ظہیر صاحب بیچارے اپنی بیٹی کے
رشتے کے سلسلے میں کافی عرصہ سے پریشان تھے مگر کوئی ڈھنگ کا رشتہ نہ مل
پارہا تھا۔اگر کوئی رشتہ پسند بھی آتا تو کوئی نہ کوئی نقص نکال کر بیگم
صاحبہ اس رشتے کو ویٹو کر دیتی تھیں۔ پھر ایک روز ایک جاننے والے کے توسط
سے ایک جگہ رشتے کی بات شروع ہو ئی او ر لڑکے والے لڑکے سمیت لڑکی کے گھر
آن وارد ہوئے۔ ظہیر صاحب نے نوکر کو کہا کہ جلدی سے بیگم صاحبہ سے کہو کہ
لیپا پوتی چھوڑ کر یہاں آجا ئیں مہمان آگئے ہیں۔میاں کے جلدی کے آرڈر سنکر
پہلے تو بیگم صاحبہ نے حسبِ معمول کچھ خفگی کا سا اظہار کیا اور واپس میسج
بھجوایا کہ میک اپ تو پورا کر لینے دیں۔ میاں صاحب نے دوبارہ پیغام ارسال
کرایا کہ پورا میک اپ نہ کرنا صرف ایک اسٹک لگا لینا کہ کہیں لڑکے والے
بیٹی کی بجائے اس عمر میں تمہارا ہی رشتہ نہ مانگ لیں اور ہم منہ دیکھتے رہ
جائیں۔ خیر جناب! بیگم صاحبہ کے آنے پر میاں صاحب نے ایک سائڈ میں لیجا کر
بیگم کو مزید سمجھا یا کہ بیگم مہمانوں کے سامنے ذرا پیار سے بات کر نا،
ڈانٹ ڈپٹ بالکل نہیں کر نی ہے۔ بڑا ہی معصوم اور بھولا بھالا بچہ ہے انکا،
کہیں ڈر کر بھاگ نہ جائے، بڑی مشکل سے تو ایک رشتہ ہاتھ آیا ہے۔ بیگم صاحبہ
بھی کڑا کر بولیں کہ ہاں جی! مجھے پتہ ہے شادی سے پہلے تم تمام مرد اسی طرح
بھولے اور معصوم لگتے ہو، تمہاری اصلیت تو شادی کے بعد کھلتی ہے جب تمام
عیاریاں اور چالاکیاں سامنے آتی ہیں۔ میاں نے عورتوں کی طرح انگلی منہ میں
دبائی اور جواب داغا کہ آدمی کی نہیں دراصل عورت کی اصلیت سامنے آتی ہے، جب
وہ صبح دم منہ دھوکر واش روم سے باہر نکلتی ہے ۔اور بیگم کو مزید یاد دلایا
کہ ہم تو جب سے آپکے سحر میں کھوئے ہیں ویسے ہی تمام عیاریاں اور چالاکیاں
ویسے ہی بھول چکے۔
بہر حال! ظہیر صاحب نے ڈرائنگ روم میں آکر سب سے باری باری تعارف کراکر
چائے پانی کا پوچھا اور ہونے والے داماد کے پاس جاکر بولے کہ بیٹا آپ کیا
لوگے؟۔ ہونے والا دولہا بولا کہ انکل میں تو دودھ پیوں گا اور وہ بھی نیڈو
کا۔ نوکر سے معلوم کر نے پر پتہ چلا کہ کہ گھر میں دودھ صرف چائے کے لیے ہے
پینے کے لیے نہیں ہے۔ ظہیر صاحب نے لڑکے سے جب کام وغیرہ کے بارے میں پوچھا
تو لڑکے نے بتایا کہ ابو کے دفتر میں کام کر تا ہوںاور جب کبھی انکی
سیکریٹری انسے فارغ ہو تو اس سے گپ شپ بھی کر لیتا ہوں۔ لڑکے کے باپ نے
فورا بیٹے کو ڈانٹ دیا کہ خبردار! جو دفتر کی باتیں باہر بتائیں۔ بیٹے صاحب
بھی بہت تیز تھے اور فورا جواب دیا کہ ابو آپ ہی تو کہتے ہیں کہ ہمیشہ سچ
بولا کریں۔ ظہیر صاحب نے لقمہ دیا کہ بھئی بڑے خوش نصیب ہیں آپ کے والد کہ
سیکریٹری سے بھی کبھی کبھار گپ شپ کر لیتے ہیں، ورنہ ہمیں تو اسی ایک بیگم
پر گذارہ کرنا پڑتا ہے۔ ظہیر صاحب نے لڑکے سے مزید پوچھا کہ بیٹا اور کیا
