سیزن

ہر ناکام ملک کی طرح پاکستان کے غریبوں کو بھی اللہ نے بہت بلند مقام بخشا ہے۔ اِن کے گھروں کا اندھیرا بہت سے امیروں کے گھروں کو روشن رکھنے کا ضامن ہے! مون سون کی بارشیں کِسی بھی وقت بھرپور طمطراق سے شروع ہوسکتی ہیں۔ بارشیں ہوں گی تو دریاؤں میں طُغیانی پیدا ہوگی، دریا کنارے توڑ کر بہہ نکلیں گے اور پھر سیلاب آئے گا۔ بہت سے ایسے ہیں جو سیلاب کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ جان و مال کا بچاؤ کیونکر ممکن ہوسکے گا۔ اور کئی ایسے بھی ہیں جو سیلاب کی آمد کے تصور ہی سے نہال ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سیلاب آئے گا تو ڈالرز کا ریلہ بھی آئے گا! کون چاہتا ہے کہ سیلاب آئے؟ غریب تو بالکل نہیں چاہتے۔ مگر کچھ بڑے ضرور چاہتے ہیں کہ محکمہ موسمیات کی پیش گوئیاں غلط ثابت ہوں، موسلا دھار بارشیں ہوں، منہ زور دریا کناروں سے بہہ نکلیں اور سیلاب بن کر بہت کچھ بہا لے جائیں۔ اب کچھ بڑے گھروں کی روشنی کا مدار سیلاب سے جلنے والے چراغ پر ہے! یاروں نے ایسا بندوبست کر رکھا ہے کہ سیلاب کو نہ چاہتے ہوئے بھی آنا پڑے گا! ویسے بھی سیلاب خاصی شرمیلی طبیعت رکھتا ہے۔ وہ بے چارہ خود کہاں آتا ہے، اُسے کھینچ کھانچ کر لایا جاتا ہے!

قدرت نے ہر موسم میں کچھ لوگوں کے لیے رزق رکھ چھوڑا ہے۔ شدید گرمی میں گولا گنڈا، قلفی اور ٹھنڈے مشروبات والوں کا دَھندا چمک اٹھتا ہے۔ سردی میں سُوپ، یخنی، اُبلے ہوئے انڈے اور مختلف اقسام کے حلوے بیچنے والے کچھ اِضافی کما لیتے ہیں۔ رمضان المبارک میں خیرات، صدقات، زکوٰة اور فطرہ جمع کرنے والوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ اب کچھ ایسا ہی معاملہ اہل سیاست اور حکومتی مشینری کے بعض افسران کا بھی ہے۔ قدرت نے اُن کے لیے سیلابی سیزن کا اہتمام کیا ہے۔ دنیا بھر میں سیلاب سے بچاو ¿ کے لیے بند باندھے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں ایسے بند باندھے جاتے ہیں جو ٹوٹ کر بُہتوں کو زر کی اُچھلتی کودتی گنگا میں بھرپور اشنان کا موقع فراہم کرتے ہیں! یعنی
لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ!

اگر بند نہ ٹوٹے اور سیلاب بہت کچھ اپنے ساتھ نہ بہا لے گیا تو عالمی برادری کا ضمیر کیسے جاگے گا اور وہ سخاوت کا دریا کِس طرح بہائے گی!

ہماری زراعت اب اہل اقتدار و اختیار کے لیے زر کے اہتمام میں جُتی رہتی ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ زراعت کی ابتداءہی ”زر“ سے ہوتی ہے! کھیتوں میں ہل چلانے اور خون پسینہ ایک کرکے فصلیں اُگانے والے غریبوں کی قسمت میں رونا ہی رونا لکھا ہے مگر اُن کے نام پر بہتوں کی لاٹری نکل آتی ہے!

