گرمی نے بھی کیا غضب ڈھایا ہے۔
جسے دیکھیے، اُبلتے ہوئے پانی کی طرح ہر معاملے میں اُبلا جارہا ہے۔ مزاج
کی گرمی ہے کہ کم ہونے میں نہیں آرہی۔ ایک طرف ماحول کا پارہ چڑھ رہا ہے
اور دوسری سیاسی دیگچی کا پانی مسلسل اُبل رہا ہے۔ اب کے گرمی ایسی پڑی ہے
کہ سبھی بَھرے بیٹھے ہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ سب نے کچھ نہ کچھ کرنے کی
ٹھان لی ہے۔ ویسے ہمارے ہاں کچھ نہ کچھ کرنے کی ٹھان لینا بلکہ ٹھانتے رہنا
اب بہت حد تک روایت کا درجہ اختیار کرتا جارہا ہے۔
قوم کو بارش کا انتظار ہے مگر اہل سیاست کو اِس کی کچھ فکر نہیں کیونکہ وہ
ایک دوسرے پر برستے ہی رہے ہیں۔ بعض سیاسی گلی کوچوں میں تو الزامات کی
برسات ایسی جم کے ہوئی ہے کہ اب تک کیچڑ پایا جاتا ہے اور وہاں سے سلامتی
کے ساتھ گزرنا چیلنج سے کم نہیں۔ پنجاب میں بارش ہوئی ہے اور خوب ہوئی ہے
مگر وہان بارش کی ضرورت ہی کیا تھی؟ الزامات تو برس ہی رہے تھے اور مغلّظات
کی کیچڑ بھی موجود تھی۔ قدرتی بارش اور کیچڑ نے معاملے کو دو آتشہ کردیا۔
قوم پریشان ہے کہ اداروں میں تصادم کی کیفیت کب ختم ہوگی اور ختم ہوگی بھی
یا نہیں۔ سیاسی بزم کے بعض احباب تو جیسے پیدائشی طور پر یہ ٹاسک لیکر آئے
ہیں کہ اداروں کو باہم متصادم کردیا جائے! اِن کا اوڑھنا بچھونا ہی یہ ہے
کہ بنتی کو بگاڑا جائے، بستے ہوئے معاملات کو اُجاڑا جائے اور یہ سب کچھ
کرنے کے بعد ”کریڈٹ“ لینے سے بھی گریز نہ کیا جائے!
ایک طرف انصاف کا بول بالا کرنے کی کوششیں ہیں اور دوسری طرف عدلیہ ہی کو
دیوار سے لگانے کے اقدامات ہیں۔ نظریہ ضرورت نے دم نہیں توڑا۔ اگر حکمران
اپنے مفاد کی کوئی چیز پارلیمنٹ سے منظور کرانا چاہیں تو دو چار گھنٹے بھی
نہیں لگتے۔ توہین عدالت سے متعلق نئے قانون کا کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اِس
قانون کے ذریعے عدلیہ کے ہاتھ پیر باندھنے کی ایک خاصی پُرجوش کوشش کی گئی
ہے۔
مرزا تفصیل بیگ کو چونکہ ہر معاملے میں تفصیل پسند ہے اس لیے قوم کی خاطر
پریشان ہونے کے معاملے میں بھی اُن کی پریشانی قابل دید ہوا کرتی ہے۔ اُن
کے بعض محلہ داروں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ جس وقت وہ قوم کے غم میں گُھل
رہے ہوتے ہیں تب اِس قدر قابل دید ہوتے ہیں کہ اُن کی طرف دیکھنے سے کچھ ہو
جانے کا خدشہ ہوتا ہے اِس لیے لوگ ایسے عالم میں اُنہیں دیکھنے سے گریز
کرتے ہیں!
حالات کی روش دیکھ کر مرزا کی پریشانی بڑھ گئی ہے۔ اگر پریشانیوں کو معلوم
ہو جائے کہ مرزا اُن کے باعث اِس قدر پریشان ہیں تو اُن کی شِدّت میں خواہ
مخواہ اضافہ ہو جائے!