مشاغل ہیں آپکے۔ تو لڑکے صاحب بولے کہ انکل مجھے شاعری بہت پسند ہے۔ شعر
سناﺅں آپکو:
ہزاروں لڑکیاں ایسی کہ ہر لڑکی پہ دم نکلے
مگر جو دل کو پسند آئے وہ گھر سے کم نکلے
چپ بد تمیز کیسے بیہودہ شعر سناتا ہے، لڑکے کے ابا نے فورا بیٹے کو ڈانٹا۔
ظہیر صاحب نے مزید پوچھا کہ اچھا اور کیا پسند ہے آپ کو۔ لڑکا بولا کہ انکل
مجھے نہ مٹن فرائڈ رائس اور چکن فرائڈ رائس بہت پسند ہیں۔ ظہیر صاحب دل ہی
دل میں بڑبڑائے کہ بیٹا شادی کے بعد تو آپکو صرف انڈا فرائی پر گذارہ کرنا
پڑ ے گا کہ ہماری بیٹی کو صرف انڈا ہی فرائی کر نا آتا ہے۔
کھانا وغیرہ کھانے کے بعد ہونے والے دولہے نے کھانے کی تعریف میں پل باندھ
دیے کہ انکل کھانا بہت اچھا تھا اور لڑکے صاحب نے اپنے ڈیل ڈول کے حساب سے
اتنا کھایا کہ کچھ بھی نہ چھوڑا۔ روٹی، قورمہ، شامی، بریانی، کھیر،کباب اور
اوپر سے دو لیٹر پیک پیپسی کے بھی چڑھا گیا ۔ لڑکے نے مزید پوچھا کہ کیا
کھانا آنٹی نے بنایا تھا، تو ظہیر صاحب نے فورا جواب دیا کہ نہیں بیٹا یہ
تو نوکر کے ہاتھوں کا کمال ہے۔ اگر بیگم بناتیں تو آپ کا کھانا پیٹ کے اندر
جانے کی بجائے باہر آجاتا۔ بیگم صاحبہ نے گھور کر میاں کو دیکھا اور بولیں
کہ کھانا کھانے کا اتنا ہی شوق تھا تو کسی کھانا بنانے والی سے شادی کر
لیتے ، مجھے کیوں لائے تھے۔ اس سے پہلے کہ لڑائی شروع ہوتی ہونے والے داماد
نے پھر پوچھا کہ ا چھا انکل آپکی بیٹی شوہر کو مارتی تو نہیں ہیں نہ ہماری
امی کی طرح۔ جیسے کل انہوں نے ابو کے ہاتھ پر چمٹا مارا تھا، دیکھیں نشان۔
لڑکے کے ابا نے فورا بیٹے کو پھر ڈانٹ کر چپ کرایا کہ بد تمیز گھر کی باتیں
باہر بتا تا ہے۔ لڑکے نے تھوڑے سے توقف کے بعد پھر پوچھا کہ انکل شامی کباب
کیا گائے کے گوشت کے تھے۔ ظہیر صاحب بولے کہ نہیں بیٹا، اونٹ کے گوشت کے
تھے، آپ کو کیسے لگے؟ لڑکا بولا کہ بہت اچھے تھے۔ اسطرح کھانے اور دیگر
رشتہ داری کے سوال و جوابات کے بعد یہ میٹنگ اپنے اختتام کو پہنچی۔ لڑکے
والوں کو بتایا گیا کہ ہم مشورہ کر کے بتائیں گے کہ آپکے ہٹے کٹے گینڈے سے
لڑکے کو اپنی معصوم سی، بھولی بھالی، دبلی پتلی، نازک اندام بیٹی کا رشتہ
دیا جائے کہ نہیں۔؟؟
مہمانوں کے جانے کے بعد ظہیر صاحب نے بیگم سے پوچھا کہ کیا خیال ہے بیگم کہ
اپنی اکلوتی بیٹی کا رشتہ اس موٹے تازے ، پلے پلائے ہاتھی جیسے صحتمند ،
ہٹے کٹے لڑکے سے کر دیں ؟بیگم صاحبہ سنکر بہت خفا ہوئیں کہ دیکھو تو کتنا
موٹا سانڈ سا لڑکا تھا ایک بازو ہی بیس کلو کی ہوگی اور ایک ٹانگ دیکھو تو
ایک من سے کیا کم ہو گی۔ اس اتنے موٹے لڑکے سے رشتہ کر نے سے بہتر ہے کہ ہم
اپنی بچی کو ایک ہی بار کسی ریلوے انجن کے نیچے نہ دے دیں!۔ یہ کہ کر بیگم
صاحبہ نے گذشتہ تمام رشتوں کی طرح اس رشتے کو بھی ریجیکٹ کر دیا اور ظہیر
میاں سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ |