈ 2021
اکادمی ادبیات للاطفال کے زیر اہتمام ایٹرنیشنل کانفرنس میں
2020 ادب اطفال ایوارڈ
2021ادب ا
.. View More