تحفہء مقبول در فضائل رسول ﷺ
[۱۲۸۰ھ]
سب رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبی ﷺ
مصنف
حکیم رحمان علی صاحب مرحوم
ترتیب جدید
محمد ثاقب رضا قادری
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نَحْمَدُاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمَ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ
الْکَرِیْمِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ بِالتَّجْبِیْلِ وَالتَّعْظِیْمِ
اس کے بعد احقر العباد رحمان علی حکیمؔ کہتا ہے کہ یہ رسالہ موسومہ بہ
تحفہء مقبول در فضائل رسول ﷺ باُمید فائدہ خاص و عام کے اُردو زبان میں
لکھتا ہوں ۔ ناظرین بانصاف سے اُمید ہے کہ میری سہو و خطا معاف کر کے اصلاح
سے مزّین فرمائیں گے۔ جَزَاھُمُ اللّٰہَ خَیْرًا
پوشیدہ نہ رہے کہ اگرچہ سب انبیاء علیہم السلام کے نفوسِ زاکیہ اور ابدانِ
صافیہ ہرعیب و نقصان سے پاک و صاف ہیں اور ہر ایک نبی کے ساتھ تصدیق و
ایمان ضرور ہے ، اس کے باوجود اللہ تعالی نے بعض کو بعض اوپر فضیلت اور
فوقیت دی ہے جیسا کہ فرمایا
فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ
ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا۔ (پارہ 3، البقرہ: 253)
پس مراتب و مدارجِ انبیاء میں تفاوت اور تفاضل ہے خصوصََا ختمی مآب سرورِ
انبیائ، پیشوائے اتقیا ،مخزنِ علوم اولین و آخرین ،معدنِ فیوض انبیاء و
مرسلین، مرکز دائرہء فضل و کمال ،مظہرِ انوار حسن وجمال، سیّد الرُّسل، فخرِ
جُزو کُل، احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و اصحابہٖ سب
انبیاء علیہم السلام سے افضل و اعظم و اشرف و اکرم ہیں اور اس میں شک نہیں
ہے کہ جو کمالات و فضائل اور کرامات و خصائل اور نبیوں کو جُداجُدا حاصل
ہوئے تھے وہ سب یک جا آپ ﷺکو مثل اُن کے بلکہ اُن سے بہتر حاصل ہوئے اور
سوائے اُن فضائل اور کرامات کے اور بہت کمالات ہیں کہ کسی نبی کوحاصل نہیں
ہوئے صرف ذاتِ بابرکات آنحضرت ﷺ کے ساتھ خاص ہیں اگر کوئی یہ کہے کہ آنحضرت
ﷺ کی تفضیل اور انبیا ء پر بموجب حدیث نبوی
لَاتُفَضِّلُوْنِیْ عَلٰی یُوْنُسَ بِنْ مَتّی
مجھے یونس بن متی علیہ السلام پر فضیلت نہ دو۔
وغیرہ کے روا نہیں ۔
اس کا جواب[٭] یہ ہے کہ ایسی حدیثیں آنحضرت ﷺ سے بر سبیل تواضع وارد ہوئی
ہیں اور اَنَاسَیِّدُ وَلَدِ اٰدَمَ
میں اولاد آدم کا سردار ہوں۔(مسلم:4223، سنن ابوداؤد:4053،سنن
الترمذی:3073، 3548)
بطور ذکر ِنعمت کے آپ ﷺنے فرمایا ہے بموجب آیہ وَ اَمَّابِنِعْمَۃِ رَبِّکَ
فَحَدِّثْ
اور اپنے ربّ کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔ (پارہ 30، الضحیٰ : 11)
اور آیہء کریمہ لَانُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ
ہم ان میں کسی پر ایمان میں فرق نہیں کرتے۔ (پارہ2، البقرہ:136)
میں نفیِ تفریق ایمان کی ہے جیسا کفار کہتے تھے نُوْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ
نُکَفِّرُبِبَعْضٍِِ
ہم کسی پر ایمان لائے اور کسی کے منکر ہوئے۔ (پارہ4، النساء : 150)
نہ کہ نفیِ تفاوت مراتب کی ، چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے وَ رَفَعَ
بَعْضَہُمْ دَرَجَاتٍ
اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلند کیا۔ (پارہ 3، البقرہ: 253)
حاصل کلام :
حضور ﷺ کے اوصاف و فضائل دو (2)قسم ہیں:
1۔ ایک وہ کہ جس میں اور انبیاء علیہم السلام بھی آپ ﷺکے شریک تھے۔
2۔ دوسرے وہ کہ صرف ذاتِ سِتُودہ صفات سے خصوصیت رکھتے ہیں۔
اور جو فضائل مخصوصہ کہ سوائے اس کے آپ ﷺکی امت مرحومہ کو عطا ہوئے ہیں
درحقیقت وہ بھی آپ ﷺ ہی کی طرف راجع ہیں ۔
اس رسالہ کا مضمون تین (3)فصل میں بیان ہوتا ہے۔
بِاللّٰہِ التَّوْفِیقُ وَالْھِدَایَۃُ فِی الْبِدَایَۃِ وَالنِّہَایَۃِ
1۔ پہلی فصل :
مشترکہ اوصاف و فضائل کے بیان میں۔
2۔ دوسری فصل:
فضائل مخصوصہ کے بیان میں
3۔ تیسری فصل:
فضائل مخصوصہ اُمّت مرحومہ کے بیان میں
٭٭٭٭٭
پہلی فصل
مشترکہ اوصاف وفضائل کے بیان میں
بیان تفضیل بر آدم علیہ السلام:
آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے اپنے یدِقدرت سے بنایا
خَلَقْتُ بِیَدَیَّ
جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ (پارہ23،ص:75)
اور اس میں نفخ رُوح فرمایا (یعنی رُوح پھونکی)
فَاِذَا سَوَیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ
پھر جب میں اُسے ٹھیک بنالوں اور اُس میں اپنی طرف کی رُوح پھونکوں۔ (پارہ
23، ص : 72)
حضرتﷺ کے نور کامل السُّرور کو اپنے نورِ گنجینہء ظہور سے پیدا کیا
کُلُّ الْخَلَائْقِ مِنْ نُوْرِیْ وَ اَنَا مِنْ نُّوْرِ اللّٰہِ
تمام مخلوق میرے نور سے ہے اور میں اللہ کے نور سے ہوں۔[٭]
پھر دنیا میں سینہء مبارک کو چاک کر کے ایمان و حکمت سے بھر دیا وہاں تخلیق
آدم بدفعہء واحد ہوئی یہاں شرح صدر فخرِ عالم ﷺ نے چار(4) مرتبہ ظہور
پایا۔[٭]
اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَّ
کیا ہم نے تیرے لئے سینہ کشادہ نہ کیا۔ (پارہ 30، الشرح: 01)
فرشتوں نے بامر الٰہی آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا
فَسَجَدَ الْمَلٰٓئکَۃُ کُلُّھُمْ
تو جتنے فرشتے تھے (سب کے سب) سجدے میں گرے۔ (پارہ 14، الحجر:30)
حضرت ﷺ پر اللہ تعالیٰ اور ُاس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں بلکہ مومنوں کو
بھی درود و سلام بھیجنے کا حکم کیا
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ
یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا
تَسْلِیْمًا
بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے
ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ (پارہ 22، الاحزاب: 56)
گوکہ سجود ملائکہ بھی آدم کو ببرکتِ نور محمدی کے جو پیشانیِ آدم علیہ
السلام میں لامع تھا ، واقع ہوا، مگر یہ صلوٰۃ وسلام اس سجدے سے کس واسطے
افضل و اعلیٰ ہے؟
اس واسطے کہ اس میں اللہ تعالیٰ بھی فرشتوں کا’’شریک‘‘[٭] ہے اور آدم کو
فقط فرشتوں نے سجدہ کیا تھا اور یہ کہ وہ سجدہ صرف ایک مرتبہ وقوع میں آیا
اور یہ صلوٰۃ وسلام ہمیشہ اور نِتْ نیا ہے۔
روزِ قیامت تک آدم علیہ السلام کو علم اسما(اسم کی جمع بمعنی نام)سکھایا
وَ عَلََّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا
اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے۔ (پارہ 1، البقرہ: 31)
حضور ﷺ کے واسطے آپ کی اُمت متمثل کی گئی اور سب کے نام سکھائے گئے ۔
آدم علیہ السلام کو صرف اسماء سکھائے گئے ہمارے حضرت ﷺ کو اسماء سکھائے گئے
اور مسمّٰی (یعنی صاحبِ نام) دکھائے گئے ۔ یہ تعلیم حضرت کی تعلیم آدم علیہ
السلام سے افضل ہے۔
بیان تفضیل بر شیث علیہ السلام:
شیث علیہ السلام بصفت معرفت موصوف تھے ہمارے حضرت ﷺ میں ان سے زیادہ یہ صفت
تھی چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے
اَلْمَعْرِفَۃُ رَاْسُ مَالِیْ
معرفت الٰہی میرا اصل مال ہے۔ (کشف الخفائ:1532)
۱دریس علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بہشت میں زندہ پہنچایا
وَ رَفَعْنٰہُ مَکََانًا عَلِیًّا
اور ہم نے اُسے بلند مکان پر اُٹھا لیا۔ (پارہ 16، مریم : 57)
ہمارے حضرت ﷺ کو ایسے مکان تک پہنچایا کہ کوئی نبی اور فرشتہ اُس مقام تک
کبھی نہ پہنچا ۔
بیان تفضیل بر نوح علیہ السلام:
ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی
پھر وہ جلوہ نزدیک ہوا، پھر خوب اُتر آیا تو اس جلوے اور اس محبو ب میں دو
ہاتھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم۔ (پارہ 27، النجم: 09)
نوح علیہ السلام پر جو لوگ ایمان لائے تھے وہی غرق ہونے سے بچے
قِیْلَ یٰنُوْحُ اھْبِطْ بِسَلَامِِ مِّنَّاوَبَرَکٰتِِ عَلَیْکَ وَ عَلٰی
اُمَمِِِ مِّمَّنْ مَعَکَ
فرمایا گیا اے نوح، کشتی سے اُتر ہماری طرف سے سلام اور برکتوں کے ساتھ جو
تجھ پر ہیں اور تیرے ساتھ کے کچھ گروہوں پر۔(پارہ12، ھود: 48)
ہمارے حضور ﷺ کے وقت کے کفار بسبب برکت آپ کے عذاب دنیا سے محفوظ رہے
مَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَ اَنْتَ فِیْھِمْ
اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف
فرماہو۔(پارہ09،الانفال:33)
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی اُمت کے کافروں کے حق میں دعا کی
رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا
اے میرے ربّ زمین پر کافروں میں سے کوئی بسنے والا نہ چھوڑ۔ (پارہ 29،
نوح:26)
حضور ﷺ نے جنگ اُحُد میں باوجود یکہ کافروں سے بڑی بڑی سختیاں اٹھائیں پھر
بھی اُن کے حق میں دعائے بد نہ کی بلکہ بنظر رحمت فرمایا
اللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
اے اللہ! میری قوم کو ہدایت عطا فرما، کیونکہ وہ علم نہیں رکھتے۔ (شعب
الایمان للبیہقی:1428)
حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی پانی پر تیرتی تھی یہاں وقت درخواست عکرمہ بن
ابی جہل کے حضور ﷺ کے اشارے سے پتھر پانی پر تیرنے لگا۔
بیان تفضیل بر حضرت لوط علیہ السلام:
لوط علیہ السلام کی امت پر پتھر برسے
وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلِِ
اور اس پر کنکر کے پتھر لگاتار برسائے۔ (پارہ12، ھود: 82)
حضور ﷺ نے ہنوز دنیا میں قدم نہیں رکھا تھا کہ اصحابِ فیل(ہاتھیوں والے کہ
کعبہ کو گرانے آئے تھے) کے شر سے اللہ تعالی نے خانہء کعبہ کو محفوظ رکھا
اور کفار پر پتھر برسایا
تَرْمِیْھِمْ بِحِجَارَۃِِ مِّنْ سِجِّیْلِِ
انہیں کنکر کے پتھروں سے مارتے۔ (پارہ 30، الفیل:04)
بیان تفضیل بر ابراہیم علیہ السلام:
ابراہیم علیہ السلام پر آتشِ نمرود سرد ہوئی
یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ
اے آگ ہو جا ٹھنڈی اور سلامتی ابراہیم پر۔ (پارہ 17،الانبیائ:69)
حضور ﷺ کے واسطے کفار کی لڑائی کی آگ ٹھنڈی کی گئی
کُلَّمَآ اَوْ قَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَھَا اللّٰہُ
جب کبھی لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اُسے بُجھا دیتا ہے۔
(پارہ06،المائدہ: 64)
اور اس سے زیادہ یہ ہے کہ آپ شبِ معراج میں آگ کے دریا پر ہو کر گزرے جس کو
کرہء نار کہتے ہیں اور کرہء نار آپ کی برکت سے ٹھنڈا ہو گیا ۔
ابراہیم علیہ السلام نے تبر سے بتوں کو توڑا
فَجَعَلَہُمْ جُذٰذًا
تو ان سب کو چُورا کر دیا۔ (پارہ17، الانبیاء : 58)
حضور ﷺ نے بتانِ کعبہ کو جو سیسے سے دیوار میں جمائے تھے ، ایک لکڑی کے
اشارے سے گرا دیا۔
جَائَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ
حق آیا اور باطل مٹ گیا۔ (پارہ15،بنی اسرائیل:81)
ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ بنایا۔ حضور ﷺ نے تعمیرِ قریش کے وقت حجر
اسود کو اُس کے مقام پر رکھا اور حجر اسود خانہء کعبہ میں بمنزلہء بدن میں
دل کے ہے ۔ پس شراکت حضرت ﷺ کی تعمیرِ خانہء کعبہ میں اقویٰ اور اعلیٰ ہے ۔
ابراہیم علیہ السلام نے’’ خِلَّت‘‘ کا مقام پایا
وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبْرَاھِیْمَ خَلِیْلاً
اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنایا۔ (پارہ 05، النسائ: 125)
حضور ﷺ نے’’ مقامِ محبت‘‘ پایا۔ ’محبت‘ ’خلّت‘سے اعلیٰ ہے کیونکہ ’’حبیب‘‘
اُ س محب کو کہتے ہیں کہ مقامِ محبوبیت کو پہنچ جائے
اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ
لوگو!اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرماں بردار ہو جاؤ اللہ تمہیں
دوست رکھے گا۔ (پارہ03، ال عمران:31)
’’خلیل‘‘ وہ ہے جس کا فعل برضا ئے خدا ہو
اِفْعَلْ مَا تُؤْمَرُ
کیجئے، جس بات کا آپ کو حکم ہوتاہے۔ (پارہ23،الصّٰفٰت:102)
’’حبیب‘‘ وہ ہے کہ خدا کا فعل اُس کی رضا کے موافق ہو
فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰھَا
تو ضرور ہم تمہیں پھیر دیں گے اُس قبلہ کی طرف، جس میں تمہاری خوشی ہے۔
(پارہ02، البقرہ:144)
’’خلیل ‘‘ نے مغفرت کی طمع کی
وَالَّذِیْٓ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَلِیْ
اور وہ جس کی مجھے آس لگی ہے (کہ میری خطائیں قیامت کے دن) بخشے گا۔( پارہ
19،الشعرائ: 82)
’’حبیب‘‘ کو مغفرت خود بخود ملی
لِیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ
تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے۔ (پارہ 26، الفتح: 02)
’’خلیل‘‘ نے بالتجا عرض کیا
وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ
اور مجھے رُسوا نہ کرنا جس دن سب اُٹھائے جائیں گے۔ (پارہ19، الشعراء : 87)
’’حبیب‘‘ کی شان میں بے التجا ارشاد ہوا
یَوْمَ لَا یُخْزِیْ اللّٰہُ النَّبِیَّ
