گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔
ختمِ قرآن اور رقت
جہاں تراویح میں ایک بار قراٰنِ پاک کی تلاوت کی جائے وہاں بہتر یہ ہے کہ
ستائیسویں شب کو خَتمْ کریں ۔ رقّت و سوز کے ساتھ اِختِتام ہو اور یہ
اِحساس دل کو تڑپا کر رکھ دے کہ میں نے صحیح معنوں میں قراٰنِ پاک پڑھا
یاسنا نہیں،کوتاہیاں بھی ہوئیں،دل جَمعْی بھی نہ رہی،اِخلاص میں بھی کمی
تھی۔صد ہزار افسوس !دُنیوی شخصیت کا کلام تو توجُّہ کے ساتھ سنا جاتا ہے
مگر سب سے کے خالِق و مالِک اپنے پیارے پیا رے اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّت
عَزَّوَجَلَّ کا پاکیزہ کلام دھیان سے نہ سنا،ساتھ ہی یہ بھی غم ہو کہ
افسوس ! اب ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک چند گھڑیوں کا مِہمان رَہ گیا ،نہ
جانے آئند ہ سال اس کی تشریف آوَری کے وَقت اس کی بہاریں لوٹنے کیلئے میں
زندہ رہوں گایا نہیں!اِس طرح کے تصوُّرات جما کر اپنی لا پرواہیوں پر خود
کو شرمندہ کرے اور ہو سکے تو روئے اگر رونا نہ آئے تو رونے کی سی صورت
بنائے کہ اچھّوں کی نَقْل بھی اچّھی ہے۔اگر کسی کی آنکھ سے محبت قراٰن و
فِراقِ رَمَضان میں ایک آدھ قطرہئ آنسو ٹپک کر مقبولِ بارگاہِ الہٰی
عَزَّوَجَلَّ ہو گیا تو کیا بعید کہ اُسی کے صَدْقے خدائے غفّار عَزَّوَجَلَّ
سبھی حاضِرین کو بخش دے۔
لاج رکھ لے گنہگاروں کی
عیب میرے نہ کھول مَحشر میں
بے سبب بخش دے نہ پوچھ عمل
نام ر حمٰن ہے تِرا یا ربّ!
نام ستّار ہے تِرا یا ربّ!
نام غفّار ہے تِرا یا ربّ!
تو کریم اور کریم بھی ایسا کہ نہیں جس کا دوسرا یاربّ!
تراویح کی جماعت بدعتِ حسنہ ہے
اللّٰہ کے محبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صلَّی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود بھی تراویح ادا فرمائی اور اس کوخوب پسند
بھی فرمایا : چُنانچہِ صاحِبِ قراٰن، مدینے کے سلطان صلَّی اللہ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے ، جو ایمان و طلبِ ثواب کے سبب سے
رَمَضان میں قِیام کرے اُس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔(یعنی
صغیرہ گناہ) پھر اس اندیشے کی وجہ سے ترک فرمائی کہ کہیں امّت پر (تراویح)فرض
نہ کر دی جائے ۔ پھرامیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عُمر فاروقِ اعظم رضی
اللہ تعالیٰ عنہ نے (اپنے دورِ خِلافت میں) ماہِ رَمَضان المُبَارَک کی ایک
رات مسجد میں دیکھا کہ لوگ جُدا جُدا انداز پر (تراویح) اداکر رہے ہیں ،
کوئی اکیلا تو کچھ حضرات کسی کی اقِتدا ء میں پڑھ رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر آپ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:میں مناسِب خیال کرتا ہوں کہ ان سب کو ایک
امام کے ساتھ جمع کردوں ۔ لھٰذا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سِیدُنا
اُبَیِّ ابْنِ کَعْب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوسب کا امام بنا دیا ۔ پھر جب
دوسری رات تشریف لائے اوردیکھاکہ لوگ باجماعت (تراویح) ادا کر رہے ہیں(
توبہت خوش ہوئے اور ) فرمایا ،
نِعْم َالْبِدْعَۃُ ھٰذِہ۔ یعنی'' یہ اچھی بدعت ہے''۔ (صحیح بخاری،
ج١،ص٦٥٨،حدیث٢٠١٠)
محترم قارئین کرام ! محبوبِ ر بِّ ذُوالجَلال صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلم کو ہمارا کتنا خیال ہے ! محض اِس خوف سے تراویح پر ہمیشگی نہ فرمائی
کہ کہیں اُمّت پر فرض نہ کر دی جائے۔ اِس حدیثِ پاک سے بعض وَساوِس کا علا
ج بھی ہو گیا۔مثَلاً تراویح کی باقاعِدہ جماعت سرکارِ نامدا رصلَّی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی جاری فرما سکتے تھے مگر نہ فرمائی اور یوں
اسلام میں اچّھے اچّھے طریقے رائج کرنے کا اپنے غلاموں کو موقع فراہم کیا ۔
جو کام شاہِ خیرُ الانام صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نہیں کیا
وہ کام سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اﷲتعا لیٰ عنہ نے مَحض اپنی مرضی سے نہیں
کیا بلکہ سرکارِ عالمِ مدارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تا
قِیا مت ایسے اچّھے اچّھے کام جاری کرتے رہنے کی اپنی حیاتِ ظاہِری میں ہی
اجازت مَرحَمت فرمادی تھی۔چنانچِہ حُضُورِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم ، شاہِ بنی
آدم،رسولِ مُحتَشَم،شافِعِ اُمَم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمانِ مُعظَّم ہے، ''جو کوئی اسلام میں اچّھا طریقہ جاری کرے اُس کو اس کا
ثواب ملے گااور اُس کا بھی جو (لوگ) اِس کے بعداُس پر عمل کریں گے اور اُن
کے ثواب سے کچھ کم نہ ہو گا اور جو شخص اِسلام میں بُرا طریقہ جار ی کرے
اُس پر اِس کا گناہ بھی ہے اور ان (لوگوں)کا بھی جو اِس کے بعد اِس پر عمل
کریں اور اُن کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہو گی ۔
(صحیح مُسلم ،ص١١٤٣٨،حدیث١٠١٧)
''12 بِدعاتِ حَسَنہ
اِس حدیثِ مبارَک سے معلو م ہوا، قِیامت تک اسلام میں اچّھے اچّھے نئے
طریقے نکالنے کی اجازت ہے اوراَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ نکالے بھی جار
ہے ہیں جیسا کہ
(١) امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عُمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے تراویح کی باقاعِدہ جماعت کا اہتِمام کیا اور اس کو خود اچّھی بدعت
بھی قرار دیا۔ اِس سے یہ بھی معلو م ہوا کہ سرکار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے وِصال ظاہری کے بعد صحابہ کرام علیہم الرضوان بھی جو اچھا
نیا کام جاری کریں وہ بھی بدعتِ حَسَنہ کہلاتا ہے۔
(٢)مسجِد میں امام کیلئے طاق نُما محراب نہیں ہوتی تھی سب سے پہلے حضرت
سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےمسجدُ النَّبَوِی الشّریف
علٰی صاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام میں محراب بنانے کی سعادت حاصل کی
اِس نئی ایجاد( بد عتِ حَسَنہ) کو اس قَدَر مقبولیّت حاصل ہے کہ اب دنیابھر
میں مسجد کی پہچان اِسی سے ہے ۔
(٣) اِسی طرح مساجِد پرگُنبدومیناربنانابھی بعدکی ایجادہے۔ بلکہ کعبے کے
مَنارے بھی سرکارمدینہ وصحابہ کرام صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم
وعلیہم الرضوان کے دَور میں نہیں تھے ۔
(٤) ایمانِ مُفَصَّل
(٥) ایمانِ مُجْمَل