ہم نے جب بھی مرزا سے حالات پر بات کی ہے، اُنہیں یہی شِکوہ کرتے دیکھا ہے
کہ قوم جاگنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ہم نے اُنہیں بارہا سمجھایا ہے کہ ہر
معاملے میں جاگنا ضروری نہیں ہوتا، کبھی کبھی نیند کے مزے لوٹتے رہنے ہی
میں اصل لطف مُضمِر ہوتا ہے! مگر مرزا کی پریشانی ہے کہ سونے کا نام ہی
نہیں لیتی اور جاگ جاگ کر سب کو جگاتی رہتی ہے۔
سیاسی ماحول میں تیزی سے پنپتی ہوئی شدت نے مرزا کو ایک ایسے موڑ پر
پہنچادیا ہے جہاں سے آگے بڑھنے کا کوئی راستہ اُنہیں دِکھائی اور سُجھائی
نہیں دیتا۔ حق تو یہ ہے کہ مرزا کو ذرا ذرا سی بات پر پریشان ہو اُٹھنے کا
ایسا شوق ہے کہ آن کی آن میں حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ سیاست کی بات ہو اور اُن
کا پارہ نہ چڑھے، ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔
عدلیہ اور وفاقی حکومت کے درمیان کش کش نے مرزا کو قوم کے حوالے سے مزید
متفکر کردیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلسل سوچتے رہنے سے اُن کی سوچنے اور
سمجھنے کی صلاحیت کمزور پڑتی چلی جائے گی۔ حق یہی ہے کہ قوم کے معاملات
ایسے اُلجھا دیئے گئے ہیں کہ جو زیادہ سوچتا ہے وہ سوچنے سے جاتا رہتا ہے!
اِس طلسمات میں جس نے بھی قدم رکھا وہ مُڑ کر دیکھنے پر پتھر کا ہوگیا!
مرزا کو اِس بات کا یقین دِلانا بہت مشکل ہے کہ اب قوم اُس منزل سے بہت آگے
جاچکی ہے جہاں اُس کے لیے اور اُس کے بارے میں سوچنا بہت ضروری تھا۔ اب
سوچنا اِس لیے بھی کِسی کام کا نہیں رہا کہ قوم کو یقین ہے کہ سوچنے سے
معاملات سُلجھتے نہیں، اُلجھتے ہیں! قوم کا ہر فرد اِس کوشش میں ہے کہ ذہن
کو متحرک اور فعال کئے بغیر کام کرے اور کرتا ہی چلا جائے! جو لوگ اپنے
ذہنوں کو متحرک نہیں رکھتے وہ تیزی سے آگے بڑھتے ہیں اور زندگی کے سارے مزے
پاتے ہیں۔ مرزا نے کئی بار یہ تجربہ بھی کیا ہے اور اِس کے فوائد بھی بٹورے
ہیں! جب کبھی اُنہوں نے ذہن کو زحمت دیئے بغیر کچھ کہا ہے، لوگوں نے خوب
سراہا ہے بلکہ یاروں نے بحث کے دوران اُن کے جملوں کا حوالہ بھی دیا ہے! ہم
سمجھتے تھے کہ چند ایک کامیاب تجربات سے مرزا اپنی روش بدل لیں گے اور سوچے
بغیر بولنے کی مہارت کو زندگی کا حصہ بنالیں گے۔ مگر وائے ناکامی کہ ہماری
یہ آرزو بھی ناکام رہی۔
مرزا کو لاحق ہونے والی تازہ ترین فکر یہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی طرح کیا
راجہ پرویز اشرف کو بھی گھر جانا پڑے گا۔ ہم نے اُن کی خدمت میں عرض کیا کہ
راجہ پرویز اشرف کے لیے وزارتِ عُظمٰی ”بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا“ کے
مصداق ہے۔ یہ منصب اُن کے مقدر میں دور دور تک دِکھائی نہیں دیتا تھا۔ یوسف
رضا گیلانی نے پارٹی (یعنی پارٹی کے سربراہ) سے وفا نبھائی اور سوئس عدالت
کو خط لکھنے سے انکار کیا۔ اور پھر اِس انکار پر ڈٹے بھی رہے۔ یہ ثابت قدمی
اور اولو العزمی راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم ہاؤس تک لائی ہے۔ اب اگر وہ
پارٹی اور اُس کے سربراہ سے وفاداری نبھاتے ہیں تو یقینی طور پر ایک اور
وزیر اعظم ہمارے سامنے آئے گا۔
آج وہ، کل ہماری باری ہے!