جس دن اللہ رُسوا نہ کرے گا نبی (کو) ۔(پارہ 28، التحریم: 08)
بلکہ براہِ کمال محبت اور بھی زیادہ فرمایا
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ
اور اُن کے ساتھ کے ایمان والوں کو۔(پارہ 28، التحریم: 08)
’’خلیل‘‘ نے ہدایت کی اُمید کی
اِنِّیْ ذٰھِب’‘ اِلٰی رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ
میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں، اب وہ مجھے راہ دے گا۔ (پارہ23،
الصّٰفٰت: 99)
’’حبیب‘‘ کو بطور خود فرمایا
وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَھَدٰی
اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی۔ (پارہ
30،الضحٰی:07)
’’خلیل‘‘ نے درخواست کی
وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِیْ الْاٰخِرِیْنَ
اور میری سچی نام وری رکھ پچھلوں میں۔ (پارہ19،الشعرائ: 84)
’’حبیب‘‘ کے حق میں فرمایا
وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ
اور ہم نے تمہارے لئے تمہار ا ذکر بلند کر دیا۔ (پارہ 30، الشرح: 04)
’’خلیل‘‘ نے کہا
وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیْمِ
اور مجھے اُن میں کر جو چین کے باغوں کے وارث ہیں۔ (پارہ19، الشعراء : 85)
’’حبیب‘‘ کے واسطے حکم ہوا
اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ
اے محبوب بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں۔ (پارہ 30، الکوثر:
01)
’’خلیل‘‘ نے کہا
وَاجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ
اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کے پُوجنے سے بچا۔ ( پارہ 13، ابراھیم:
35)
’’حبیب‘‘ کے حق میں کہا
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ
وَ یُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا
اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے
اور تمہیں پاک کر کے خوب سُتھرا کر دے۔ (پارہ22، الاحزاب: 33)
ابراہیم خلیل کو ذبح اسمعیل خواب میں دکھایا
اِنِّیْٓ اَرٰی فیِ الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ
(اے میرے بیٹے) میں نے خواب دیکھا کہ میں تجھے ذبح کرتا ہوں۔ (پارہ 23،
الصّٰفٰت: 102)
’’حبیب‘‘ کو واقعہ شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کا بزبانِ جبریل علیہ السلام
سنایا ۔
’’خلیل‘‘ ذبحِ اسمعیل پر راضی ہوئے اُن کو بشارتِ اسحق علیہ السلام ملی۔
وَ بَشَّرُوْہُ بِغُلَامٍ عَلِیْمٍ
اور اُسے ایک علم والے لڑکے کی بشارت دی۔ (پارہ 26، الذٰریٰت: 28)
’’حبیب‘‘ اپنے فرزند کے قتل پر صابر ہوئے ان کو بشارتِ شفاعت کُبریٰ ملی۔
وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی
اور بے شک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے۔
(پارہ30، الضحٰی: 05)
فائدہ:
ہر گاہ خلیل و حبیب میں ، کہ محل خلت و محبت ہیں اس قدر فرق ہے تو خلت و
محبت میں بمنزلہء اولیٰ فرق ظاہر ہے ۔
پس معلوم ہوا کہ صفتِ خلت خاص حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واسطے اور صفت
محبت خاص ہمارے حضرت ﷺ کے لئے ہے لیکن سرورِ کائنات باوجود خصوصیت محبت کے
صفت خلت میں ابراہیم علیہ السلام کے شریک ہیں بلکہ آپ کی خلت ، خلتِ
ابراہیم علیہ السلام سے اکمل و افضل ہے اور صفت محبت کی اس پر زیادہ ہے۔
لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیْلاً غَیْرَ رَبِّیْ لَا تَّخَذَتُ اَبَا
بَکْرٍ خَلِیْلاً
اگر میں اللہ عزوجل کے سوا کسی اور کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔
(بخاری:3381)
یہاں سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺکا خلیل ہے ، سوائے اُس کے آپ ﷺ کا
کوئی خلیل نہیں اور’خلت‘ کی نسبت دونوں طرف سے ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ آپ
کا خلیل ہوا آپ بھی اللہ تعالیٰ کے خلیل ہوئے۔
بیان تفضیل بر اسمعیل علیہ السلام:
اسمعیل علیہ السلام کی زبان عربی تھی اور وہ اس زبان کی’’ فصاحت‘‘ میں
مشہور تھے چنانچہ یہی زبان حضور ﷺ کو بھی بفصاحتِ تمام عنایت ہوئی۔
اَنَا اَفْصَحُ مَنْ نَّطَقَ بِالضَّادِ
میں ’’ضاد‘‘ بولنے میں سب سے زیادہ فصیح ہوں۔ [۱]
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب میں آپ ﷺنے فرمایا کہ اسمعیل کی زبان
محو (ناپید) و مندرس ہو گئی تھی ، اس زبان کو میرے پاس جبریل علیہ السلام
لائے اور میں نے اس زبان کو یاد کر لیا اور فرمایا
اَدَّبَنِیْ رَبِّیْ فَاَحْسَنَ تَاْدِیْبِیْ
مجھے میرے رب نے ادب سکھایا پس بہت خوب ادب سکھایا ۔(کنزالعمال:31895)
بیان تفضیل بر اسحق علیہ السلام:
اسحق علیہ السلام’’ رضا ‘‘کے ساتھ موصوف تھے اور ہمارے حضرت ﷺ نے فرمایا
اَلرِّضَائُ غَنِیْمَتِیْ
رضا (راضی رہنا) میری غنیمت ہے۔ (احیاء علوم الدین، ج3، ص450)
بیان تفضیل بر یعقوب علیہ السلام:
یعقوب علیہ السلام کو اپنے بیٹے یوسف علیہ السلام سے محبت تھی اور ان کی
جدائی کا غم تھا آخر اللہ تعالیٰ نے اُن کو وصال یوسف علیہ السلام کی بشارت
دی اور پھر ملاقات سے اُن کی آنکھیں روشن کیں اسی طرح ہمارے حضرت ﷺ کو اپنی
امت سے محبت تھی اور ان کے عصیاں کا آپ کو غم تھا اللہ تعالیٰ نے آپ کو
مغفرت ِ اُمت کی بشارت دی ۔
ہر گاہ مغفرت کی بشارت حاصل ہوئی ، بالضرور اللہ تعالیٰ امت مرحومہ کو اپنے
اور اپنے حبیب کے دیدار سے مشرف کرے گا پس’’ بیٹے کی محبت‘‘ میں کہ ہر ایک
کو ہوتی ہے اور’’ امت کی محبت ‘‘میں کہ خاص حضرت ﷺ کو تھی ، بڑا فرق ہے۔
بیان تفضیل بر یوسف علیہ السلام:
یوسف علیہ السلام کو تھوڑا حسن ملا ہمارے حضرت ﷺ کو بالکل حسن عطا ہوا۔
اے صبح سعادت ز جبیں تو ہویدا
آں حسن چہ حسن ست تبارک و تعالیٰ
یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر زنانِ مصر نے اپنے ہاتھ کاٹے ، حضرت ﷺ کو اگر
دیکھتیں تو دل کے ٹکڑے ٹکڑے کرتیں۔
لَوَاحِیْ زَلِیْخَا لَوْ رَاَیْنَ حَبِیْبَنَا
لَاٰثَرْنَ تَقْطِیْعَ الْقُلُوْبِ عَلٰی یَدِ [٭]
یوسف علیہ السلام ’صبیح‘تھے اور آپ ﷺ ’ملیح‘ ، ملاحت (نمکینی)میں جو مزا ہے
وہ صباحت (سفید رنگ)میں نہیں ۔
یوسف علیہ السلام کو بسبب عشق زلیخا مملکتِ مصر عطا ہوئی
مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ
ہم نے یوسف کو اس ملک پر قدرت بخشی۔ (پارہ 13، یوسف:56)
حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا عشق حسن رسالت پناہی کے ساتھ اس سے کم
