محترم قارئین کرام :یاد رکھیے کہ
یہ جاہ وحشمت نہ ہی جاہ و جلال کام آئے گا، نہ کرسی کام آئے گی، نہ وزارت،
نہ صدارت کچھ بھی کام نہ آئے گا۔فقط اپنے اعمال کام آئیں گئے۔ ایک روایت
میں آتا ہے:۔۔۔۔'' کہ کسی مومن کو خوش کرنا ساٹھ سال کی عبادت سے بھی افضل
ہے''۔۔۔۔۔۔
حضرت امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ العالی نے بشرحافی رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کا قول'' کیمیائے سعادت ''میں نقل کیا:۔۔۔۔۔'' کہ کسی مومن کا دل خوش
کردینا سو نفلی حج کرنے سے افضل ہے''۔۔۔۔۔ مومن کا دل خوش کرنا یہ بہت بڑا
ثواب ہے اور جہاں کسی مومن کا دل خوش کرنا اتنا بڑا ثواب ہے اسی کے برعکس
کسی مومن کا دل دکھانا یہ اتنا ہی سخت گنا ہ ہے نماز جیسی افضل عبادت کوئی
نہیں تو نماز کو چھوڑ دینا اس سے بڑا گناہ کوئی نہیں تو جس کا ثواب زیاد اس
کے مخالفت میں گناہ بھی اتنا ہی ہونا چاہیے تو دل خوش کرنے میں ثواب بہت تو
اسی طرح کسی کا دل دکھانے میں گناہ بھی ایسا ہی بہت سخت ہے تو کسی مسلمان
کی دل آزاری یعنی :دل دکھانا یہ کہا جاتاہے کہ کفر کے بعد سب سے بڑا گناہ
ہے۔۔۔۔۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے'' کیمیائے سعادت ''میں حدیث نقل کی
ہے :۔۔۔۔ کہ کعبے کی اینٹ سے اینٹ بجادینا یعنی کعبہ کو توڑ پھوڑ دینا۔۔۔۔۔کوئی
مسلمان ایسا نہیں کرسکتا یہ سمجھانے کے لیے حدیث شریف ہے۔۔۔۔۔ کہ کعبے کو
توڑ پھوڑ دینا اس سے بھی زیادہ کسی مومن کا دل دکھانا ہے مومن کا دل اس سے
زیادہ قیمتی ہے اس کی اہمیت ہے اور آج مسلمان کا دل راضی کرنا یہ تو ہم نے
سیکھا ہی نہیں، سوال ہی نہیں کہ ہم بھی کسی کو راضی کردیں، ہاں! دل دکھانے
کی بات ہے تو کوئی بات نہیں،ماں ، باپ ، بہن ،بھائی کا دل دکھائیں گے،آنے
جانے والے سب کا دل دکھائیں گے کوئی بیچارہ گٹھڑی پوش جارہا ہے اس کوشس شس
کریں گے اس پر کنکرماریں گئے اس کا دل دکھانا تو یہ ہمارا میٹر ہے باقی دل
خوش کرنا یہ ہمارے مقدر میں نہیں اگر واقعی ہم اس بات کو ہی سمجھ لیں بس ہم
یہ طے کرلیں کہ ہمیں کسی کا دل نہیں دکھانا ہے ہم سے ہوسکا تودل خوش کریں
گے نہیں ہوسکا تو دل نہیں دکھائیں گے اگر یہ طے کرلیں تو پورا معاشرہ صحیح
ہوجائے آج کل یہ ہماری بدنصیبی ہے دیکھیں خاص کر آپ کا لیاقت آباداس معاملے
میں تو زیادہ مظلوم ہے یہاں آئے دن ہنگامے ہوتے ہیں اب ہو کیا رہا ہے
مسلمان ہی تو لڑ رہے ہیں گورے کو کالے پر، عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں لیکن
اب ہمارے یہاں تماشہ بنا ہوا ہے ہم کتنا کسی کا دل دکھارہے ہیں توبہ توبہ،
اب یہ دو فریق لڑرہے ہیں ایک نے کوئی تحریک چلادی اور دوسرا بھی کوئی ہے اس
سے لڑائی ہورہی ہے اب اس میں پستی تو عوام ہے اب جو باہر سے لڑنے آیا ہے وہ
کسی تحریک سے وابستہ ہے تو اس کی دکان تو اس محلے میں نہیں وہ تو ہتھیار ،
اسلحہ لے کر باہر سے لڑنے آیا ہے آپ کی دکان ہے تو آپ کی دکان نشانہ بن گئی
