سچ کے علمبرداراور ہمارا آدھا سچ

سچ اور حقیقت جاننا عوام کا حق ہے اور کوئی بھی ادارہ یہ حق عوام سے نہیں چھین سکتا اظہار رائے کی آزادی ہر شخص کو حاصل ہے یہ ایک روایتی جملے ہیں جو ہر جگہ سننے کو مل رہے ہیں لیکن کیا اس سچ سے عوام باخبر ہیں کہ انہیں کتنا سچ بتایا او ر دکھایا جارہا ہے یہ ایک بہت بڑا سوال ہے -ہمارے پاس سچ کی علمبرداری کرنے والے صحافی بھی بہت ہیں اور سچ کا جھنڈا اپنے ساتھ لگا کر دکانداری کرنے والے اخبارات بھی بہت ہیں جو اتنا ہی سچ عوام کو بتاتے /دکھاتے اور سناتے ہیں جتنے میں ان کا کام چلتا ہو یعنی جتنے میں ان کا مفاد ہو یا پھر جتنے سچ کا انہیں آرڈر دیا جاتا ہے احکامات جاری کرنے والے مختلف لوگ اور ادارے ہیں جن سے اشتہارات/ تبادلوں اور کمیشنوں کا مفاد وابستہ ہوتا ہے جتنا بھی بڑا اخبار / ٹی وی چینل یا ریڈیو ہو اس کی سچائی کا اندازہ ان میں چھپنے / آن ائیر ہونیوالے اشتہارات سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ کتنا سچ بولتے / لکھتے ہیں-

کسی زمانے میں اخبارات ہی عوام کو معلومات کی فراہمی کا واحد ذریعہ ہوتے تھے اور اس کے ذریعے نہ صرف عوامی مسائل سامنے آتے بلکہ عوام کو غلطی سے کبھی کبھار یہ بھی پتہ چلتا کہ ان کے نمائندے نے کتنال مال کمالیا یا ان کی کارکردگی کیا ہیں عوام کسی حد تک اس سے مطمئن تھے لیکن برا ہو مارکیٹنگ کا -اخبار کا مالک صحافی ہو یا تاجر مارکیٹنگ نے دونوں کی سوچ یکساں کردی اسے عوام کی کوئی فکر نہیں بلکہ اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عوام کے کیا مسائل ہیں بلکہ اسے اس بات کا مسئلہ ہوتا ہے کہ اخبار کے پرنٹ اور بیک پیج پر کتنے اشتہارات آئے ہیں اور اس کے اخبار کی خالی جگہ کتنے میں فروخت ہوئی ملک اور قوم جائے بھاڑ میں -ان کے مسائل کس نے حل کئے ہیں اخبار کے مالک کوصرف اپنے مسائل سے دلچسپی ہوتی ہے کسی حد تک یہ صحیح بھی ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ عوام کو سچ کا گلہ گھونٹ کر سچ بتایا جائے جس کا سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ آج کے اخبارات میں پیج 2 پر عوامی مسائل کم ہوگئے بلکہ اب تو سفارشی خبریں لگنے لگی ہیں ہم نے ایسے مالکان بھی دیکھ لئے ہیں جو کہنے کو تو صحافی ہے لیکن ان کی سوچ بنیئے بھی بھی بدتر ہیں اور زیادہ تر ایسے مالکان ہیں جس کا اندازہ ان کے گھروں اور ان کے بڑے بڑے املاک سے کیا جاسکتا ہے - گرمیاںلندن میں گزارنے والے یا پھر جون جولائی میں ملازمین کی تنخواہوں سے غیر ممالک کے دور کرنے والے مالکان کی صحافت سے دلچسپی اتنی ہی ہے کہ "ابا نے ان کیلئے روزگار کیلئے اخبار چھوڑا"جس کے ذریعے ان کی کمائی کا سلسلہ جاری ہے اور صرف چند اخبارات نہیں بلکہ 85 فیصد اخبارات اسی طرح کے ہیں جہاں پر سچ بھی ایک حد تک بولا جاتا ہے سرکار انہیں اپنے مد /مقاصد میں استعمال کرنے کیلئے کروڑوں کے اشتہارات دیتی ہیں اور یہ انہیں اشتہارات کی رقم دیکھ کر اتنا ہی سچ بولتے ہیں اور سب سے بڑا سچ بھی یہی ہے کہ اس کاروباری عمل میں چند صحافی مالکان کے چمچے بن کر نہ صرف صحافیوں کا استحصال کررہے ہیں بلکہ ملک و قوم کا بیڑا بھی آدھا سچ بیان کرکے تباہ کیا جارہا ہے-

پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں جتنے بھی کام کئے میں اس کے حوالے کچھ نہیں کہہ رہا لیکن ایک اچھا کام اس نے پرائیویٹ چینلزکو موقع دیکھ کر کیا اور یہی اس کا سب سے بڑا کریڈٹ بھی ہے پتہ نہیں اس میں پرویز مشرف کی کتنی مرضی شامل تھی لیکن یہ سچ اور حقیقت ہے کہ اس میڈیا نے اخبارات کا توڑ کردیا جو کہ آدھا سچ اپنے مطلب کا بیان کررہے تھے -مجھے پرویز مشرف کے " ٹیک اوور" کی رات بھی یاد ہے اس وقت میں ایک مقامی اخبارسے وابستہ تھا آدھی رات کو چند وردی والے آئے ان میں سینئر جو کہ کپتا ن تھا نے اخبار کے نیوز ایڈیٹر کی کرسی سنبھالی اور اخبار جو کہ چھپنے کیلئے جانے والا تھا کو روک لیا اور پھر بارہ بجے چھپنے والے اخبار رات کو تین بجے منظوری ملنے کے بعد چھپنے کیلئے دے دیا گیا اور پھر جیسے قلم کی مزدوری کرنے والوں کی چھٹی ہوگئی کہنے کو تو قلم کی دھار تلوار سے زیادہ ہوتی ہے لیکن ہمیں اس رات اس سچ کا پتہ چل گیا کہ قلم چلانے والے کی اوقات اتنی ہی ہوتی ہے اور یہ ایک کڑوا سچ ہے خبر بات ٹی وی چینل کی ہورہی تھی الیکٹرانک میڈیا نے آغاز میں اچھا کام کیا مقابلے کی فضاء میں سچ بھی بولا گیا لیکن چونکہ ٹی وی چینل کے مالکان بھی تاجر ہیں سو انہوں نے اپنا وقت بیچنا شروع کردیا - چند میراثی اینکر بن کر صحافت کرنے لگے اور حال یہ ہوا کہ اب ٹی وی چینل بھی اتنا ہی سچ بولتے ہیں جتنے میں ان کا اپنا مفاد ہو کبھی کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے بارے میں سچ آپ نے چینلز پر نہیں دیکھا ہوگا خواہ وہ شیمپو کے اشتہار ہو یا موبائل کمپنیوں کے عوام کیساتھ زیادتیاں جو ٹیکسوں کی آڑ میں لوگوں کو لوٹ رہے ہیں اور یہی رقم اشتہارات میں دیکر عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں لیکن یہ سچ ہے کہ چونکہ یہ اشتہارات / پیسے دینے والی کمپنیاں ہیں اور سیکنڈوں کے حساب سے ادائیگی کرتی ہے اور اب الیکٹرانک میڈیا نے بھی آدھا سچ بولنا شروع کردیا-

گذشتہ تقریبا چار سالوں سے ایف ایم ریڈیو چینلز کا دور دورہ ہوگیا ہے امریکی امداد سے زیادہ تر چلنے والے ریڈیو چینلزنے آج کل قبائل کو اپنا نشانہ بنایا ہوا ہے اور انہیں معلومات کی فراہمی/سچ اور انہیں اظہاررائے کا حق دینے کیلئے لگائے جارہے ہیں یہ ایک اچھا اقدام ہے کیونکہ جہاں ٹی وی /اخبارات کی رسائی نہیں وہاں پر ریڈیو کی لہروں کے ذریعے عوام کو سچ بتایا جارہا ہے لیکن یہ سچ بھی کتنا "کنٹرولڈ"سچ ہے اور ان لوگوں کو اظہار رائے کی کتنی آزادی ہے اس کا اندازہ شائد کسی کو نہیں -ہمارے ایک وزیر جو کسی زمانے میں اپنی پارٹی کے پریس ریلیزیں لیکر اخبارات کے دفتروں میں حاضریاں لگوایا کرتے تھے اب اب چونکہ ان کی اپنی حکومت ہے اللہ تعالی انہیں اور عزت دے ہم تو ان کیلئے دعاگو ہے کیونکہ اظہار رائے کی آزادی کیلئے وہ بیانات بہت دیتے ہیں لیکن یہ انہی کے دور حکومت میں ایک قبائلی صحافی نے جو کہ سرکار کی مدد سے چلنے والے ریڈیو میں ملازم تھا نے سچ بولا یہ سچ اتنا ہی تھا کہ قبائلی عوام نے حکومت کے خلاف بات کی جو کہ صحیح بات بھی تھی جو اس نے بحیثیت صحافی نشر کردی بس پھر کیا تھا اس سچ نے اس غریب صحافی کی نوکری ختم کردی کیونکہ یہ ان کی پالیسی کے خلاف تھا کہ حکومت کی مددسے چلنے والے ریڈیو چینل پر عوام کا سچ سامنے آگیا اور اب وہ صحافی اپنے سچ کی سزا بھگت رہا ہے - بہت دوڑ دھوپ کے بعد وہ غریب صحافی اپنے روزگار پر بحال ہوگیا لیکن یہ بحالی بھی عارضی ہے -اب تو ہماری سرکارریڈیو چینلز لگانے کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہیں لیکن اس پر کتنا سچ /حقیقت عوام کو سنائی جائیگی اس واقعہ سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے-

آہ !میں جذبات کی رو میں آکر آدھے سے زیادہ سچ بول گیا ہوں چونکہ میں بھی صحافی ہوں اس لئے زیادہ سچ میرے لئے بھی خطرناک ہے سو خوش رہئیے "ہمارے عوام " آپکو آدھا سچ ملتا رہے گا اور ہمارا روزگار بھی چلتا رہے گا -
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 499368 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More