نہیں ۔
وَ وَجَدَکَ عَآئِلاً فَاَغْنٰی
اور تمہیں حاجت مند پایا پھر غنی کر دیا۔ (پارہ 30، الضحٰی: 08)
بیان تفضیل بر موسیٰ علیہ السلام:
موسیٰ علیہ السلام کے عصا کو اللہ تعالیٰ نے اژدہائے غیر ناطق بنایا ہمارے
حضرت ﷺ کی جدائی میں چوب ستون کو رُلایا ۔
موسیٰ علیہ السلام کو ید بیضا نبوت کا نشان ملا ، ہمارے حضرت ﷺ ’’خاتم
النبیین ‘‘تھے اسی واسطے ختم نبوت آپ کو عطا ہوئی ۔ ید بیضا کی روشنی میں
آنکھیں جھپکتی تھیں
تَخْرُجْ بَیْضَآئَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ
(اور اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال) نکلے گا سفید چمکتا بے عیب۔ (پارہ 19،
النمل: 12)
ہمارے حضرت ﷺ کو سراپا نور کا عالم بنایا
قَدْ جَآئَ کُمْ مِنَ اللّٰہِ نُوْر’‘ وَّ کِتٰب’‘
بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور (روشن) کتاب۔ (پارہ06،
المآئدہ:15)
اگر وہ نور پردہ ء بشریت میں چھپا نہ ہوتا ، کسی کی نظر آپ کے جمالِ باکمال
تک نہ پہنچتی
نُوْر’‘ عَلٰی نُوْرٍ
نور پر نور ہے۔ (پارہ 18، النور: 35)
یک چراغ ست دریں خانہ کہ از پرتوِ آں
ہر کجا می نگری انجمنی ساختہ اند
موسیٰ علیہ السلام کے واسطے دریائے نیل پھٹ گیا
اِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ
اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا پھاڑ دیا ۔ (پارہ01، البقرہ: 50)
حضرت ﷺ کے اشارے سے چاند آسمان پر پھٹ گیا
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ
پاس آئی قیامت اور شق ہو گیا چاند۔ (پارہ 27، القمر: 01)
معجزہء موسیٰ علیہ السلام اور معجزہء محمدی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا پتھر میں مارا ، پتھر سے پانی جاری ہوا
فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا
فورََا اُس میں سے بارہ چشمے بہ نکلے۔ (پارہ01، البقرہ: 60)
حضور ﷺ کی انگلیوں سے پانی جاری ہوا اور یہ بات بہت ابلغ ہے کیونکہ پتھر سے
پانی نکلنا ممکن ہے بخلاف انگلیوں کے ۔
موسیٰ علیہ السلام نے خضر علیہ السلام سے کہا
اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ
(اس شرط پر کہ) تم مجھے سکھا دو گے (نیک بات) جو تمہیں تعلیم ہوئی۔
(پارہ15،الکھف: 66)
حضور ﷺ کی درخواست خدا سے تھی
رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا
اے میرے رب مجھے علم زیادہ دے۔ (پارہ 16، طٰہٰ: 114)
موسیٰ علیہ السلام کی مناجات کا مقام طورِ سینا ہے حضرت ﷺ کی مناجات کا
مقام عرشِ معلّٰی ہے ۔
موسیٰ علیہ السلام نے شرح ِ صدر کی دعا کی
رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ
اے میرے رب میرے لئے میرا سینہ کھول دے۔ (پارہ16، طہ:25)
آپ ﷺ کو شرحِ صدر بے مانگے ملا
اَلَمْ نَشْرَح لَکَ صَدْرَکَ
کیا ہم نے تمہارے لئے سینہ کشادہ نہ کیا۔ (پارہ30، الشرح:01)
موسیٰ علیہ السلام نے اپنی امت پر ہارون کو خلیفہ بنایا
ھَارُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ
(اور موسیٰ نے اپنے بھائی سے کہا) میری قوم پر میرے نائب رہنا۔ (پارہ 09،
الاعراف:142)
حضرت ﷺ کی امت پر اللہ تعالی خلیفہ ہے
وَاللّٰہُ خَلِیْفَتِیْ مِنْ بَعْدِیْ
اور میرے پیچھے میرا اللہ خلیفہ ہے۔
بیان تفضیل بر ہارون علیہ السلام:
ہارون علیہ السلام میں وصفِ فصاحت تھا
ھُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا
اُس کی زبان مجھ سے زیادہ صاف ہے۔ (پارہ 20، القصص: 34)
حضور ﷺ اُن سے زیادہ فصیح تھے
اَنَا اَفْصَحُ الْعَرَبِ وَالْعَجَمِ
میں عرب و عجم کا زیادہ فصیح ہوں۔
فصاحت ہارون علیہ السلام کی’’ عبرانی‘‘ زبان میں تھی ، حضو ر ﷺ کی فصاحت
’’عربی‘‘ میں تھی اور زبان عربی سب زبانوں سے افصح ہے۔
ھٰذَا لِسَان’‘ عَرَبِیّ’‘ مُّبِیْن’‘
اور یہ روشن عربی زبان۔ ( پارہ 14، النحل: 103)
فصاحت ہارون علیہ السلام کی بہ نسبت موسیٰ علیہ السلام کے تھی نہ کہ بہ
نسبت سب آدمیوں کے ۔
اسی لئے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اَفْصَحُ مِنِّیْ کہا اور یہ بات
ظاہر ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی زبان میںلُکنت تھی اگر ہارون علیہ السلام
اُن سے فصیح ہوئے توکچھ تعجب نہیں۔
بیان تفضیل بر داؤد علیہ السلام:
داؤد علیہ السلام کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے لوہے کو نرم کیا حضورﷺ کی دعا
سے خشک درخت کو سبز بنایا اور قدم شریف کے نیچے پتھر کو نرم کر دیا۔
ٍٍ داؤد علیہ السلام کے ساتھ پہاڑ تسبیح کرتے تھے حضور ﷺ کے ہاتھ پر پتھرنے
تسبیح کی ۔
داؤد علیہ السلام خوش آواز تھے ہمارے حضور ﷺ ان سے بھی زیادہ تر خوش آواز
تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہیں بھیجاکسی
پیغمبر کو،مگر خوش رُو اور خوش آواز ۔ یہاں تک کہ ہمارے پیغمبر ﷺ کو سب سے
زیادہ خوش رُو اور خوش آواز بھیجا ۔
تفضیل بر سلیمان علیہ السلام:
سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے چڑیوں کی بولی سکھائی
عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ
(اے لوگو) ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی۔ (پارہ19، النمل: 16)
حضور ﷺ کے سامنے زہر آلودہ گوشت کا بولنا اور اونٹ کا شکوہ کرنا اور چڑیا
کا آپ سے فریاد کرنا جب کسی نے اس کے بچوں کو لے لیا تھا ، کتب معجزات میں
مصرح ہے۔
سلیمان علیہ السلام کے واسطے ہوا کو تابع دار بنایا
غُدُوُّھَا شَہْر’‘ وَّ رَوَاحُھَا شَہْر’‘
(اور سلیمان کے بس میں ہوا کر دی) اس کی صبح کی منزل ایک مہینہ کی راہ اور
شام کی منزل ایک مہینہ کی راہ۔(پارہ22، سبا:12)
آپﷺ کو براق عطا کیا کہ ہواسے بھی زیادہ تیز رو تھا بلکہ بجلی سے بھی تیز
تر کہ چشم زدن میں فرش سے عرش پر لے گیا۔
سلیمان علیہ السلام نے شیطان کو مسخر کیا
وَالشَّیٰطِیْنَ کُلَّ بَنَّائٍ وَّ غَوَّاصٍ
اور دیو بس میں کر دئیے ہر معمار اور غوطہ خور۔ (پارہ 23، صٓ: 37)
حضور ﷺ کے پاس نماز کے وقت شیطان کا آنا اور اس پر آپ کا قادر ہونا اس
تسخیر سے افضل ہے۔
سلیمان علیہ السلام کے واسطے جن مسخر ہوئے
وَّ اٰخَرِیْنَ مُقَرَّنِیْنَ فِی الْاَصْفَادِ
اور دوسرے اور بیڑیوں میں جکڑے ہوئے۔ (پارہ 23، صٓ:38)
اور ہمارے حضور ﷺ پر جن ایمان لائے
فَاٰمَنَّا بِہٖ
تو ہم اس پر ایمان لائے۔ (پارہ 29، الجن:02)
