الحمد للہ ہم سب اللہ اور رسول
کی اطاعت کرنے والے اور ان ہی کے فرامین پر عمل کرنے والے ہیں اور قرآن پاک
اور اس کے بعد احادیث طیبات سے افضل کوئی کلام نہیں تو اس نظریہ کے تمام
مسلمان قائل ہیں مگر چونکہ ہم اہل علم نہیں اور صاحب اجتہاد نہیں تو ہم کسی
نہ کسی امام کے اقوال کی روشنی میں عمل کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہےکہ ان
اماموں کو احادیث کا علم تھا لہذا انہوں نے احادیث طیبات کی روشنی ہی ہم تک
پہنچائی اور نئے مسائل کا حل بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا اس طریقہ سے
کسی محدث و مفسر نے انکار نہ کیا بلکہ تقریبا تمام ہی کہ جن میں اجتہاد کی
شرائط نہ تھیں وہ کسی نہ کسی اما م کے مقلد ہوئے
حدیث ۔حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے
ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ میری امت کو جمع نہیں کریں گے یا امت محمدیہ
کوگمراہی پر جمع نہیں کریں گے اور اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے جماعت پر اور جو
شخص جدا ہوا جماعت سے وہ آگ میں گرا۔ (جامع ترمذی جلد 2ص 39)
تو مسلمانوں کی اکثریت محدثین و مفسرین سب ہی تقلید کرتے اور آئے کیا سب
گمراہ تھے تو پھر اس حدیث کا کیا مطلب اور پھر جن حدیثوں میں مقلد راوی آئے
وہ ناقابل قبول تو پھر احادیث تو تقریبا تمام ہی ختم ہوجائیں گی بہرحال پھر
ایک فرقہ اٹھا اور اس نے سادہ لوح مسلمانوں کو ورغلایا کہ دیکھو تم امام
ابو حنیفہ کی بات مان رہے ہو قرآن وحدیث اور صحابی کے عمل کو تم نے چھوڑ
دیا ہے جبکہ حضور ﷺ نے نجات کا ذریعہ قرآن اور صحابہ کے طریقے کو بتا یا ہے
لہذا امام ابو حنیفہ کی بات نہ مانو
اس طرح کے حیلے بہانوں سے مسلمانوں کو ورغلایا جارہا ہے اور یہ بات مسلم ہے
کہ قرآن وحدیث سے بڑھ کر نہ امام اعظم ہیں اور نہ امام شافعی ہیں لیکن ان
نادانوں نے کبھی یہ غور نہیں کیا کہ امام ابوحنیفہ یا امام شافعی جو مسائل
بیان کرکے گئے ہیں وہ احادیث طیبات سے ثابت ہیں وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں
کہتے ان کے اقوال قرآن و احادیث کے مخالف نہیں ہیں لہذا امام ابو حنیفہ کی
بات ماننا دراصل حدیث پر ہی عمل کرنا ہے
بہرحال اس طریقہ سے وہ لوگوں میں فتنہ پیدا کر رہے ہیں اب ان لوگوں کا طرز
عمل دیکھے جب کوئی مسئلہ ان سے بیان کیا جائے تو کہتے ہیں کہ حدیث دیکھاو
صحابی کا عمل بتاو وغیرہ ہم کسی محدث کی بات نہیں ماننے گے حالانکہ اسی
محدث کی باتیں جب خود کو ضرورت پڑتی ہیں تو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے
ہیں
دراصل یہ عوام کو دھوکہ دینے کا بہترین طریقہ ہے کہ اپنایا جا رہا ہے
ان لوگوں کو یہ ہی نہیں پتہ کہ اگرکسی محدث نے کوئی بات بیان کی ہے تو وہ
قرآن و حدیث کی روشنی میں ہی بیان کی ہے اگر وہ اپنے نفس کی پیروی میں
مسائل بیان کرتا ہے تو پھر وہ محدث اور عالم ہی کب کہلائے گا اور پھر اس کی
کتابوں سے دلائل کیوں لیے جائیں گے اس کی بات ہی کب معتبر ہوگی؟
اب ان لوگوں کے چہرے سے نقاب اٹھانے کا وقت ہے جو کہ حدیث ہم عمل پیرا ہونے
کے دعویدار ہیں اور حال یہ ہے کہ نفس پر جس حدیث پر عمل کرنا آسان ہو اس کو
اختیار کرلو اور جس میں نفس راضی نہ ہو تو کوئی حیلہ بہانابنالو
حدیث ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا
اخیر زمانہ میں دجال (جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے والے )پیدا ہونگے وہ
تم کو ایسی حدیثیں سنائیں گے جو تمھارے باپ دادا نے بھی نہیں سنی ہونگی تو
بچتے رہنا ان سے ایسا نہ ہوکہ وہ تم کو گمراہ کردیں اور آفت میں ڈال دیں
(مسلم شریف ترجمہ وحید الزماں (غیر مقلد)
آئے جو یہ کہتے ہیں کہ اس مسئلہ پر حدیث دیکھائیں صحابی کا عمل بتائیں ہم
حدیث اور صحابی کا عمل بتاتے ہیں تو اگر واقعی حدیث پر عمل کرنے والے ہیں
صحابی کے طریقے پر چلنے والے ہیں تو پھر اس سال رمضان میں اللہ کی زیادہ
عبادت کرنے سے دل نہ چرانا اور ۸ کے بجائے پوری بیس رکعت تراویح پڑھنا
امام الانبیاءسرورکونین حضرت محمدﷺ کے مبارک دور میں بیس رکعات تراویح
ترجمہ: حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲرمضان المبارک میں بیس رکعات(
تروایح) اور وتر پڑھتے تھے۔
(امام بخاری کے استادکی کتاب ، مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص286 مکتبہ امدایہ
ملتان پاکستان)
(اخرجہ عبد ابن حمیدفی مسند والبغوی فی مجمعہ والطبرانی فی الکبیراو بہقی
