محترم قارئین کرام:جوں جوں وقت
گزرتاچلاجارہاہے ہماری اذہان سے ہماری تاریخ مٹتی چلی جارہی ہے ۔اس کامجھے
باخوبی انداز ہے ۔وہ اس طرح کہ میرے چھوٹے بھائی ذیشان جاوید بحریہ کالج
کارساز کراچی میں پڑھتے ہیں ۔میں جب ان سے بات کرتاہوں تو مجھے نئی ایجادات
،نئے سائنسدانوں ،کمپیوٹرکی نئی تیکنیک کے متعلق بتاتے ہیں لیکن جب میں ان
سے پوچھتاہوں کہ ہمارے فلاں سکالر کے بارے میں جانتے ہو؟فلاں نبی کی سیرت
کے بارے میں کیاجانتے ہوتو؟وہ اپنی تہی دامن ہونے کاثبوت دیتے ہوئے نفی میں
سر ہلاتاہے ۔جس پر مجھے تعلیمی نصاب اور تاریخ شناسی کے حوالے تشویش لاحق
ہوئی ۔وہ مشہور واقعات بھی ذہنوں سے محوہوتے چلے جارہے ہیں ۔چنانچہ میں نے
سوچاکہ کیوں نہ انبیاء کی سیرت پر کچھ لکھ دیاجائے تاکہ ان اللہ کے برگزیدہ
بندوں کی سیرت پڑھ کر ہمارے پژمردہ دلوں کی سیاہی دھل جائے ۔
انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت وتاریخ بیان کرنے سے قبل ان باتوں کوسمجھ
اوریادکرلیناضروری کہ نبی اوررسول کیاہیں؟کل کتنے رسول ہیںاورآسمانی کی کتب
کی تعدادکیاہے اورصحیفہ کس کتاب کو کہا جاتا ہے، اسکے علاوہ نبی اوررسول
میں فرق اوران کی حرمت ،عزت ،ان کی عظمت اورشان کے بارے اللہ عزوجل قرآن
پاک میں اللہ عزوجل نے کیاارشادفرمایاہے؟
نبی کامعنیٰ بلندی مرتبہ اورغیب کی خبردینا۔
اور اصطلاحی طورپرنبی کی تعریف یہ ہے کہ بنی آدم سے ہویعنی انسان
ہو،مذکرہو،آزادہو،اس کی طرف وحی آئے اورلوگوں تک اللہ عزوجل کے احکام
پہنچائے،نیک لوگوںکوجنت کی بشارت دے اورکفار کوجہنم سے ڈرائے اورمعجزات کے
ذریعے اس کی نبوت کوتائیدحاصل ہوتی ہے۔
رسول کامعنی پیغام پہنچانے والا ،بھیجاہوا۔لیکن اصطلاح میںرسول اسے کہتے
ہیں۔جسے کتاب بھی عطا ہو،پہلی شریعت پرعمل کرناختم ہوچکاہوتوازسرنو شریعت
لائے۔
محترم قارئین :نبی اوررسول آسان اندازمیں فرق یوں کرسکتے ہیں کہ ہررسول نبی
ضرورہوتاہے ،لیکن ہرنبی کارسول ہوناضروری نہیں۔اس کے علاوہ رسولوں کی
تعدادتین سوتیرہ(313)ہے اورآسمانی کتابوں کی تعدادکل ایک سوچار(104)ہے۔چار
کے مستقل نام ہیں:توریت،انجیل،زبور،قرآن پاک اورایک سوکے مستقل نام نہیں
بلکہ ان کوصحیفے کہاجاتاہے۔
قرآن پاک میں جن رسول اور نبی کاتذکرہ آتاہے۔وہ ہیں:
حضرت آدم علیہ السلام ادریس علیہ السلام نوح علیہ السلام ھود علیہ السلام
صالح علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام لوط علیہ السلام ،اسماعیل علیہ
السلام اسحاق علیہ السلام یعقوب علیہ السلام ، یوسف علیہ السلام ایوب علیہ
السلام شعیب علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام ہارون علیہ السلام ذو الکفل
علیہ السلام داؤد علیہ السلام سلیمان علیہ السلام الیاس علیہ السلام یونس
علیہ السلام زکریا علیہ السلام یحییٰ علیہ السلام عیسیٰ علیہ السلام
اورحضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔
محترم قارئین!تمام رسولوں اورانبیاء کرام علیہم السلام کومعجزات سے تقویت
پہنچائی جاتی ہے،اب دیکھنایہ ہے کہ معجزہ کسے کہتے ہیں؟
اس کی تعریف یہ ہے کہ عادت کے خلاف آلات کے بغیرمدّعِی نبوت سے بعداعلان
نبوت کسی کام کاخلاف عادت سرزدہونامعجزہ کہلاتاہے،عادت کے مطابق کام کرنے
کانام معجزہ نہیں۔
یہاں یہ ضروریادرکھیں کہ دنیامیں کم وبیش ایک چوبیس ہزار،جبکہ ایک اورروایت
میں دولاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام تشریف لائے جبکہ قرآن پاک میںبعض انبیاء
کرام کے نام اوران کے حالات کوذکرکیاگیاہے جبکہ بعض انبیاء کرام کے صرف نام
ہیں لیکن حالات نہیں۔دنیامیںتشریف لانے کے لحاظ سے سب پہلے آنے والے نبی
حضرت آدم صفی اللہ علیہ السلام ہیں اورسب سے آخرمیںتشریف لانے والے
سیدنامحمدمصطفیٰ ؐ ہیں۔
آج کہ اس کالم میں ہم اپنے جدامجدحضرت سیدناآدم علیہ السلام سے متعلق جاننے
کی کوشش کریں گے۔جس آپ تخلیق سے لیکرآپ کی جائے وفات کابھی سنیںسے اس علاوہ
مختلف دلچسپ باتیںمثلاانسانوں کامختلف رنگوں اورطبیعتوںوالااس کی کیاوجہ
اسی طرح جب حضرت آدم علیہ السلام پیارے آقا ؐ کویاد کیاکرتے تھے کیافرماتے
تھے اس کے علاوہ اوربہت کچھ..............
آپ رسول ہیں اورآپ کی کنیت ابومحمدیاابوالبشر اورآپ کالقب خلیفۃ اللہ ہے
اورآپ سب پہلے اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں۔آپ نے نوسوساٹھ برس عمرپائی اوربوقت
وفات آپ کی اولاد کی تعدادایک لاکھ ہوچکی تھی۔جنہوںنے طرح طرح کی صنعتوں
اورعمارتوںسے زمین کوآبادکیا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پہلے فرشوںسے مشورہ
فرمایا:جیساکہ قرآن پاک میں آتاہے!
اوریادکیجئے !جب آپ کے رب نے فرشتوںسے مشورہ فرمایابیشک میںبنانے
والاہوںزمین میں(اپنا)نائب ۔
محترم قارئین !یہاںنائب سے مرادحضرت آدم علیہ السلام تمام انبیاء کرام ہیں۔
محترم قارئین !یہاںپرایک اہم چیزجوکامیابی کی راہ کی طرف اشارہ کررہی وہ ہے
مشورہ ۔اورسرکارؐ کی بھی سنت ہے اورآج مسلمانوں کی زبوںحالی کی وجہ غالبا
یہ ہی نظرآتی ہے کہ ہم کسی بھی معاملے میں مشورے کرنے کی طرف نہیںبڑھتے ہیں۔
محترم قارئین !حضرت آدم علیہ السلام کی نہ توماں ہیں اورنہ ہی باپ ۔بلکہ
اللہ تعالیٰ ان کومٹی سے بنایاہے جیساکہ قرآن پاک اللہ تعالیٰ
ارشادفرماتاہے !