سلیمان علیہ السلام جنوں سے کام لیتے تھے
وَ مِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْہِ
اور جنّوں میں سے وہ جو اُس کے آگے کام کرتے۔ (پارہ22، سبا:12)
اور حضور ﷺ جنّوں سے اسلام لیتے تھے
اَجِیْبُوْا دَاعِیَ اللّٰہِ وَ اٰمِنُوْا بِہٖ
(اے ہماری قوم) اللہ کے منادی کی بات مانو۔ (پارہ26، الاحقاف:31)
سلیمان علیہ السلام کو جنّوں کا لشکر ملا تھا
وَ حُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ
اور جمع کئے گئے سلیمان کے لئے اس کے لشکر جنّوں سے۔ (پارہ19، النمل:17)
اور حضور ﷺ کو فرشتوں کا لشکر ملا
یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰئِکَۃِ
تو تمہار ا رب تمہاری مدد کو پانچ ہزار فرشتے( نشان والے) بھیجے گا۔
(پارہ04، ال عمران: 125)
سلیمان علیہ السلام کے لشکر میں چڑیوں کو بھی شمار کیا ہے اس سے زیادہ عجیب
تر قصہ اس کبوتر کا ہے جو غارِ حرا کے دروازے پر آیا اور ایک ساعت میں
آشیانہ لگا کر بیضہ(انڈا) دیا اور آپ ﷺ کو دشمنوں سے بچایا اور لشکر سے
مقصود حمایت اور بچاؤ ہے یہاں ایک کبوتر سے وہی بات حاصل ہوئی ۔
سلیمان علیہ السلام کو ہفت اقلیم کی بادشاہی ملی ، ہمارے حضور ﷺ کے سامنے
سلطنت اور عبودیت دونوں حاضر کر دی گئیں، حضور ﷺ نے بندگی اختیار کی تو آپ
ﷺ کو عقبیٰ کی بادشاہی ملی ۔ یہ ایسی بادشاہی ہے جس کا زوال نہیں۔
وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْر’‘ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی
اور بے شک پچھلی تمہارے لئے پہلی سے بہتر ہے۔ (پارہ 30، الضحٰی: 04)
حضرت سلیمان علیہ السلام کے واسطے آصف بن برخیا بلقیس کا تخت اُٹھا لایا ،
ہمارے حضور ﷺ کے واسطے مقدمہ نکاح زینب میں خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
زَوَّجْنٰکَھَا
تو ہم نے وہ تمہارے نکاح میں دے دی۔ (پارہ22، الاحزاب:37)
بیان تفضیل بر ایوب علیہ السلام:
ایوب علیہ السلام بڑے صابر تھے
اِنَّا وَجَدْنٰہُ صَابِرًا
بے شک ہم نے اُسے صابر پایا۔ (پارہ 23، صٓ: 44)
ہمارے حضور ﷺ کی بھی شان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ
تو تم صبر کرو جیسا ہمت والے رسولوں نے صبر کیا۔ (پارہ26،الاحقاف:35)
بلکہ آنحضرت ﷺکا صبر ایوب علیہ السلام سے زیادہ تر تھا چنانچہ آپ ﷺ نے
فرمایا
مَا اُوْذِیَ نَبِیُّ قَطُّ مِثْلَ مَآ اُوْذِیْتُ
کوئی نبی اتنا نہیں ستایا گیا جتنا میں ستایا گیا ہوں۔ (تفسیر الالوسی، ج6،
ص20،تفسیر الرازی،ج2، ص454،تفسیرالنیساپوری،ج2،ص111)
جو تکالیف و ایذائے روحانی و جسمانی آنحضرت ﷺ نے جانب کفار سے اٹھائی ہیں
کسی اور پیغمبر کو پیش نہیں آئیں ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت بے
دینوں کے ہاتھ سے اور آپ ﷺ کا اس پر بوسیلہء وحی کے مطلع ہونا اور دندان
مبارک کا شہید ہونا ، اس کے سوا اور تکلیفیں جو کتب سِیَر میں موجود ہیں ،
ظاہر و ہویدا ہے۔
بیان تفضیل بر یوشع علیہ السلام:
یوشع علیہ السلام نے ہزار مہینے تک خدا کی راہ میں جہاد کیا اور کمر نہ
کھولی ۔
حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے لیلۃُ القدر عنایت کی جو ہزار مہینے سے بہتر ہے
لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْر’‘ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ
شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر۔ (پارہ30، القدر:03)
ہزار مہینے کا جہاد صرف یوشع علیہ السلام کے واسطے تھا ، لیلۃ القدر کا
ثواب حضور ﷺ کو ملا اور بطفیل اُن کے اب تک امت مرحومہ کو ملتا ہے۔
بیان تفضیل بر صالح علیہ السلام:
صالح علیہ السلام کی دعا سے پتھر سے اونٹنی پیدا ہوئی۔
ہمارے حضور ﷺ پر پہاڑوں کا سلام کرنا اور درخت کا آپ ﷺ کے حضور حاضر ہونا ،
اس سے کم نہیں۔
بیان تفضیل بر یونس علیہ السلام:
یونس علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے لاکھ خواہ سوا لاکھ آدمیوں پر مبعوث
فرمایا
وَ اَرْسَلْنٰہُ اِلٰی مِائَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ
اور ہم نے اُسے لاکھ آدمیوں کی طرف بھیجا بلکہ زیادہ۔ (پارہ23،الصّٰفٰت:
147)
ہمارے حضور ﷺ کو جمیع آدمیوں پر رسالت دی۔
وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَۃً لِّلنَّاسِ
اور اے محبوب ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو تمام آدمیوں کو
گھیرنے والی ہے۔
(پارہ22، سبا:28)
بلکہ آپ ﷺ کی رحمت سب عالم کو شامل ہے۔
وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ
اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔ (پارہ 17،
الانبیائ:107)
یونس علیہ السلام نے چالیس (40)برس تک اپنی قوم کو دعوتِ اسلام کی۔ قوم نے
پرستش ’بعل‘ سے منہ نہ موڑا۔
اَتَدْعُوْنَ بَعْلاً
کیا بعل کو پُوجتے ہو۔ (پارہ 23، الصّٰفٰت: 125) [٭]
ہمارے حضور ﷺ کی دعوت نے یہ تاثیر دکھائی کہ بے شمار مشرکین لات و منات
(بتوں کے نام) پر لات مار کر اسلام سے مشرف ہوئے ۔
یونس علیہ السلام نے قوم کے حق میں دعائے بد کی۔ اجابتِ دعا میں توقف ہوا ،
یونس علیہ السلام وہاں سے نکلے۔
اِذْ ذَّھَبَ مُغَاضِبًا
اور جب چلا غصہ میں بھرا۔ (پارہ 17، الانبیائ:87)
ہمارے حضور ﷺ نے چاہا کہ قبیلہء بنی ثقیف پر دعائے بد کریں حق تعالیٰ نے آپ
کو صبر کے واسطے ارشاد کیا اور کہا کہ
لَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ
اور اس مچھلی والے کی طرح نہ ہونا۔ (پارہ29، القلم:48)
بیان تفضیل بر یحییٰ علیہ السلام:
یحییٰ علیہ السلام کو لڑکپن میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبری دی
وَ اٰتَیْنٰہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا
اور ہم نے اُسے بچپن ہی میں نبوت دی۔ (پارہ16، مریم:12)
ہمارے حضور ﷺ قبل تخلیق آدم علیہ السلام و عالم نبی تھے
کُنْتُ نَبِیََّا وَّ اٰدَمُ بَیْنَ الْمَائِ وَالطِّیْنِ
میں اُس وقت بھی نبی تھا جب آدم ابھی مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔
(تفسیرالالوسی،ج5،ص302)
مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ تین (3) برس کے تھے لڑکوں نے آپ ﷺ سے کہا کہ ہمارے
ساتھ کیوں نہیں کھیلتے ؟
آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں کھیلنے کے واسطے پیدا نہیں ہوا۔
بیان تفضیل بر عیسیٰ علیہ السلام:
عیسیٰ علیہ السلام اندھے کو دیکھنے والا کرتے تھے اور کوڑھی کو اچھا کرتے
تھے اور مردے کو زندہ کرتے تھے
اُبْرِیْٔ الْاَکْمَہَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰی
اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سپید داغ والے کو اور میں مُردے
جِلاتا ہوں ۔ (پارہ03، ال عمران: 49)
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ باہر نکل آئی تھی ، حضور ﷺ نے ان کی آنکھ
پیشتر سے بہتر درست کر دی اور معاذ بن عفرا رضی اللہ عنہ کی جورَو(بیوی) کو
برص کی بیماری تھی، حضور ﷺ نے ان کو ایک لکڑی سے چھوا ، وہ اچھی ہو گئی۔
قدم نہادی و بر ہر دو دیدہ جا کردی
بیک نفس دلِ بیمار را دوا کر دی
ایک شخص حضور ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ اگر میرے بیٹے کو آپ جِلا دیں ( یعنی
زندہ کر دیں) تو میں ایمان لاؤں، چنانچہ حضور ﷺ اس کی قبر پر تشریف لے گئے
اور اس کا نام لے کر کے پکارا ، لڑکے نے قبر سے جواب دیا
لَبَّیْکَ وَ سَعْدَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ
یا رسول اللہ ﷺ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپ ﷺ کا فرماں بردار ہوں۔
عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ چوتھے آسمان پر لے گیا
بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ
بلکہ اللہ نے اُسے اپنی طرف اُٹھا لیا۔ (پارہ06، النسائ: 158)
ہمارے حضور ﷺ شبِ معراج میں ساتویں آسمان بلکہ لامکان تک تشریف لے گئے ۔
عیسیٰ علیہ السلام جب پیدا ہوئے ، قوم والے مریم علیہ السلام کو ملامت کرنے
لگے ، تب عیسیٰ علیہ السلام نے کہا
اِنِّیْ عَبْدُاللّٰہِ اٰتَانِیَ الْکِتٰبَ
میں ہوں اللہ کا بندہ ، اُس نے مجھے کتاب دی۔ (پارہ16، مریم:30)
ہمارے حضور ﷺ نے دنیا میں قدم رکھتے ہی سر بسجدہ ہو کر فرمایا
لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ
اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بے شک میں اللہ کا رسول ہوں۔
عیسیٰ علیہ السلام نے دو حواریوں کو دعوتِ دین کے واسطے اہل انطاکیہ کی طرف
بھیجا ، انطاکیہ والوں نے ان کو جھوٹا ٹھہرایا تب تیسرے حواری کو بھیجا ،
اس پر بھی اہل انطاکیہ ایمان نہ لائے اور ان کو جھوٹا بنایا اوررسالت کا
ثبوت طلب کیا ۔ حواریوں نے اپنی رسالت کا گواہ خدا کو قرار دیا۔
قَالُوْا رَبُّنَا یَعْلَمُ اِنَّآ اِلَیْکُمْ لَمُرْسَلُوْن
وہ بولے ہمارا رب جانتا ہے کہ بے شک ضرور ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔
(پارہ22، یٰسٓ:16)
اور ہمارے حضور ﷺ کی رسالت پر اللہ تعالیٰ آپ بقسم گواہی دیتا ہے
یٰسٓ وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ
حکمت والے قرآن کی قسم ، بے شک تم(سیدھی راہ)بھیجے گئے ہو۔(پارہ22،یس:01)
تاکہ کسی کافر کو جائے شک و انکار باقی نہ رہے ۔
الغرض جو کمالات اور خوبیاں اور انبیاء علیہم السلام میں علیحدہ علیحدہ
تھیں وہ سب آپﷺ کی ذاتِ سِتُودہ صفات میں بطریقِ اولیٰ و اعلیٰ و اکمل
مجتمع ہوئیں۔
خوبی و حسن و شمائل حرکات و سکنات
آں چہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ عَلٰی قَدْرِ حُسْنِہٖ وَ جَمَالِہٖ
٭٭٭٭٭
دوسری فصل
فضائل مخصوصہ کے بیان میں
آپ ﷺکی روح کا سب خلائق کی ارواح سے پہلے پیدا ہونا اور سب مخلوقات کی
ارواح کا آپﷺ کی روح پاک سے نکلنا اور سب کا آپ کے نور سے پیدا ہونا اور
عالمِ ارواح میں سب انبیاء علیہم السلام کی رُوحوں کا آپ کی رُوح سے فیض
یاب ہونا اور آپ کی باتوں کا ’’جوامع الکلم‘‘ یعنی لفظ تھوڑے، معنی بہت
ہونا، روزِ اول میں سب سے پہلے آپ سے پوچھا جانا
اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ
کیا میں تمہارا رب نہیں۔ (پارہ09، الاعراف:172)
اور سب سے پہلے آپ کا بَلٰی فرمانا۔آدم و عالم کا آپ ﷺکے واسطے پیدا ہونا
جس سواری پر سوارہوتے اس جانور کا حالتِ سواری تک بول و براز نہ کرنا ، نام
مبارک کا عرش اور بہشت کے دروازوں پر لکھا جانا ، روزِ اول میں سب انبیاء
علیہم السلام سے اقرار لیا جانا کہ جب محمد ﷺ مبعوث ہوں تم سب ان پر ایمان
لاؤ اور ان کی مدد کرو۔
وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثٰقَ النَّبِیٖنَ
اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا۔ (پارہ03، ال عمران:81)
آپ کی نبوت کی بشارت کتب سابقہ میں مندرج ہونا، نسب شریف میں آدم علیہ
السلام سے عبداللہ رضی اللہ عنہ تک زنا کا واقع نہ ہونا ، بہترین زمانہ اور
بہترین قبائل میں آپ کا مبعوث ہونا،آپ کے وقتِ ولادت سب بُتوں کا سرنگُوں
ہونا، جنّوں کا اشعار پڑھنا، آپ کامختون و ناف بریدہ پیدا ہونا، وقتِ ولادت
سجدہ کر کے آسمان کی طرف نظر اُٹھانا اور انگشتِ شہادت اُٹھا کر کلمہ پڑھنا
اور آمنہ خاتون سے نور کا ظاہر ہونا، فرشتوں کا آپ کو جُھولا جُھلانا، چاند
کا آپ سے باتیں کرنا اور بوقتِ اشارہ آپ کی طرف مائل ہونا، گرمی میں سر
مبارک پر ابر(بادل) کا سایہ کرنا، سینہء شریف کا چاک ہونا، سایہ دار درخت
کا آپ کی طرف متوجہ ہونا، ابتدائے وحی میں جبریل علیہ السلام کا آپ کو اپنی
آغوش میں لے کر دبانا ، قرآن شریف میں آپ کے اعضاء کا ذکر ہونا۔
دل فیض منزل
نَزَلَ بِہٖ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ عَلٰی قَلْبِکَ
اسے رُوحُ الامین لے کر اُترا، تمہارے دل پر۔ (پارہ19، الشعرائ:193)
زبان صدق ترجمان
فَاِنَّمَا یَسَّرْنَاہُ بِلِسَانِکَ
تو ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں یونہی آسان فرمایا۔ (پارہ16، مریم:97)
بصرِ انور
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰی
آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی۔ (پارہ27، النجم:17)
روئے شریف
قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَآئِ
ہم دیکھ رہے ہیں باربار تمہار ا آسمان کی طرف منہ کرنا۔ (پارہ02،
البقرہ:144)
دست و گریبان مبارک
وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ
اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ۔ (پارہ15، بنی اسرائیل:29)
سینہء سرور گنجینہ
اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ
کیا ہم نے تمہارے لئے سینہ کشادہ نہ کیا۔ (پارہ30،الشرح:01)
پشتِ اطہر
