صحافت` چوتھا ستون اور تجارت

صحافی ریاست کا چوتھا اہم ستون ہے اور اس کے بغیر ریاست چل نہیں سکتی یہ بھاشن گذشتہ بارہ سال سے میں صحافت کرتے ہوئے سن رہا ہوں لیکن آج کل اسکا تکرار کچھ زیادہ ہی کیا جارہا ہے کسی زمانے میں صرف اپوزیشن رہنمائوں سے اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں لیکن جب سے الیکٹرانک میڈیانے شہریوں کوان کے مسائل کسی حد تک دکھانے شروع کردئیے ہیں اور اب عام شہری کو ان کے حقوق بھی کس حدتک بتائے جارہے ہیں اس صورتحال نے حکمرانوں کو بھی میڈیا کی جانب متوجہ کردیا ہے اور اب حکمران طبقے کو صحافی معاشرے کا اہم ستون نظر آنے لگے ہیں جس کا اظہار اب وہ مختلف فورمز پر کرنے لگے ہیں اور جب اس طرح کی بات بھرے محفل میں حکمران کرنے لگے تو کوریج کیلئے آنیوالے صحافی اپنے آپ کو کچھ الگ ہی چیز سمجھنے لگتے ہیں اور ان میں اکثر کی گردنیں اکڑجاتی ہیں-محفلوں میں سب سے آگے بیٹھ کر رپورٹنگ کرنے والے ان صحافیوں کی حقیقت کیا ہے اس کا اندازہ عام لوگوں کو تو نہیں لیکن یہ سچ ہے کہ بہت سارے صحافیوں کی مالی حالت اتنی ہوتی ہے کہ وہ ٹیکسی کا کرایہ تک ادا نہیں کرسکتے -

نائن الیون کے واقعے نے جہاں پاکستان کو کئی مسائل سے دوچار کردیا وہاں پر صحافی پر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے لگے ہیں 2001 سے 2011 ء تک 23 کے قریب صحافی مختلف دھماکوں ` خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں خیبر پختونخوا اور فاٹا کے علاقے میں اپنی جانب سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں - میں خود بحیثیت صحافی دو مرتبہ ٹارگٹ فائرنگ کی زد میں آکر بچا ایک مرتبہ پشاور میں ایک کے بعد دوسرے ہونیوالے دھماکے میں اللہ تعالٰی نے بچایا ایک مرتبہ خودکش حملے اور ایک مرتبہ ہنگو میں کوریج کے دوران دوسرے فرقے کے لوگوں نے پکڑ لیا لیکن اللہ تعالٰی نے جان بچالی ان پانچ واقعات کے بعد بھی ہر روز ایک نیا تجربہ مجھے سیکھنے کو ملتا ہے -کئی مرتبہ رپورٹنگ کے دوران ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ بھی سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے جاری رہا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ابھی تک کسی کے ڈرانے دھمکانے میں نہیں آیا یہ الگ بات ہے کہ میرے جیب میں پیسے نہیں ہوتے لیکن میرے پاس بحیثیت صحافی ایک اکڑ ہے اور یہ اکڑ قلم کی وجہ سے ہے جو میں کوشش کرنے کے باوجود ختم نہیں کرسکا ہوں-

صحافیوں کے مختلف واقعات میں ہلاک ہونے کے واقعات میں اضافے کے ساتھ ساتھ انہیں ڈرانے دھمکانے اور تشدد کے واقعات میں اضافے کے باوجودصحافیوں کی اکڑ ختم نہیں ہوتی اوروہ اپنے صحافتی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں - غیر سماجی ادارے جو اس سے قبل عام لوگوں خواتین اور بچوں کے حقوق اور ترقیاتی کاموں کیلئے ڈونرز سے فنڈز لیتے تھے اب انہوں نے اکڑ کے مارے ان صحافیوں کو ٹارگٹ کرلیا ہے اور اب انہی کے نام پر سروے کرنے کے بعد پروپوزل بنائے جاتے ہیں اور پھر استعداد کار بہتر بنانے کے نام پر صحافیوں کی تربیت کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے یہ الگ بات کہ صحافیوں کی تربیت بہت کم ہورہی ہیں لیکن ان غیر سماجی اداروں کے فنڈز میں اضافہ ہورہا ہے اور کوئی ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں کیونکہ " ریاست کے اہم چوتھے ستون کو بھی کرپٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں -اور اس عمل میں ہمارے چند صحافی بھی ان این جی اوز کے ساتھی بنے ہوئے ہیں -