ہم بھی عجیب قوم ہیں۔ گرمی پڑتی ہے تو عزم و ارادے سے تاب و تواں تک سب کچھ پگھل جاتا ہے اور ہر شخص (شرم سے نہ سہی!) پسینے سے پانی پانی ہو جاتا ہے! سردی پڑتی ہے تو حوصلے تک منجمد ہو جاتے ہیں۔ موسم بہار میں پھول کم کھلتے ہیں، گل زیادہ کِھلائے جاتے ہیں! بجلی کڑکتی ہے تو دِل دھڑکتے ہی رہتے ہیں کہ پتہ نہیں کب، کہاں گِرے! بارش ہوتی ہے تو فصلیں کم اُگتی ہیں اور بربادی کی پیداوار زیادہ سامنے آتی ہے! اب ایسے میں کوئی موسم کی تبدیلی سے کیا محظوظ ہو؟ اندر کا موسم تو وہی رہتا ہے!

ایک زمانہ تھا کہ بارش کے آثار نمودار ہوتے ہی خواتین خانہ پکوڑوں اور سموسوں کا اہتمام کرنے میں جُت جاتی تھیں۔ دہی بڑے اور فروٹ چاٹ تیار کرنا اولین ترجیحات میں شامل ہو جاتا تھا۔ اب عالم یہ ہے کہ بارش غریبوں کو مُشکلات کی کڑھائی میں پکوڑوں کی طرح تل دیتی ہے! جن کی چھتیں ٹپکتی ہیں کوئی اُن کے دِل سے ساون کے ”مزے“ پوچھے! وہ دِن گئے جب خواتین ساون میں بھیگتی ہوئی جُھولا جُھولنے کی فکر میں غلطاں رہتی تھیں۔ اب ساون کی جھڑی لگ جائے تو گھر میں بھرا اور کھڑا ہوا پانی جُھولا جُھلانے پر تُل جاتا ہے!

موسم بھی بڑا ظالم ہے، بارش کو آنے ہی نہیں دے رہا۔ بادلوں کو چاہیے کہ کھل کر برس جائیں ورنہ کچھ بے چارے بڑوں کی عید پھیکی پھیکی رہے گی! بارش نہیں ہوگی تو سیلاب کیسے آئے گا اور سیلابی ریلے نہ ہوئے تو ڈالر کے ریلے کہاں سے آئیں گے؟ سُنا ہے صدر کی زیر صدارت ایک اجلاس میں اعلیٰ افسران کو سخت سُست سُننا پڑی ہے۔ صدر اِس بات پر برہم تھے کہ سیلاب سے بچاؤ کے بند اور پُشتے 90 فیصد کی حد تک کیوں مکمل ہو پائے ہیں۔ بعض سادہ دِل پاکستانیوں کے خیال میں شاید متعلقہ افسران کو ڈانٹ اِس لیے سُننا پڑی ہو کہ بند اور پُشتے بن کیسے گئے! اگر کہیں پُشتے جاندار نکلے اور مضبوط بند ٹوٹنے سے انکار کردیں تو کیا ہوگا!
پھر دِل میں کیا رہے گا جو حسرت نکل گئی!

قدرت کی خوبی دیکھیے کہ اِس سال منافع خور تاجروں، موقع پرست سیاست دانوں اور غریبوں کے حق پر دانت گاڑنے والے سرکاری افسران میں سے ہر ایک کا سیزن بیک وقت وارد ہو رہا ہے۔ زہے نصیب، رمضان المبارک میں خرید و فروخت کے نام پر غریبوں کی جیب سے ایک ایک دمڑی نکالنے والے کمر کَس کر تیار بیٹھے ہیں۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ رمضان کا چاند نظر آیا اور دوڑ شروع ہوئی! بارش کی بھی آمد آمد ہے۔ غریبوں کے لیے مسائل برسیں گے اور اُن کی بہبود کا سوچنے پر مامور سیاست دان اور حکام کے نصیب کا دَھن برسے گا! ایسے میں حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کے لیے بھی کبھی کبھی امداد کی تھوڑی بہت بوندا باندی کردی جائے گی! بے کس و لاچار پاکستانی بے چارے بارش اور سیلاب کے ساتھ ساتھ اِس تصور سے بھی پریشان ہیں کہ اُن کے نام پر کِس کِس طرح مال بٹورا جائے گا اور عالمی برادری میں یار لوگ کشکول لئے گھومتے رہیں گے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524684 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More