وَ وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْٓ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ
اور تم پر سے تمہارا وہ بوجھ اُتار لیا جس نے تمہاری پیٹھ توڑی تھی۔
(پارہ30، الشرح:02-03)
نامِ مبارک
یعنی’ احمد‘ و’ محمد‘ کا اللہ تعالیٰ کے نام ’’محمود‘‘ سے نکالا جانا اور
آپ سے قبل اس نام کے ساتھ کسی کا موسوم نہ ہونا۔
صومِ وصال (روزے سے روزہ ملانا بدوں افطارِ شب کے) میں پروردگار کا آپ کو
کھلانا پلانا، آگے پیچھے سے برابر دیکھنا، اندھیری رات میں دن کے مانند
دیکھنا، پتھر میں قدم شریف کا نقش بن جانا، آبِ دہن سے کھاری پانی کا شیریں
ہو جانا، بغلِ مبارک کا سفید برنگِ بدن ہونا اور آپ کی بغل کا خوشبو اور بے
بال ہونا ، آپ کی آواز کا وہاں تک جانا جہاں تک کسی کی آواز نہ جا سکتی
تھی، دور اور نزدیک سے برابر سننا، سوتے ہوئے باتوں کا سُن لینا، عمر بھر
جمائی کا نہ آنا، مکھی کا بدن مبارک اور کپڑوں پر نہ بیٹھنا، تمام عمر
احتلام کا نہ ہونا، آپ کے پسینے کا خوشبو ہونا، آپ کے سایہ کا زمین پر نہ
پڑنا، مچھر کا کبھی (آپ کا) خون مبارک نہ پینا، منقطع ہونا، کاہنوں کا آپ
کی پیدائش کے نزدیک اور بند ہونا ، شیطانوں کا آسمان پر جانے سے اور
شیطانوں پر ستاروں کا ٹوٹنا ، شبِ معراج میں بُراق پر سوار ہو کر مع ستر
ہزار (70,000) فرشتے کے مسجد حرام و مسجد اقصیٰ سے طبقاتِ سموات و عرشِ
معلّی تک جانا نبیوں اور فرشتوں کی امامت کرنا، بہشت و دوزخ پر مطلع ہونا
اور ایسے مقام تک پہنچنا، جہاں کوئی نہ پہنچا ہو اور آنکھوں سے پروردگار کو
دیکھنا ، دراز قدوں میں آپ کا قدِ مبارک سب سے اُونچا ہونا ، فرشتوں کا آپ
کے ساتھ چلنااور جنگِ بدر اور حُنین میں آپ کے ساتھ ہو کر کافروں سے لڑنا،
آپ کا اُمّی ہونا اور باوجود اُمّی ہونے کے مرتبہ ء اعلیٰ علم کو فائز
ہونا۔
نگارِ من کہ بمکتب نرفت و خط نہ نوشت
بغمزہ مسئلہ آموزِ صد مدرس شد
آپ کی کتاب میں تبدیل اور تحریف کا واقع نہ ہونا ، کلید خزائن کی آپ کو
سپرد ہونا، آپ کا تمام ِعالم پر مبعوث ہونا، غنیمت کا آپ کے واسطے حلال
ہونا، تمام روئے زمین پر نماز کا جائز ہونا ، مٹی سے طہارت کا حاصل ہونا،
سب پیغمبروں سے آپ کے معجزوں کا زیادہ ہونا، آپ کا خاتم الانبیاء ہونا، آپ
کی شریعت سے سب شریعتوں کا منسوخ ہوجانا، آپ کا رحمۃََاللعلمین ہونا، اللہ
تعالیٰ کا آپ کو لقب کے ساتھ پکارنا جیسے یٰایُّھَا النَّبِیُّ ،
یٰاَیُّھَاالرَّسُوْلُ بخلاف اور پیغمبروں کے کہ ان کو نام لے کر پکارا ہے
مثلاََ یَا نُوح ، یا ابراہیم۔اس بات کااُمت پر حرام ہونا کہ آپ کو نام لے
کر پکاریں بلکہ یارسول اللہ اور یا نبی اللہ کہیں اور بآواز بلند آپ کے
سامنے بولنے کی ممانعت ہونا اور حجرے کے باہر سے آپ کو پکارنے کی ممانعت
ہونا، اللہ تعالیٰ کا آپ کی عمر مبارک اور آپ کے مسکن کی قسم ارشاد فرمانا،
اسرافیل علیہ السلام کا آپ پر نازل ہونا، آپ کا اولادِ آدم پر سردار ہونا،
آپ کے اگلے پچھلے گناہوں کا بخشے جانا[٭] ، آپ کے ہمزاد کا مسلمان ہونا،
نسیان و خطا کا آپ کی طرف منسوب نہ ہونا، قبر میں میت سے آپ کے حال سے سوال
کیاجانا، آپ کے ساتھ قسم کا جائز ہونا، ازواج ِ مطہرات کا آپ کے بعد اوروں
پر حرام ہونا، بدنِ ازواجِ مطہرات پر نظر کا حرام ہونا اگرچہ کپڑے میں
مستور ہوں، دُختر کی اولاد کا آپ کی طرف منسوب ہونا، خواب میں آپ ﷺ کو
دیکھنا بمنزلہء بیداری کے دیکھنے کے ہے، آپ کے نام کے ساتھ نام رکھنادنیا و
آخرت میںمبارک و نافع ہونا، حدیث شریف پڑھتے وقت غسل و خوشبو کا مستحب
ہونا،صحابہ میں شمار ہونا اُس کا جس نے ایک لحظہ بھی بایمان آپ کی صحبت
پائی، جبریل علیہ السلام کا تین (3)روز تک آپ کی عیادت کو آنا، آپ کے جنازے
کی نماز گروہ گروہ کا بے امام ادا کرنا اور وفات شریف سے تین روز بعد آپ کا
دفن کیا جانا،آپ کے مال متروکہ میں وراثت کا نہ ہونا، آپ کا قبر شریف
میںزندہ ہونا اور نماز باذان و اقامت ادا کرنا ، قبر شریف پر صلوۃ و سلام
زائر پہنچانے کے واسطے فرشتے کا مقرر ہونا، اعمال اُمت کا آپ پر عرض کیا
جانا اور اُمت کے واسطے آپ کا استغفار کرنا، منبر و قبر شریف کے درمیان ایک
روضے کا ریاضِ جنت سے ہونا، سب سے پہلے آپ کا قبر شریف سے نکلنا اور سب سے
پہلے قیامت میں بے ہوشی سے افاقہ پانا، آپ کا مقام محمود پر فائز ہونا،
قیامت میں آپ کے ہاتھ میں لوائے حمد کا ہونا، حضرت آدم علیہ السلام اور ان
کی تمام ذریّت کا اس لِوا کے نیچے ہونا اور سب انبیاء کا اپنی امت سمیت آپ
کی پیروی کرنا اور سب سے پہلے دیدارِ خدا سے آپ کا مشرف ہونا اور سب سے
پہلے پلِ صراط پر جانا وہاں حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا آنا اور سب
خلائق کو آنکھیں بند کرنے کا حکم ہونا اور آپ کا بمرتبہ ء وسیلہ مشرف ہونا
، سب سے پہلے بہشت میں آپ کا داخل ہونا، حوضِ کوثر کا آپ کو عطا ہونا اور
جانب راست عرش کے آپ کا کرسی پر بیٹھنا، جو کچھ کہ دنیا میں ہے آپ پرمنکشف
ہونا، آدم علیہ السلام سے نفخہء اول تک اور بوقت قضائے حاجت کے زمین کا
پھٹنا اور بول و غائط کا اس میں غائب ہونا اور اُس مکان سے مشک کی بُو کا
آنا، آپ کے فضلات کا طاہر ہونا ، آپ کا دیدار بجائے دیدارِ خدا کے ہونا۔
مَنْ رَّاٰنِیْ فَقَدْ رَائَ الْحَقَّ [٭]
جس نے میری زیارت کی تحقیق اُس نے حق تعالیٰ کی زیارت کی۔
(بخاری:6481،6482،مسلم:4208)
آپ کانام اور آوازہء نبوت و شفاعت کے ساتھ دنیا و آخرت میں بلندہونا
وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ
اور ہم نے تمہارے لئے تمہارا ذکر بلند کر دیا۔ (پارہ30، الشرح: 04)
آپ کے نام نامی کا اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ کلمہ طیبہ و اذان و اقامت
میں مقرر ہونا۔
اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدََا
رَّسُوْلُ اللّٰہِ
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی
دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
آپ ﷺ کی فرماں برداری عین خدا کی فرماں برداری ہونا
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ
جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔ (پارہ05،
النسائ:80)
آپ کی تابع داری سے خدا کی محبت کا لازم ہونا
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ
اللّٰہُ
اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرماں بردار
