رویت ہلال کے سلسلے میں شرعی احتیاط کی ضرورت

اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے”تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے“(پارہ۲،سورةالبقرہ،آیت 185) مفسرین نے فرمایاکہ اس آیت مبارکہ میں چاند دیکھنے کا حکم ہے کیونکہ روزہ رکھنا چاند کے موجود ہونے پر موقوف ہے۔ہم یہاں رویت ہلال سے متعلق اہم وحساس مسائل سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمةوالرضوان کا عظیم شاہکار”فتاویٰ رضویہ“ (جلد10ص423)اور آپ کامستقل رسالہ”البدورلاجلہ فی امورالاھلہ“اور اسی فتوے کی آسان لفظوں میں تشریح مفتی محمد فیض احمد اویسی صاحب کی تحریر ”رویت ہلال“سے پیش کررہے ہیں تاکہ چاند دیکھنے کے متعلق شرعی احکامات کا علم ہو۔
شہادتِ رویت:روزے اور عید کا دارومداررویت ہلال پر ہے اس لئے چاند کے متعلق شرعی قوائد و ضوابط کا ہونا لازمی امر ہے،فقہائے احناف نے رویت ہلال کےلئے سات طریقے بتائے ہیں۔

(۱)شہادت یعنی چاند دیکھنے والے کی گواہی۔جیسا کہ رواہِ احمد کی حدیث ہے”تحقیق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:چاند دیکھ کر روزہ رکھو،چاند دیکھ کر افطار کرواور اسی کے حساب سے قربانی کرواور اگر ابروغبار وغیرہ کے باعث(29کو)چاند نظر نہ آئے تو مہینہ کے تیس دن پورے کرواور اگر (29کو)دو مسلمان گواہ شہادت دیں توان کی شہادت کے مطابق روزہ رکھو۔ترمذی شریف کی حدیث پاک ہے شاہکار دست قدرت مصطفی جان رحمت ﷺ نے فرمایا:”رمضان شریف کے لئے شعبان کی گنتی کرویعنی شعبان کاچاند وقت پردیکھ لیا کرو تاکہ رمضان کے چاند میں اختلاف پیدا نہ ہو“....سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ”29شعبان کو غروب آفتاب کے بعد ہلال رمضان کی تلاش فرض کفایہ ہے۔“(البدورلاجلہ فی امورالاھلہ)

(۲)شہادت علی الشہادت یعنی گواہوں نے چاند خود نہ دیکھا بلکہ دیکھنے والوں نے ان کے سامنے گواہی دی اور اپنی گواہی پر ان کو گواہ کیا۔

(۳)شہادت علی القضایعنی دوسرے کسی اسلامی شہر میںحاکم اسلام قاضیِ شہر کے حضوررویت ہلال پر شہادتیں گزریںاور اس نے ثبوت ہلال کا حکم دیا۔مگر یادرہے شرعی ثبوت کا اعتبار ہے نہ کہ حاکم اسلام کااور نہ ہی قاضی شہر کا۔’علماءہند کا شاندارماضی‘میں ہے کہ اکبر بادشاہ کے دور میں عید کے چاند میں اختلاف ہو رہا تھا۔شرعی ثبوت سے پہلے ہی اکبر نے عید کا اعلان کرکے لوگوںکے روزے توڑوادیئے۔اتفاق ایسا ہوا کہ حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ اسی روز اکبر کے وزیر ابوالفضل سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے،ابوالفضل کو معلوم ہوا کہ حضرت مجدد الف ثانی روزے سے ہیں،وجہ دریافت کرنے پر حضرت مجدد قدس سرہ نے فرمایا:چاند کے متعلق اب تک شرعی شہادت مہیا نہیںہوئی ہے۔ابوالفضل نے کہا”بادشاہ نے خود دیکھا ہے“سیدنا مجدد الف ثانی نے فرمایا”بادشاہ بے دین است اعتبار ندارد“بادشاہ بے دین ہے اس کا اعتبار نہیں۔

(۴)کتاب القاضی الی القاضی یعنی قاضی شرعی کے سامنے شرعی گواہی گذری۔

(۵)استفاضہ یعنی قاضی نے فیصلہ دیااور خبر بہت مشہور ہو گئی اور فقہاءنے یہ خبر لانے والوں کی کوئی تعداد نہ بتائی ،استفاضہ میں اکثر اہل شہر کے خبر دینے کا اعتبار کیا جائے گایا نصف شہر والے خبر دیں۔(اس ضمن میں کافی شرائط ہیں)

(۶)اکمالِ عدت یعنی جب ایک مہینے کے تیس دن پورے ہوجائیںتو ہلال آپ ہی ثابت ہوجائے گاکیونکہ مہینہ کا تیس سے زائدنہ ہونا یقینی ہے۔

(۷)توپیں سننا:علامہ شامی نے دیہات والوں کے لئے توپ کی آواز سننا بھی دلائل ثبوت ہلال ہے۔

٭رویت ہلال کے غلط طریقے:
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت سیدی امام احمد رضا فرماتے ہیں:غرض ثبوت ہلال کے شرعی طریقے یہ ہیں،اس کے سوا جس قدر طریق لوگوں نے ایجاد کئے وہ باطل ومخذول(ذلیل)وناقابل قبول ہیں مگر آج کل جُہال(جاہلوں) میں غلط طریقے جو زیادہ رائج ہیں وہ بھی سات ہیں۔

(۱)حکایت رویت یعنی کچھ لوگ کہیں سے آئے اور خبر دی کہ وہاں فلاں دن چاند دیکھا گیا ہے وہاں کے حساب سے آج یہ تاریخ ہے،اس کا شرع میں کوئی اعتبار نہیں۔جیسا کہ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ ہم بطن نخلہ میں سفر کررہے تھے،اترے تو چاند دیکھا گیاکوئی کہتاآج تیسری کا ہے،کوئی کہتا آج چوتھی کاہے،ہم اس کے بعد حضرت ابن عباس کو ملے اور کہا کہ چاند کے متعلق ایسی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں،آپ نے فرمایا ایسے ہی ہمارے ساتھ ہواکہ حضورﷺ کی خدمت میں چاند کو دیکھ کر کہہ رہے تھے کہ آج تیسری کاہے،آج دوسری کاہے،آپﷺ نے ہم سب سے پوچھا کہ تم نے کب دیکھا ہے؟ہم نے کہا آج دیکھا ہے۔آپﷺ نے فرمایا:بس آج ہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے رویت پر موقوف رکھا ہے جس رات تم نے دیکھا ہے اسی رات کا ہے (اس میں اپنی رائے قیاس کودخیل نہ بناﺅ )۔

(۲)افواہ
(۳)خطوط واخبار:فلاںجگہ سے خط آیا،فلاں اخبار میں یہ لکھا پایا،یہ شرعََا بالکل معتبر نہیں ہے۔

(۴)تار:یہ خط سے بھی زیادہ بے اعتبار ہیںکیونکہ خط میں کاتب کے ہاتھ کی علامت تو ہوتی ہے یہاں اس قدر بھی نہیں۔

(۵)جنتریوں(کیلنڈر)کابیان:ائمہ کرام اور جمہور محققین کیلنڈر(جنتری)میںدرج شدہ تاریخ کو ہرگز تسلیم نہیں کرتے۔

(۶)قیاسات وقرائن:مثلاًچاند بڑا تھااور روشن تھا،دیر تک رہا ضرور کل کاتھا۔شریعت میں ان باتوں کو کوئی مول نہیں کیونکہ طبرانی کی حدیث میں ہیکہ قرب قیامت کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ چاند بڑے نظر آئیں گے،غیب داں نبی ﷺنے فرمایا:قرب قیامت کی ایک علامت یہ ہے کہ ہلال سامنے نظر پڑے گادیکھنے والا کہہ دے گاکہ یہ دوسری کا ہے۔

(۷)استقرائی اور اختراعی قواعد:مثلاً چار مہینے متواتر تیس تیس کے ہو چکے ہیں یہ ضرور انتیس کا ہوگا۔(فتاویٰ رضویہ، رسالہ”موجب الطریق ہلال“)ہمارے زمانے کے رویت ہلال کے غلط طریقوں میں ٹیلیفون اور ٹیلی ویژن ہےں،یہ ذرائع بھی مشکوک ہےں۔تفصیلی معلومات کیلئے تمہید میں مذکور کتابوں کا مطالعہ کریں۔
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 675998 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More