بدلتے چہرے، بدلتے لوگ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لڑکی بینائی سے محروم تھی -بینائی سے محرومی کا اس پر اتنا اثر ہوا کہ وہ ہر ایک سے نفرت کرنے لگی -یہاں تک کہ وہ اپنے آپ سے بھی نفرت کرنے لگی لیکن وہ ایک لڑکے کو چاہتی تھی جو اس کو اب بھی عزیز تھا وہ لڑکا بھی اس کی خدمت کے لیے ہر وقت حاضر رہتا تھا اور اس کا پورا خیال رکھتا تھا-ایک دن لڑکی نے کہا کہ کاش میری بینائی ہوتی تو میں تمہیں صرف تمہیں دیکھ سکتی اور دیکھتی رہتی-اچانک ایک دن اس لڑکی کو کسی نے آنکھوں کا عطیہ دیا، جب اس لڑکی کی آنکھوں کی پٹیاں اتاری گئیں تو اس کے سامنے دنیا روشن تھی اور اس کی خدمت کرنے والا اور ہر وقت اس کے آگے پیچھے رہنا والا لڑکا بھی موجود تھا مگر اب اس کی بینائی باقی نہ رہی تھی، لڑکی کی جب آنکھیں روشن ہوئیں اور وہ پوری طرح دنیا کو دیکھ سکتی تھی اس لڑکے نے کہا اب تم پوری دنیا دیکھ سکتی ہو کیا تم مجھ سے شادی کروگی۔ بینائی پانے والی لڑکی نے ایک نظر اپنے دوست خدمتگار پر ڈالی اور دیکھا کہ لڑکے کی آنکھیں نہیں ہیں اس لڑکی کو اس بند آنکھوں کی جلد نے حیرانگی سے دوچار کیا، پوری زندگی اس کے ساتھ گزارنےکا سوچ کر اس لڑکی نے شادی انکار کردیا۔اس لڑکے کی آنکھ سے آنسو جاری ہوگئے، اس نے چند دنوں بعد ایک خط چھوڑا کہ آج جن آنکھوں سے تم اس دنیا کو دیکھ رہی ہو وہ آنکھیں میری ہیں اور میں نے یہ آنکھیں تمہیں دی تھیں لیکن تم نے میری آنکھوں سے مجھے ہی پہچاننے سے انکار کردیا۔

یہ تو ایک کہانی ہے لیکن دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ انسانی دماغ اپنی حیثیت بدلنے کے بعد مختلف انداز میں تبدیل ہونے لگتا ہے چند افراد ہی ماضی کی طرح سوچتے ہیں اور تکلیف دہ حالات میں بھی ہمیشہ ساتھ دیتے ہیں-تاریخ گواہ ہے کہ پوری دنیا کے ممالک سے لیکر شخصیتوں اور انفرادی لوگوں کی تباہی و بربادی کی وجہ منصب اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد ماضی کو فراموش کردینا ہے۔ آج وطن عزیز کی صورتحال بھی اس بینائی سے محروم لڑکے سے زیادہ مختلف نہیں کہ اس نے اپنا سب کچھ نچھاور کیا مگر اس کا اپنا دامن کانٹوں سے بھر گیا- پیارے وطن میں بھی جب سیاستدان جب اقتدار میں آتے ہیں تو اس بےوفا لڑکی کی مانند رخ بدل دیتے ہیں جیسے ان کا عوام سے کبھی کوئی تعلق رہا ہوگا، اقتدار کے نشے میں چور افراد کو نہ جانے کیا ہوجاتا ہے کہ اقتدار ملنے کے ساتھ ہی بیگانے بیگانے سے لگتے ہیں ایک ایک ووٹ کے لیے گھر گھر، گلی گلی کوچے کوچے جانے والے مطلب نکلنے کے بعد عوام سے ایسا سلوک روا رکھتے ہیں جیسے کبھی انکا عوام سے کوئی واسطہ ہی نہ تھا۔ غریب عوام سوچ سوچ کر ہی خود کشی پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ان کے ساتھ بھی کبھی کسی نے مسیحائی کا وعدہ کیا تھا- موجودہ صورتحال کو ہی لیجئے کل تک کلمہ حق کا ورد پڑھنے والوں کو نہ جانے کیا ہوا کہ اقتدار میں آنے کے بعد ایسے بدلے کہ واپس پلٹنے کا نام ہی نہیں لے رہے، وہ شاید اس بات کو بھول رہے ہیں کہ موجودہ جاہ و جلال، شان وشوکت اسلام آباد کے زرق برق عمارتیں اور محل سب عارضی اور مختصر ہیں اور ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ ان سے یہ سب چھن جائےگا- سکندر جب دنیا سے گیا تھا تو دونو ہاتھ خالی تھے لیکن یہاں تو ہمارے حکمران وہاں کے لیے بھی بھرے ہاتھ لیکر جانا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے جو راستہ انہوں اختیار کیا ہے وہ شاید ہی انہیں کہیں کا چھوڑےگا- یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ جناب صدر زرداری صاحب نے زندگی کا خاصہ حصہ جیل میں گزرا کئی عشروں وہ پیپلز پارٹی سےوابستہ ہیں ان کے والد حاکم علی زرداری بھی پٹھان برادری کی عوامی نیشنل پارٹی سے صوبائی صدر رہنے کے بعد ذاولفقار علی بھٹو کے ساتھ پی پی پی میں رہے اور بمبینو سینما میں ایک ساتھ محفل سجائی گئیں لیکن آخر میں وہی ہوا کہ جہاں عظیم رہنما بھٹو کو پھانسی چڑھائے جانے کے بعد خالقِ حقیقی سے جا ملے جو آخری ٹھکانہ ہوتا ہے۔ وہیں حاکم علی زرداری بھی اپنے بیٹے کے صدر بننے کی خوشیاں زیادہ عرصے تک نہیں منا سکے اور اس وقت وہ علاج کے لیے لندن میں ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ آخر ہمارے سیاستدان سمجھتے کیوں نہیں کہ یہ سلسلہ ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا ہے۔اور تبدیلی نے آکر رہنا ہے تو پھر کیوں اس بےوفا کی طرح خود کو بدلیں جو آنکھیں ملنے کے بعد دنیا کو ہی بھول گئی۔ سوچنے کی بات ہے کہ نہ جانے صدر زاردای صاحب کو کیا ہوگیا کہ اقتدار ملنے کے بعد وعدوں اعادوں سمیت اس لڑکی کی طرح سب کچھ بھلا بیٹھے، حقیقت تو یہ ہے کہ صدر زرداری کو بے نظیر شہید نے اپنی جان دیکر بینائی کیا دی کہ وہ ان کہنا ہی بھول گئے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ہی درحقیقت اصلی چیف جسٹس ہیں ان کے گھر پاکستان کا پرچم لہراؤں گی۔ زرداری صاحب انکی پیپلز پارٹی کے موجودہ سرکردہ رہنما بابر اعوان، لطیف کھوسہ، فاروق نائیک اور سابق سیننٹر رضا ربانی صاحب کو دیکھ لیجئے پریس کانفرنسز میں زورو شور سے کہا کرتے تھے کہ پرویز مشرف کا احتساب ہو، چیف جسٹس بحال ہو،مگر یہ کیا؟ عہدے ملنے کے بعد وہ ایسے تبدیل ہوگئے جیسے لطیف کھوسہ نے کبھی چیف جسٹس کی گاڑی نہیں چلائی تھی اور نہ ہی وکلاء تحریک میں پہلا زخم ان کے ماتھے پر لگا، اقتدار ملنے کے بعد ان قابل قدر صاحبان کی بے رخی نے یقیناً عوام کے دل و ذہن میں اگر زہر نہیں بھرا تو دکھ ضرور دیا ہے۔ یقیناً ہماری ویب شخصیات کے حوالے سے سخت اصولوں پر کاربند ہو کہ انہیں نہ چھیڑا جائے لیکن ملک کے شہری اور ووٹر ہونے کی وجہ سے ملک کے باسیوں کا حق بنتا ہے کہ اپنے حکمرانوں سے پوچھیں کہ انہیں آخر کس چیز نے مجبور کردیا کہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی صاحب کہنے لگے کہ ڈرونز حملے بند ہونگے لیکن یہ تبدیلی بھی اوباما انتظامیہ لائے گی- ارے ذرا سوچئے تو صحیح کہ نناوے دہشت گرد قبائلی علاقوں میں نہیں تھے تو اچانک کہاں سے لائے گئے۔خیر ہمارا موضوع یقیناً ڈرونز حملے نہیں لیکن اس سے صرف نظر بھی نہیں کیا جاسکتا-ہماری ویب سائٹ کے اس پلیٹ فارم سے میں یہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ وطن عزیز کے حکمران عوام کے ووٹوں کا احترام کریں اور اپنی روش بدلیں تا کہ نہ صرف رہتی دنیا تک نام رہے بلکہ عوام کے دلوںمیں بھی بس سکیں٠یقیناً قتیل شفائی کا شعر یہا ضرور تحریر کرنا چاہوں گا ورنہ شائد تحریر پوری نہ ہو۔ع جنکو پینے کا سلیقہ تھا پیاسے رہے قتیل-ہر دور میں کم ظرف ہی مئے خوار ہوئے۔

ایک اور ضروری بات جو کہنا چاہوں گا کہ ہماری ویب سائٹ یقیناًَ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس سے لکھاریوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ اس سے مختلف سوچ رکھنے والوں کی آراء بھی سامنے آتی ہے جو لوگوں کو اپنی سمت متعین کرنے کے لیے مشعل راہ بن سکتی ہے۔
Muhammad Abdul Azeem
About the Author: Muhammad Abdul Azeem Read More Articles by Muhammad Abdul Azeem: 12 Articles with 13138 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.