ہو جاؤ۔ (پارہ03، ال عمران:31)
آپ کی بیعت کا عین خدا کی بیعت ہونا
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ
وہ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں۔ (پارہ 26،
الفتح: 10)
اور انواع مراتب ولایت سے مخصوص ہونا اور مقام محبوبیت کے ساتھ مخصوص ہونا
اور درجہء اصطفیٰ سے مشرف ہونا اور شفاعت ِ عظمیٰ کے ساتھ ممتاز ہونا اور
جہاد کا حکم آپ کو عطا ہونا اور منصب قضا کا پانا، علم احتساب اور قراء ت
کا آپ کے ساتھ مخصوص ہونا اور آپ کی ذات سِتُودہ صفات میں مکارِم اخلاق کا
جمع ہونا
اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ
بے شک تمہاری خُوبُو بڑی شان کی ہے۔ (پارہ29، القلم:04)
حاصل کلام:
حق تو یہ ہے کہ آپ ﷺکے اوصاف اور فضائل کا کوئی فردِ بشر حصر نہیں کر
سکتااور نہ کسی کے فہم ودانش میں اس قدر وسعت ہے کہ اس کو سمجھ سکے۔
وصفِ خُلقِ کسی کہ قرآں ست
خلق را وصفِ او چہ امکاں ست
محبان با صفا کو صرف اسی قدر کافی ہے۔
ع بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ عَلیٰ قَدْرِ حُسْنِہٖ وَ جَمَالِہٖ
٭٭٭٭٭
فصل تیسری
فضائل مخصوصہ اُمت مرحومہ کے بیان میں
اس امت مرحومہ کی فضیلتیں بہت ہیں اور یہ فضیلتیں بھی آپ ﷺ کی ذات بابرکات
کی طرف راجع ہیں کہ ایسی امت اور ایسے تابع دار آپ ﷺ نے پائے ۔
سب سے بڑی فضیلت اس امت کے واسطے یہ ہے کہ ایسے پیغمبر کامل الصفات کے پیرو
ہیں جس کے واسطے آدم علیہ السلام اور اٹھارہ ہزار ( 18,000) عالم پیدا ہوا
بلکہ انہیں کے واسطے اللہ تعالیٰ نے اپنی رُبُوبیت کو ظاہر کیا ، جس طرح
حضور ﷺ خاتم الانبیاء اور جامع کمالاتِ تمامی انبیاء ہیں اسی طرح آپ ﷺ کی
امت بھی’’ خاتم الاُمم‘‘ اور’’اکمال دین‘‘ و’’ اتمامِ نعمت ‘‘کے ساتھ مخصوص
ہیں۔
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ
نِعْمَتِیْ
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری
کردی۔(پارہ06،المائدہ:03)
جس طرح آنحضرت ﷺ کی بشارت کتب سابقہ میں مصرح ہے اسی طرح اس امت کی صفات
بھی کتب سابقہ میں مذکور ہیں اس امت کی شان میں حق تعالیٰ فرماتا ہے
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ
تم بہتر ہو اُن سب اُمتوں میں (جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں)۔(پارہ 04، ال
عمران:110)
اور کسی نبی کی امت کو ایسا خطاب نہیں فرمایا۔
اس امت کے لوگوں کے ہاتھ پاؤں منہ وضو کے سبب قیامت سے روشن ہوں گے اس امت
پر اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت کی نماز فرض کی اور امتوں پر صرف چار نماز
سوائے عشا کے فرض تھیں۔
اذان و اقامت و بسم اللہ و آمین و رکوعِ نماز و جماعت و تحیہ و سلام و جمعہ
و ساعتِ مقبولہء جمعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو سرفراز کیا ، جب پہلی
رات رمضان کی آتی ہے اللہ تعالیٰ اس امت کی طرف بنظرِ عنایت دیکھتا ہے اور
جس کی طرف اللہ تعالیٰ بنظر عنایت دیکھتا ہے اس کو عذاب نہیں کرتا، رمضان
میں سحری کا مستحب ہونا اور افطار میں جلدی کرنا اور رات کو جماع کا مباح
ہونا اسی امت کے ساتھ خاص ہے ، شب قدر کا ہازر مہینے سے بہتر ہونا اسی امت
کے واسطے ہے، مصیبت کے وقت اِنَا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ
رَاجِعُوْنَکہنا، اللہ تعالیٰ نے اسی امت کو سکھایا ہے۔
اس امت سے تکلیفات کا اُٹھنا جیسا کہ اور امتوں میں تھا مثلََا مقام نجاست
کا کاٹنا او رقتل کے بعد توبہ کا قبول ہونا ، اللہ تعالیٰ نے اس امت پر
آسان کیا وہ بات کہ اوروں پر دُشوار تھی مثلََا کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکے
تو بیٹھ کر پڑھے اور سفر میں روزے کو افطار کرنا اور نماز میں قصر کرنا،
اللہ تعالیٰ اس اُمت کی بُھول چوک پر اور اس بات پر جو بخوف جان کے ہو اور
وسوسے پر مواخذہ نہیں فرماتا۔
اس امت کی شریعت سب شریعتوں سے اکمل ہے ، اس امت کے لوگ گمراہی پر اجتماع
نہیں کرتے پس اجماع ان کا کسی قول و فعل پر حجت ہے اور اختلاف ان کا رحمت ،
اس امت کے واسطے طاعون شہادت ہے یعنی جو شخص اس امت کا مرض طاعون میں مرتا
ہے اس کو شہید کا اجر ملتا ہے بخلاف اور امتوں کے کہ ان کے واسطے مرض طاعون
عذاب تھا۔
اس اُمت کے دو شخص جس کی بھلائی کی گواہی دیتے ہیں اس پر جنت واجب ہو تی ہے
بخلاف اور امتوں کے کہ جب تک سو (100)آدمی کسی کی بھلائی کے قائل نہ ہوں وہ
جنتی نہیں ہوتا تھا۔
ا س امت کو اللہ تعالیٰ نے (علم)اسناد عطا کیا جس سے سلسلہء احادیث ِ نبوی
کا باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گا کسی امت کو یہ فضیلت نہیں ملی کہ اپنے
نبی کے اخبار و آثار کا سلسلہ نبی تک پہنچا سکے۔
اللہ تعالیٰ نے اس امت کو تصنیف کتب و تدوین مسائل دینیہ پر توفیق دی ہے اس
امت پر جناب رسالت مآب ﷺ کا رؤف و رحیم ہونا ، اس امت میں اقطاب و اوتاد و
نجباء و ابدال پیدا ہوتے ہیں۔
اس امت کے لوگ عرصاتِ قیامت میں بلند مکان پر کھڑے کئے جائیں گے، اس امت کے
نامہء اعمال قیامت کے دن داہنے ہاتھ میں دیے جائیں گے ، اس امت کے لوگوں کے
ایمان کا نور ان کے آگے دوڑے گا ، اس امت کے لوگوں کو اپنے کارِخیر کا ثواب
اور دوسرے شخص کے کارِ خیر کا ثواب جو اس کے واسطے کرتا ہے ملے گا ، اس امت
کے لوگ سب امتوں سے پہلے بہشت میں داخل ہوں گے ، اس امت سے ستر
ہزار(70,000) آدمی بے حساب بہشت میں جائیں گے اور ہر ایک کے ساتھ ستر ستر
ہزار آدمی ہوں گے، اس امت کے لوگ باوجود گناہوں کی کثرت کے مستحق بہشت ہیں
۔
اس امت کے لوگ گناہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا گناہ پوشیدہ رکھتا ہے ،
اس امت کے لوگ اگر اپنے قصور پر دل میں پشیماں ہوتے ہیں وہ بھی توبہ کرنے
کے برابر ہے اس امت کے گناہ گاروں پر اللہ تعالیٰ دنیا میں عذاب نہیں کرتا
۔
حق تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بطفیل اپنے حبیب کے اس امت کو وہ فضائل و
کمالات عطا کیے ہیں کہ کسی امت کو ان فضائل سے سرفراز نہیں کیا۔
چوں خدا پیغمبرِ ما را برحمت خواندہ است
خاتمِ پیغمبرانِ او گشت و ما خیر الامم
اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ عَلیٰ قَدْرِ حُسْنِہٖ وَ جَمَالِہٖ
وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ فِی الْبِدَایَۃِ وَالنِّہَایَۃِ
٭٭٭٭٭ |