فی سننہ کذا اوجزا المسالک جلد 2ص 398)
ترجمہ :حضرت جابر بن عبداﷲ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ رمضان المبار ک کی ایک
رات باہر تشریف لائے تو لوگوں کو چوبیس رکعتیں(چار فرض اور بیس رکعات
تراویح) اور تین وتر پڑھائے۔
(تاریخ جرجان ص 21)
آپﷺ نے صحابہ کو بیس رکعات تراویح دو راتیں پڑھائیں پس جب تیسری رات ہوئی
تو صحابہ کرام جمع ہوگئے آپ باہر تشریف نہیں لائیں پھر آپ نے دوسرے دن
فرمایا مجھے اس بات کا ڈر ہوا کہ تم پر یہ نماز (تروایح)فرض نہ کر دی جائے
پس تم اس کی طاقت نہ رکھو۔
(تلخیص الحبیر ج1ص21 المکتبہ الاثریہ)
(تاریخ جرجان لابی قاسم حمزہ ص 317بیروت)
خلفائے راشدین کے دور میں بیس رکعات تراویح
تراویح خلیفہ دوئم حضرت عمربن خطابؓ کے دور میں
ترجمہ: حضرت سائب بن یزید ؒ فرماتے ہیں کہ لوگ(صحابہؓ و تابعینؒ) حضرت عمرؓ
کے زمانہ خلافت میں بیس رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے۔
(امام بخاری ؒ کے استاد کی کتاب مسند علی بن جعد ص413 الحدیث2825)
ترجمہ:حضرت حسن سے راویت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے لوگوں کے حضرت ابی بن
کعب ؓ پر اکٹھا کردیا،آپ انہیں بیس رکعتیں پڑھاتے تھے۔
(ابو داود ج1ص202، سیر اعلام النبلا ج1ص400،جامع المسانید والسنن للحافظ
ابن کثیر ج1ص55)
ترجمہ: حضرت یحییٰ بن سعید ؒ سے روایت ہے کہ حضت عمر بن خطاب ؓ نے ایک شخص
کوحکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات پڑھائے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص393)
حدیث نمبر ۔حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضرت عمر رضی
اللہ عنہ کے دورمیں 20رکعات تراویح پڑھتے تھے۔
(قال النووی فی شرح المذاہب ص 32جلد4)
تراویح خلیفہ سوئم حضرت عثمان بن عفانؓ کے دور میں
حدیث نمبر۔حضرت سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ و تابعین حضرت عمر
رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ماہ رمضان میں 20رکعت تراویح پڑھتے تھے
اور معین سورتیں نماز میں پڑھتے تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ
خلافت میں زیادہ قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر سہارا کرلیا کرتے تھے۔ (سنن
کبریٰ بہقی ص 496جلد 2)
(فضائل الاوقات ص72،)
تراویح خلیفہ چہارم حضرت علی المرتضیؓ کے دور میں
ترجمہ : حضرت ابو الحسناؒ سر مروی ہے ہے کہ حضرت علی ؓ نے ایک شخص کو حکم
دیا کہ وہ لوگوں کو پانچ ترویحے یعنی بیس رکعات تراویح پڑھایا کرے۔
( مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص393)
حدیث نمبر ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قاریوں کو بلوایا اور ان سے ایک کو
حکم دیا کہ وہ لوگوں کو 20رکعات تراویح پڑھائے اور خود لوگوں کو تین وتر
پڑھاتے تھے۔
(سنن کبریٰ ص 496جلد2)
حدیث نمبر ۔حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضرت عمر رضی
اللہ عنہ کے زمانے میں 20رکعات تراویح پڑھتے تھے اور یہی عمل حضرت علی رضی
اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تھا۔(بہقی باسند صحیح
اور اوجزالمسالک ص397جلد2)
حدیث نمبر۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان کے مہینے میں لوگوں کو 20
رکعات اوروتر پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابی شیبہ س393جلد2)
حدیث نمبر ۔حضرت زید بن وہب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ ابن
مسعود رضی اللہ عنہم ہم کو رمضان کے مہینے میں نماز پڑھاتے تھے پھر چلے
جاتے اور ابھی رات ہوتی۔امام اعمش ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود
رضی اللہ عنہم ان کو 20رکعات تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے۔
(رواہ محمد بن نصر مروزی فی قیام الیل ص 107مطبوعہ اثریہ سانگلہ ہل)
معلوم ہوگیا کہ حضور ﷺ کے دور میں صحابہ کے دور میں بیس رکعت تراویح پڑھی
جاتی تھی اب جو جنتی لوگ تھے جو نبی کے زیادہ قریب تھے وہ تو بیس رکعت
تراویح پڑھتے تھے اور جو نفس کی پیروی کرتا ہے وہ کم عبادت کرنا چاہتا ہے
حدیث ۔آنحضرت ﷺنے ارشاد فرمایا ابوبکر جنتی ہے عمر جنتی ہے عثمان جنتی ہے
علی جنتی ہے طلحہ جنتی ہے سعد جنتی ہے سعید جنتی ہے ابو عبید جنتی ہے
عبدالرحمن بن عوف جنتی ہے۔(رضی اللہ عنہم) (مشکوة باب فضا ئل صحابہ رضی
اللہ عنہم)
اب مرضی ہے نام نہاد حدیث پر عمل کرنے والوں کی مانو یا صحابہ کے عمل کو
اپناو اور اللہ کی زیادہ سے زیادہ عبادت کرو |