گذشتہ روز اسلام آباد میں کام کرنے والی ایک این جی او کے نمائندے نے مجھے فون کیا اور کہا کہ اگر آپ کے پاس وقت ہے تو میں نے سروے کرنا ہے آپ سے فون پر سوالات کرنے ہیں میں چونکہ اسے جانتا تھا اس لئے اس نے مختلف سوالات کئے یہ عمل تقریبا ایک گھنٹے تک جاری رہا اور فون کے ذریعے اس نے سروے فارم مجھ سے بھروا لیا جب اس کا کام ہوگیا تو میں نے پوچھ لیا کہ یہ سروے جو تم کررہے ہیں کس لیول کاہے اور اس میں کتنے صحافیوں کے انٹرویوز لئے جائینگے اس نے جواب دیا کہ یہ پاکستان سطح پر ہے اور بیس صحافیوں سے سوالات کرنے ہیں جس میں چار مختلف صوبوں سے ہیں جبکہ چار اسلام آباد کے صحافیوں کے انٹرویوز کرنے ہیں اور وہ بھی فون پر - میں نے سوال کیا کہ کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے کہ فون پر تم لوگ سروے کررہے ہیں اور پھر اس پر تم پروپزل بنا کر بھیج دو گے تو متعلقہ شخص نے جواب دیا کہ مجھے پتہ ہے کہ سروے اس طرح نہیں ہوتے لیکن چونکہ این جی او کی چیف ایگزیکٹو نے مجھے آرڈر دیا ہے اس لئے میں یہ سروے کررہا ہوں میں اپنی ڈیوٹی پوری کررہا ہوں -

یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں اس طرح کے واقعات مسلسل رونما ہورہے ہیں اور مختلف شعبوں میں کام کرنے والے ادارے صحافیوں کی ٹریننگ /سیکورٹی کے نام پر کروڑوں روپے لیکر ڈکار چکے ہیں لیکن چونکہ ہمارے اپنے ہی کچھ صحافی ان کے ساتھ ملکر کام کررہے ہیں اور یہ صحافی چونکہ اچھی جگہوں پر ہیں اس لئے ہمارے جیسے ٹٹ پونجئے قسم کے صحافی ان سے سوال پوچھنے کی ہمت نہیں کرتے کہ ٹریننگ کس مد میں کی گئی کتنا فنڈز صحافیوں کے نام پر لایا گیا اور کتنے صحافیوں کے استعداد کار کو بہتر کیا گیااور کیا جن صحافیوں نے تربیت لی ان میں سفارشی لوگ کتنے تھے اور کونسے ان میں جینوئن صحافی تھے -دو ماہ قبل ایک امریکی ادارے کی جانب سے کمپیوٹر / ویب /سیکورٹی کے نام پر صحافیوں کیلئے ایک ٹریننگ کروائی گئی مجھے پتہ نہیں تھا لیکن میں ایک غلطی سے وہاں پراس ٹریننگ میں چلا گیا وہاں پر جا کر پتہ چلا کہ جو لوگ اس میں ٹریننگ حاصل کررہے ہیں ان میں بیس افراد میں سے دس افراد کو کمپیوٹر کو آن آف کرنا بھی نہیں آتا تھا لیکن چونکہ یہ لوگ کچھ مخصوص صحافیوں کے دوست / تعلق دار تھے اسی بناء پر انہیں ٹریننگ میں موقع دیا گیا تھا اس میں غلطی نہ صرف این جی او کی تھی بلکہ ہمارے اپنے صحافی برادری کی بھی تھی جنہوں نے اپنے پسند ناپسند کے لوگ وہاں بھجوائے تھے - گذشتہ دنوں کورٹس کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کیلئے ایک ٹریننگ کا اہتمام کیا گیا اور اس میں ایسی صحافی بھی دیکھنے کو ملے جنہیں میں نے کبھی غلطی سے بھی کورٹس کی رپورٹنگ کرتے ہوئے نہیں دیکھا لیکن وہ بھی تربیت مکمل کرنے کا سرٹیفیکیٹ لے گئے -

سب سے مزے کی بات جو مختلف صحافیوں کی استعداد کار کو بڑھانے کیلئے تربیتی ورکشاپ / سیمینار میں دیکھنے کو مل رہی ہیں سیکورٹی کی ٹریننگ دینے والے بھی مخصوص لوگ ہیں تحقیقاتی رپورٹنگ کرنے والے بھی مخصوص لوگ ہیں اور آزادانہ غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کی بھاشن دینے والے بھی این جی اوز کے مخصوص لوگ ہیں جو صحافیوں کی ایک حد تک استعداد کار کو تو بڑھا رہے ہیں لیکن اپنی مالی حالت بھی انہی فنڈز کے ذریعے بہت حد تک بہتر بنا گئے ہیں اور بنا رہے ہیں- سب سے زیادہ فائدہ اس صورتحال سے حکومت اٹھا رہی ہیں جن کے مختلف اداروں کے ملازمین صحافیوں کی تربیتی مہم میں تربیت لیتے ہیں حالانکہ نہ تو انہیں صحافت کا کوئی تجربہ ہے اور نہ ہی انہیں صحافت سے کوئی دور کا تعلق ہے لیکن چونکہ این جی اوز سرکار کو خوش کرنا چاہتے ہیں ہیں اس لئے صحافیوں کے ناموں پر سرکاری لوگ تربیت لے رہیں اور صحافی خاموش ہیں کیونکہ چند لوگوں کو فائدہ ہے لیکن پوری صحافی برادری بدنام ہورہی ہیں -
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498135 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More