ہم تو چاہیں گے کہ راجہ پرویز اشرف وفا کے معیار پر پُورے اُتریں۔ ہمارے
ہاں وفا کا معیار ضرور بدلتا رہتا ہے، وفا وہی رہتی ہے۔ یعنی غیر مشروط،
اٹل اور انتھک۔ پیپلز پارٹی نے اِس کی انوکھی مثالیں قائم کی ہیں۔ اب راجہ
پرویز اشرف کی باری ہے۔ وزارت عُظمٰی ملک میں انتظامی اُمور کی سب سے بڑی
گدّی ہے۔ اِس اعتبار سے راجہ پرویز اشرف بھی اب گدّی نشین ہوگئے ہیں۔ اب وہ
اِس گدّی پر بیٹھے رہنے کے لیے کیا کرتے ہیں، یہ دیکھنا بے حد دلچسپ ہوگا۔
مسئلہ یہ ہے کہ راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم کی گدّی پر بیٹھے ہیں اور وفا کے
تقاضے اُن کی گُدّی پر بیٹھے ہیں!
نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن!
لوگ سرکس میں طرح طرح کے تماشے دیکھتے ہیں۔ ایک تماشا بیلینسنگ ایکٹ کا بھی
ہوتا ہے۔ فنکار مختلف کرتب بھی دِکھاتا ہے اور اپنا توازن برقرار بھی رکھتا
ہے۔ ہماری سیاست بھی اب بہت حد تک سرکس کی حیثیت ہی اختیار کرگئی ہے۔ اِس
سرکس میں کئی فنکار اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لیے دنیا بھر کے تماشے
دِکھانے پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہر فنکار کو
بیلینسنگ ایکٹ پیش کرنا پڑ رہا ہے۔ مرزا کی نظر میں سیاست اِس قدر ”سرکسی“
ہوگئی ہے کہ اب سرکس والوں کو اپنے دھندے کی بساط لپیٹ لینی چاہیے! مرزا کی
چند ہی باتیں ہیں جن سے ہم متفق ہونے کی ہمت اپنے اندر پیدا کر پائے ہیں!
اور یہ بھی ایک ایسی ہی بات ہے۔
سیاسی سرکس کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ عوام کرتب دیکھ دیکھ کر تنگ
آ جاتے ہیں مگر فنکار کم ہوتے ہیں نہ کرتب۔ قابل غور بات یہ ہے کہ سیاسی
سرکس میں مسخروں کا الگ سے اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی! ہر فنکار کی
پرفارمنس کا بڑا حصہ کامیڈی پر مشتمل ہوتا ہے! بہت سے منچلے تو اپنی باتوں
اور حرکات و سکنات سے اِس قدر ہنساتے ہیں کہ تماشا دیکھنے والے ہنستے ہنستے
حواس کھو بیٹھتے ہیں! مرزا کی مثال چونکہ ہمارے سامنے ہے اِس لیے ہم سیاسی
سرکس کے کرتب دیکھتے وقت احتیاط برتتے ہیں!
راجہ پرویز اشرف بھی بیلینسنگ ایکٹ کی منزل میں ہیں۔ منصب سے متعلق اُمور
کا کیا بنے گا اور کیا بن رہا ہے، اِس سے کہیں بڑھ کر اُنہیں یہ فکر لاحق
ہے کہ خط نہ لکھنے پر گردن کِس طرح بچائی جائے! عدالت شکنجے کے ساتھ تیار
بیٹھی ہے۔ راجہ پرویز اشرف کے لیے وہی انجام تیار ہے جو یوسف رضا گیلانی کا
ہوا۔ مگر اِس منطقی انجام کو واقع ہونے سے کِس طرح روکا جاتا ہے، یہی سیاسی
سرکس کا سب سے دلچسپ آئٹم ہے۔ تب تک تماشائی کِتنے کرتب دیکھیں گے اور اُن
پر کیا کیا گزرے گی، یہ تو اللہ ہی جانتا ہے! اگر ہم راجہ پرویز اشرف سے
وفاداری بہ شرطِ اُستواری والے معاملے کی توقع رکھیں تو اُن کی گردن ماری
جاتی ہے! اور اگر وہ جیالے پن کی اگلی منزل تک جاکر خط لکھ بیٹھتے ہیں تو
پارٹی سے بھی ”اِنصاف“ ہی ملے گا! |