'' عیسیٰ کی کہاوت اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے اسے مٹی سے
بنایاگیا''پھرفرمایاہوجاتووہ فورا ہوجاتاہے۔ چنانچہ روایت ہے کہ جب
خداوندقدوس عزوجل نے آپ کوپیداکرنے کاارادہ فرمایاتوحضرت عزرائیل علیہ
السلام کوحکم دیاکہ زمین سے ایک مٹھی مٹی لائیں۔حکمِ خداوندی عزوجل کے
مطابق وہ آسمان سے اترے اورزمین سے ایک مٹھی اٹھائی توپوری روئے زمین کی
مختلف اقسام کی مٹی آپ کی مٹھی میں آگئی۔جس میں ساٹھ رنگوں اورمختلف
کیفیتوںوالی مٹیاں تھیں یعنی سفیدوسیاہ اورسرخ وزردرنگوں والی اورنرم وسخت
شیریں وتلخ ،نمکین وپھیکی وغیرہ کیفیتوں والی مٹیاں شامل تھی۔
پھرقارئین کرام :اس مٹی کومختلف پانیوں سے گوندھنے کے بعداس مٹی سے حضرت
آدم علیہ السلام کاپتلابناکرجنت کے دروازے پررکھ دیاگیاجس کودیکھ دیکھ
کرفرشتوں کی جماعت تعجب کرتی تھی۔کیونکہ فرشتوں نے ایسی شکل وصورت کی کوئی
مخلوق کبھی دیکھی ہی نہیںتھی۔پھراللہ تعالیٰ نے اس پتلے میں روح کوداخل
ہونے کاحکم ارشاد فرمایا۔
اللّٰہ اکبر!یہاں ایک بہت ہی تعجب کی بات مفسرین یہ فرماتے ہیں کہ حضرت آدم
علیہ السلام کوجس مٹی سے بنایاگیاتھاچونکہ وہ مختلف رنگوں اورمختلف کیفیتوں
کی مٹیوں کامجموعہ تھی اسی لئے آپ کی اولادیعنی انسانوں میں مختلف رنگوں
اورقسم قسم کے مزاجوںوالے لوگ ہوگئے۔
محترم قارئین !حضرت آدم علیہ السلام کوخداوندِ قدوس نے بہشت میںرہنے کاحکم
دیاتوآپ جنت میں تنہائی کی وجہ سے کچھ ملول (رنجیدہ)ہوئے تواللہ تعالیٰ نے
آپ پرنیندکاغلبہ فرمایااورآپ گہری نیندسوگئے تونیندہی کی حالت میں آپ کی
بائیں پسلی سے اللہ تعالیٰ نے حضرت حواء رضی اللہ تعالیٰ
عنہاکوپیدافرمایا۔اورجب آپ نیند سے بیدارہوئے آپ دیکھ کرحیران سے کہ ایک
نہایت خوبصورت اورحسین وجمیل عورت آپ کے پاس بیٹھی ہے،آپ نے ان سے فرمایاکہ
تم کون ہو؟اورکس لئے یہاں آئی ہو؟توحضرت حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہانے جواب
دیاکہ میں آپ کی بیوی ہوں اوراللہ عزوجل نے مجھے اس لئے پیدافرمایاتاکہ مجھ
سے اُنس اورسکونِ قلب حاصل ہو۔
سیرت کے صفحات پلٹے ہوئے آگے چلتے ہیں ۔جب حضرت آدم علیہ السلام حضرت حوا ء
رضی اللہ عنہا کے ساتھ جنت میں رہنے لگے تو شیطان نے مکاری سے کام لیتے
ہوئے حضرت آدم علیہ السلام کو ممنوعہ پھل کھانے کا مشورہ دیا ،آپ علیہ
السلام کے منع کرنے پر وہ حضرت حواکے پاس گیا اور انہیں وہ ممنوعہ پھل
کھانے کا کہا ،پھردونوں نے وہ پھل کھالیا، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت سے
نکال کر دنیا میں بھیج دیا ۔
لیکن یادرکھیں یہ گناہ نہیں تھا بلکہ اجتہادی غلطی تھی۔جس طرح بعض لوگوں نے
ان کے اس فعل کوگناہ تصورکیا،گناہ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انبیاء ومرسلین
گناہ سے پاک اورمعصوم ہوتے ہیں۔
اس وجہ اللہ تعالیٰ نے آپ کواورحضرت حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہاکوزمین
پربھیج دیا،زمین پر تشریف لانے بعد حضرت آدم علیہ السلام و حضرت حواء رضی
اللہ تعالیٰ عنہ نے گریا وزاری کرکے اللہ عزوجل کے حضور توبہ کی ،حضرت آدم
علیہ السلام جب جنت میں تھے تو آپ نے عرش پر لاالہ اللہ ،محمد رسول اللہ
تحریر پایا تھا ،اللہ اکبرآپ نے اس بات کومحسوس کیاکہ ہوناہویہ کوئی اللہ
عزوجل کامحبوب ومقبول بندہ ہے کہ جس کے نام کواپنے نام مبارکہ کے ساتھ
جوڑاہے،توحضرت آدم علیہ السلام نے اسی نام محمدکاواسطہ دیکراپنے رب عزوجل
کے حضور معافی طلب فرمائی تواللہ عزوجل ان کی اس خطاکومعاف فرمادیا۔
چنانچہ جب آدم علیہ السلام کاآخری وقت آیا تو آپ کو جنتی میوے کھانے کی
خواہش ہوئی اپنے فرزندوں سے کہا کہ کعبہ معظمہ جاؤ اور وہاں دعا کروں کہ
اللہ عزوجل میری یہ تمنا پوری کرے آدم علیہ السلام کے فرزند یہ حکم پاکر
وہاں پہنچے انہیںحضرت جبرائیل اور دوسر ے فرشتے ملے جن سے انہوںنے آدم علیہ
السلام کی فرمائش کا ذکرکیا ،فرشتوں نے کہا ہمارے پاس آؤ ہم جنت کے میوے
اپنے ساتھ لائے ہیں۔
چنانچہ یہ سب آدم علیہ السلام کے پاس پہنچے ،حضرت حواء ان فرشتوں کو دیکھ
کر ڈر گئیں ،اورچاہا آدم علیہ السلام کے دامن میں چھپ جائیں انہوںنے فرمایا
کہ حوا اب تم مجھ سے الگ رہو میرے اور رب کے قاصدوں کے درمیان آڑ نہ بنو
،اس طرح فرشتوں نے آدم علیہ السلام کی روح قبض کرلی۔فرشتوں نے آدم علیہ
السلام کے بیٹوں کو کہا جس طرح ہم تمہارے باپ کا کفن ودفن کریں اسی طرح تم
فوت ہونے والے لوگوں کا کفن ودفن کرنا -
جبرائیل علیہ السلام جنت کی مرکب خوشبو اور جنتی جوڑے کا کفن اور جنتی بیری
کے کچھ پتے اپنے ساتھ لائے تھے ان کو خود غسل دیا اور کفن پہنایا اور خوشبو
ملی اور ملائکہ ان کا جسم مبارک کعبہ میں لائے ان پر سارے فرشتوں نے نماز
جنازہ ادا کی جس میں حضرت جبرائیل امام تھے اور سارے فرشتے مقتدی۔پھر مکہ
معظمہ سے تین میل کے فاصلے پر مقام منیٰ میں لے گئے ،جہاںبغلی قبر کھود کر
ان کو دفن کرکے ان کی قبر کو اونٹ کے کوہان کی طرح ڈھلان بنایا ، حضرت حواء
علیہ السلام کی قبر ''جدہ ''میں ہے بعض روایات کے مطابق دونوں کی قبریں حرم
میں طواف کی جگہ میں ہیں۔ ایک بات یاد کررکھیں اللہ عزوجل نے حضرت آدم علیہ
السلام کو تمام نبی نوع انسان کا باپ بنایا اور اپنے پیارے حبیب محمد مصطفی
ؐ کو حضرت آدم علیہ السلام کی بھی اصل بنایا ،بروز قیامت تمام انبیاء کرام
علیہم السلام آپ ؐ کے جھنڈے تلے جمع ہونگے ۔
حضرت آدم علیہ السلام کونبی آخر الزماں ؐ سے بے پناہ محبت وعقیدت تھی آپ
علیہ السلام نے اپنی اولاد کو محمد مصطفی ؐ کی پیروی کرنے کا حکم ارشاد
فرمایا ،حضرت آدم علیہ السلام سمیت تمام انبیاء ورسل ،سردار دوجہان ؐ کا
امتی ہونے کی تمنا کرتے تھے ،حضرت آدم علیہ السلام جب اللہ عزوجل کے حبیب ؐ
کو نہایت عقیدت ومحبت کے ساتھ یادکیا کرتے تھے یوفرمایاکرتے تھے اے میرے
ظاہری بیٹے درحقیقت تم میرے باپ ہوفرمایاکرتے تھے
ظاہرمیںمیرے پھول حقیقت میںمیرے نخل
اس گل کی یادمیںیہ صدابوالبشرکی ہے
محترم قارئین:یہ تھی سیرت کے گلدستے کی چندکلیوں کی مہک میری کوشش ہوگی میں
اور آپ اس لازوال گلستاں کے گلاب و چنبیلی کی خوشبو سے فیضیاب ہوتے چلے
جائیں ۔میری کوشش ہوگی کہ اپنی بصیرت و بصارت کے موافق مزید سیرت کے دریچوں
سے بھی آپ تک کچھ پہنچاؤں ۔دعاکیجیے کہ اللہ عزوجل مجھے حق بیان کرنے کی
توفیق مرحمت فرمائے ۔اپنی قیمتی آراء سے ضرور نوازتے رہیے گا۔ |