ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز

پروفیسر مختار شمیم

وقت کے صدیوں کے سفر میں ہماری تہذیب و ثقافت جن ارتقائی منزلوں سے گزری ہے،اس کی حکایت نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ اس کا پس منظر بھی تابناک ہے اور پھر اسی تہذیب و ثقافت کے منتھن سے جو قدر عالمِ وجود میں آئی وہ بھی ایک مثال بن گئی ہے۔ ایک ایسی نظیر کہلائی کہ جس کا عمل اور ردِعمل انسانیت کی فلاح کا موجب بنا۔

ہمارا ملک جغرافیائی اعتبار سے بھی عجیب وغریب کرشماتی ملک ہے کہ جس کے پہاڑوں، دریاؤں،سرچشموں ،میدانوں،ریگزاروں اور مرغزاروں کے درمیان فکرِ حیات کی نشو نما کے جو انکر پھوٹے تو ایک جہان کو حیرتوں کے منظر عطا کر گئے۔ حیرت دید نے انھیں مناظر کے وسیلوں کو زندگی کی آئینہ بندی کا ہنر دیا اور خود فطرت نے ہی دیکھا کہ خاکِ وطن کی مٹّی سونا اگلنے لگی۔ خاکِ وطن کا ہرزرّہ دیوتا ہی نہیں کہلایا بلکہ اس خاک سے وہ جو ہر بھی نمودار ہوا جس پر لمحوں سے صدیوں تکاور آج تک انسانیت کو ناز رہا ہے۔
”ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز “

ہمارے ملک کے صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ حیاتِ انسانی کے وسیلوں نے فطرت سے اپنا رشتہ مضبوط بنائے رکھا۔ اگر چہ کہ تہذیب کے ارتقا کے کچھ تقاضے وہ بھی تھے کہ جن میں انسانی نفسیات اور اس کا جنون،اس کی ضد،فطرت کے مقابل رہی لیکن یہ بھی ہوا کہ کبھی اسے کوہ و دمن سے گزرنا پڑا۔ کبھی درختوں کے سایوں میں پناہ لی گئی،تو کبھی دریاؤں اور چشموں کے کنارے فکر کے چراغ روشن ہوئے۔ غرض یہ کہ مشکلوں اور امتحانوں میں جب انسانی جوہر تپ کر نکلا تو شائد خالق کائنات کو بھی اس میں اپنا عکس نظر آیا۔ یہ عطیئہ خدا بندی انسان کا فطرت کے تئیں احترام کا سبب بنا۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کے بقول:
”رگ وید کے زمانے میں انسان اور فطرت کے درمیان بہت قریبی تعلق تھا،یہی سبب ہے کہ سادہ زندگی
اور فطرت کے مظاہر سے روحانی تعلق نے رگ ویدی انسان کو روحانی طمانت بھی عطا کی تھی۔“

ویدوں،دیوی،دیوتاؤں ،پرانوں،مہاپرشوں،گیانیوں کے ذریعہ سے الوہیت اور روحانیت کی سرخوشی جو ہمیں میسر ہوئی تو اس میں بڑی حد تک فطرت سے محبت نے فکرِ سادہ کو بغیر کسی ذہنی آلودگی کے براہِ راست اپنے اندرون میں لا متناہی روشنی کو جذب کرنے کا سلیقہ دیا تھا۔ گوتم بدھ،شری کرشن اور رام کے بارے میں دنیا کی مختلف اقوام میں ان کے اپنے مذاہب کے باوصف احترام کا جو جذبہ موجود ہے وہ انسانیت کی فلاح کا باعث ہی ہے۔

ہندوستان کی سرزمین کا چپہ چپہ رام کے وجود سے آگاہ ہے کہ ان کی شخصیت کا جمال اور ان کا روشن کردار اور ان کے افعال یعنی ایثار و قربانی،محبت و مہربانی اور اخلاقیات کے اصولوں کی وجہ سے غیر ممالک میں بھی باعث کشش رہا ہے۔ رام کا کردار دراصل ہندوستانی کلاسیکل لٹریچر کا وہ شاندار کردار ہے کہ جس کی کہانی نے ہندوستانی تہذیب کی آفاقی اور روحانی قدروں کی حفاظت کا درس دیا ہے۔یوں تورام اور راماین ہمارے ملک کی تہذیب و ثقافت کی اُس قدر کا مرتبہ پائے ہوئے ہیں کہ جس کے بغیر ہندوستانی تہذیب کی روح کو سمجھنا آسان نہ ہوگا۔

عرصئہ دراز سے میری سوچ میںیہ کھٹک کہیں نہ کہیں موجود تھی کہ اُردو میں اگر چہ کہ راماین،مہابھارت اور گیتا کے نسخے تو ہیں لیکن ان کی طلسماتی کیفیات اور جمالیاتی شعریات سے اب تک ہمارے اُردو کے با شعور ادیبوں کی فکر و نظر کیوں خالی خالی سی ہے؟

راماین کے اُردو متن کی قرات کا میں بھی گواہ ہوں کہ ہمارے علاقے کے بعض ہندو خاندانوں میں اُردو متن کے ذریعے سے راماین کے پیغام کو عام کیا جاتا رہا ہے۔ تا ہم اس کی ضرورت تھی کہ قدیم کلاسیکی متون کی آفاقیت کو اُردو میں اُجاگر کیا جائے اور ان کی روحانیت کے پس ِپردہ زندگی اور کائنات کے رموز تک رسائی حاصل کی جائے۔ میری خوشی کی انتہا نہیں رہی کہ جب اُردو کے جواں سال اسکالر اجے مالوی کی تحقیقی کتابیں۔۔۔شری مد بھگوت گیتا،ویدک ادب اور اُردو اور ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز باصرہ نواز ہوئیں تو بے ساختہ میرے دل نے انھیں چپ کے سے دعا دی۔ خصوصاً ان کی تصنیف ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز قابلِ مطالعہ ہے اور یہ کہوں تو شائدغلط نہ ہوگا کہ اعلیٰ درجے کی کتاب ہے۔ اجے مالوی نے اس کتاب کے مواد کی چھان بین میں جس تحقیقی بصیرت کا ثبوت دیا ہے اس کی ستائش نہ کرنا نا انصافی پر مبنی ہوگا۔ انھوں نے اپنی قابلِ قدر تصنیف میں نہ صرف راماین کے مختلف نسخوں سے بحث کی ہے بلکہ ملک اور بیرونِ ملک کے اُردو،فارسی مخطوطات کی تلاش کے بعد رام کی مختلف کتھاؤں اور راماینوں کے مطالعہ کا نچوڑ جس خوبی سے پیش کیا ہے وہ ان کی ذہانت پر دال ہے۔

عام طور پر ماہرینِ ادب نے راماین کو Epic Poetry کا بدل جانا ہے۔ چونکہ اس میں خیر و شر کا مقابلہ بھی ہے اور حق کی فتح کا ثبوت بھی ہے اس لیے واقعتا اس مذہبی نسخے کو رزمیہ سے تعبیر کیا جانا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ تاہم راماین میں سیرت نگاری کے گوشے بہت منور ہیں۔ ایثار و محبت،مہربانی و کرم نوازی زندگی کے اصولوں کی پاسداری،سچّائی اور زندگی کی سلیقہ مندی نے جمالیاتی احساس کی وہ قندیلیں روشن کی ہیں کہ حیات و کائنات کی ابدی صداقتیں راماین کے ذریعہ سے روحانیت کے فلسفے میں خوب خوب نکھر گئی ہیں۔ یہ وہ داستان ہے کہ بعض مسلم ملکوں میں بھی اس کو ثقافتی و روحانی قدر کا درجہ حاصل ہے۔

اجے مالوی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ایک دیانتدار محقق کی حیثیت سے راماین کے مختلف نسخوں کا مطالعہ ہمارے سامنے پیش کیا اور اس کی تفہیم و تعبیر کو ہم پر عیاں کیا۔ راماین کی ابتدا،تکمیل،اشلوک اور ان کی تعداد وغیرہ پر انھوں نے گہری نظر ڈالی ہے۔جس سے ان کی تحقیق کا اعتبار قائم ہواہے۔ یقیناً ہماری تہذیبی و ثقافتی قدروں کی بازیافت کا یہ عمل اُردو دُنیا کے لیے ایک بشارت ہے۔ الوہیت اور آفاقیت کے سرچشموں سے سرزمین ہند کی معنویت تو بہت پہلے سے ہم پر روشن تھیں لیکن اجے مالوی نے اُرود ادب کو جن ثقافتی اقدار اور ان کی جمالیات سے روشناس کرایا ہے وہ ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ اُردو ادب کی تہذیبی تاریخ بھی ان کے اس کارنامے سے روشن ہوئی ہے۔
Ajai Malviya
About the Author: Ajai Malviya Read More Articles by Ajai Malviya: 34 Articles with 78743 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.