یہ پتھراؤ ہورہا ہے آپ کا قصور ہے کہ مہاجر ہیں آپ کا قصور ہے آپ پٹھان ہےں
یہ دکانیں، مکان جل رہے ہیں، بندے جلائے جارہے ہیں، عقل کام نہیں کرتی کہ
مسلمان بھی ایسا کرسکتا ہے۔
اور آج جذبہ ایمان ختم ہوگیا ورنہ مسلمان تو ترستا تھا کہ جنگ ہواور جامِ
شہادت نوش کریں پہلے مسلمان تڑپتے تھے اُحد شریف کے دامن میں کفر و اسلام
کا عظیم معرکہ ہوا آپ سب کو معلوم ہے جو اُحد شریف کے دامن میں معرکہ ہوا
وہ آخری رات جس کی صبح میدان کارزار میں عشق و محبت کا امتحان تھا وہ رات
سرکار کے دیوانوں نے بڑی بے چینی اور اضطراب میں کاٹی ہر ایک بے قرار تھا
کہ کب پو پھٹے کب صبح ہو، کب جنگ کا سلسلہ شروع ہو بس دو ہی قدم پر جنت ہے
میدان میں جاؤ گردن پر تلوار آئی سیدھے جنت میںنکلے تو یہ بڑے جذبے کے ساتھ
سلسلہ ہورہا تھا۔۔۔۔۔عمر وبن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے وہ بے چارے
ایک پاؤں سے معذور بھی تھے ایک پاؤں سے لنگڑے تھے وہ بھی کہہ رہے تھے صبح
میں بھی جاؤں گا کیا دو ٹانگوںو الے ہی شہید ہوکر جنت میں جائیں گے کیا میں
جام شہادت نہیں پی سکتا؟ معذور ہوں تو کیا ہوا میں اگر کسی کو مار نہیں
سکتا تو کیا ہوا مر تو سکتا ہوں میں بھی جامِ شہادت صبح پیوؤں گا اب لوگوں
نے سمجھابجھاکر بولا بھائی! تیراکام نہیں تو لنگڑا ہے تو لڑ نہیں سکتا نہ
تجھ پر جہاد فرض ہے آج ہم بھئی! سنت ہے ادا کرو تو ثواب ہے نہ کرو تو کوئی
گناہ نہیں، مؤکدہ ہے صاحب غیر موکدہ ہے یعنی ہم تویہ بھاؤ طلب کرتے ہیں
جیسے کہ داڑھی رکھنا اب سنت ہے ٹھیک ہے رکھو تو سنت ہے ثواب ہے نہ رکھو تو
گناہ نہیں، یہ تو عام آدمی فتویٰ دیتا ہے حالانکہ ایسا نہیں داڑھی منڈھانا
حرام ہے د اڑھی رکھنا واجب ہے ایسی سنت جس پرتاکید ہے ۔
عمرو بن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سمجھا بجھاکر لوگوں نے بھیج دیا کہ
بھئی! تجھ پر جہاد فرض نہیں ہے؟ تو کیا لڑکے کرے گا یہ افسردہ، افسردہ اپنے
گھر پر پہنچے، گھر پر دستک دی، کون؟ عمرو! بیوی نے اندر سے کہا :کہ میدانِ
جنگ سے بھاگ کر آنے ولوں پر یہ درواز ہ بند ہے پہلے ہی چوٹ کھاچکے تھے
پھرچوٹ پر چوٹ آئی اور آج اگر وہ اجازت مانگے تو بیوی قدموں سے لپٹ جائے
میرا کیا ہوگا؟ مجھے چھوڑ کر کہاں جارہے ہو کوئی نہیں جانے دے گا؟ س نے
دروازہ ہی بند کردیا کہ میدان جنگ سے بھاگ کر آنے والوں کے لیے میرے پاس
کوئی پناہ نہیں ہے۔یہ گھر اس کے لیے بند ہے اب چوٹ پر چوٹ کھائی تو بے قرار
ہوگئے گھر کی طرف سے منہ پھر لیا، پیٹھ کرلی اور دعا کی''عربی دعا''اللّٰھم
لا تعد نی الی اھلی ''اے اللہ: اب مجھے میرے اہل یعنی میرے گھر والوں میں
اب مجھے واپس مت لانا''چلے، تلوار پکڑلی، صبح ایک پاؤں پر ہی میدانِ جنگ
میں کود پڑے، اب یہ بیچارے کیا لڑتے، ایک ٹانگ والاکیا لڑے گا وہ آناً فاناً
تلوار اور تیر کی بوچھاڑ ادھر ہی ڈھیڑ ، شہید ہوگئے جب جنگ فتح ہوئی
تومسلمان بھی کافی شہید ہوئے تھے، جنگ ِ اُحد کا واقعہ بڑا طویل ہے بہرحال
سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جو کچھ ان کو ڈیوٹیاں دی تھیں اس
پر کوتاہی کرگئے تھے اس پر یہ نقصان ہوا تھا کہ اس میں میرے آقاکے دندانے
مبارک بھی شہید ہوئے تھے تو اب مسلمانوں کی لاشیں اکٹھی ہورہی ہیں، عمرو بن
جموح رضی اللہ رتعالیٰ عنہ کی لاش لینے کے لیے ان کی زوجہ بھی اب میدان میں
آئی ہے اسے پتا تھا کہ میرا شوہر ایک پاؤں سے معذور ہے اس نے کیا بچنا ہے ۔وہ
کون سا غازی بن کر آئے گا اس نے تو شہید ہی ہونا ہے وہ اپنے شوہر کی لاش کے
پاس آئی، فخر سے اس کا سینہ پھول رہا ہے، اس نے اپنے شوہر کو مخاطب ہوکر
کہا کہ میرے سرتاج دیکھ دھکا دے کر جنت کی طرف تجھے میں نے ہی بھیجا ہے۔ اب
کل جب جنت میں جائے تو مجھے مت بھولنا ،قربان ان بیواؤں کی بیوگی پر ہزاروں
لاکھوں کروڑوں سہاگ قربان پھر اس بیوہ نے ہنسی خوشی اپنے شوہر کے لاشے کو
اپنے اونٹ پر ڈالا اور اپنے گھرکی طرف اونٹ کو کھینچنے لگی اونٹ آگے بڑھتا
ہی نہیں،
بڑا زور لگایا، اونٹ کیوں بڑھے سرکار ؐ بھی تشریف لائے سرکار ؐکی بارگاہ
میں عرض کیا گیا حضور ؐیہ اونٹ گھر کی طرف چلتا ہی نہیں ارشاد فرمایا: کہ
محترمہ یہ بتا کہ انہوں گھر سے چلتے ہوئے کیا آخری الفاظ کہے تھے محترمہ نے
عرض کیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھاکر یہ عرض کیا
تھا''اللّٰھم لا تعد نی الی اھلی '''' اے اللہ مجھے اپنے اہل کی طرف واپس
مت لوٹانا'' تو سرکار نے فرمایا:۔ بات سمجھ میںآگئی انہوں نے یہ دعا کی تھی
تو دعا قبول ہوچکی ہے جبھی تو اونٹ نہیں کھسک رہا تو اس کی لاش بھی گھر
نہیں آئے گی چنانچہ وہ نہیں لے جاسکی تو پہلے خواتین اور مردوں کا یہ جذبہ
تھا ہر وقت اسلام کے لیے بے قرار ہوتے تھے کہ جان قربان کردیں اور آج ہم
اسلام کے لیے قربانی کیا دیں ہمارے پاس تو وقت بھی نہیں ہے۔
محترم قارئین :ہے کوئی ان جیسا ہے ؟نہیں ؟ کہ صدیاں بیت جانے کے باوجود
واقعہ پڑھنے کے باوجود رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔رضاالہی کے لیے جان بھی
دیناپڑے تو ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹنے کا سوز وپیداکریں ۔اپنا قبلہ درست
فرمالیجیے !ہم تو ایسے من موجی ہیں کہ ہمارے الفاظ ترکش سے نکلے تیروں کی
طرح سامنے والے کے دل میں پیوست ہوتے چلے جاتے ہیں اس کا دل چھلنی چھلنی
ہوجاتاہے لیکن ہمیں ٹس سے مس نہیں ۔ہماری گولیوں کا رخ مظلوم ،محکوموں کی
جانب ہے ۔جب بات حرمت کی آتی ہے ،جب بات کفر کے مقابلہ میں اشاعت اسلام کی
آتی ہے تو ہم بھیگی بلی بن جاتے ہیں ۔جیسا کے برماکے معاملہ میں ہم مجسمہ
حیرت بنے دنگل میں ہونے والی کشتی کوتماشائی کی طرح تک رہے ہیں ۔لیکن
یادرکھو!کہیں ایسانہ ہوکہ وہی کشت و خون کامنظر یہاں دھرایاگیاتو؟پھر اس تو
کاکوئی جواب دینے کی آپ کو فرصت نہ ملے گی ۔سنبھل جاؤ۔ایک
ہوجاؤ،یکجاہوجاؤ۔اسی میں آپ کی ہم سب کی کامیابی ہے ۔اللہ عزوجل :ہمیں دکھی
دلوں کا سہارا بنیں توفیق عطافرمائے ۔اللہ عزوجل !ہمیںانسانیت کے لیے نفع
بخش بنا١دے ۔ا١ۤمین۔ |