(٦) چھ کلمے ان کی تعداد و ترکیب کہ یہ پہلا یہ دوسرا اور ان کے نام
(٧)قراٰنِ پاک کے تیس پارے بنانا،اِعراب لگانا ان میں رُکوع بنانا،رُمُوزِ
اَوقاَف کی علامات لگانا۔بلکہ نُقطے بھی بعدمیںلگائے گئے،خوبصورت جِلدیں
چھاپنا وغیرہ۔
(٨)احادیثِ مبارَکہ کو کتابی شکل دینا،اس کی اَسناد پر جرح کرنا،ان کی صحیح
، حَسَن، ضعیف اور مَوضُوع وغیرہ اَقسام بنانا۔
(٩) فِقْہ ، اُصولِ فِقْہ و عِلْمِ کلام۔
(١٠)زکوٰۃ و فطر ہ سکّہ رائجُالْوقت بلکہ با تصویر نوٹوں سے ادا کرنا۔
(١١)اونٹوںوغیرہ کے بجائے سفینے یاہوائی جہازکے ذَرِیعے سفرِحج کرنا۔
(١٢) شریعت و طریقت کے چاروں سلسلے یعنی حنفی ،شافِعی، مالِکی ، حَنبلی اسی
طرح قادِری نَقْشبندی،سُہروردی اور چشتی۔
ہر بدعت گمراہی نہیں ہے
ہو سکتا ہے کہ کسی کے ذِہن میں یہ سُوال پیدا ہو کہ ان دو احادیث مبارکہ
(١)کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلاَ لَۃٌ وَّ کُلُّ ضَلاَ لَۃٍ فِی النّاریعنی ہر بدعت
(نئی بات ) گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنّم میں (لے جانے والی) ہے۔(سُنَنُ
النَّسائی، ج٢،ص١٨٩)
(٢) شَرَّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلا لۃ یعنی
بدترین کام نئے طریقے ہیںہر بدعت (نئی بات)گمراہی ہے۔(صحیح مسلم،
ص٤٣٠،حدیث٨٦٧)
کے کیا معنی ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں احادیثِ مبارکہ حق ہیں۔یہاں
بدعت سے مُراد بدعتِ سَیِّـئَہَ (سَیْ۔یِ۔ءَ ہْ) یعنی بُری بدعت ہے اور
یقینا ہر وہ بدعت بُری ہے جو کسی سنّت کے خِلاف یا سنّت کو مٹانے والی
ہو۔جیسا کہ دیگر احادیث میں اس مسئلے کی مزید وضاحت موجود ہے چنانچِہ ہمارے
پیارے پیار ے آقا مکّی مَدَنی مصطفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا: ہروہ گمراہ کرنے والی بدعت جس سے اللہ اور اس کا رسول
راضی نہ ہو تو اس گمراہی والی بدعت کو جاری کرنے والے پر اس بدعت پر عمل
کرنے والوں کی مثل گناہ ہے، اسے گناہ مل جانا لوگوں کے گناہوں میں کمی نہیں
کرے گا۔(جامع ترمذی ،ج٤،ص٣٠٩ ،حدیث٢٦٨٦)
ایک اورحدیثِ مبارک میں مزید وَضاحت ملاحَظہ فرمائیے چُنانچِہ اُمّ
الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے
مروی ہے ،اللّٰہ کے محبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب
عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
''مَنْ أحْدثَ فِيْ أمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ فِیْہِ فَہُوَ رَدٌّ '' یعنی
''جو ہمارے دین میں ایسی نئی بات نکالے جو اس(کی اصل ) میں سے نہ ہو وہ
مردود ہے۔''(صحیح بخاری شریف، ج٦،ص٢١١، الحدیث ٢٦٩٧)
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا ایسی نئی بات جو سنّت سے دُور کرکے گمراہ
کرنے والی ہو، جس کی اصل دین میں نہ ہووہ بدعتِ سَیِّـئَہ یعنی بُری بدعت
ہے جبکہ دین میںایسی نئی بات جو سنّت پر عمل کرنے میں مدد کرنے والی ہو اور
جس کی اصل دین سے ثابت ہو وہ بدعت ِحَسَنہ یعنی اچّھی بدعت ہے ۔
حضرتِ سیِّدُ نا شیخ عبدُالْحق مُحَدِّث دِہلوی علیہ رحمۃ اللّٰہِ القوی
حدیثِ پاک، وَّکُلُّ ضَلالۃٍ فِی النّار'' کے تَحْت فرماتے ہیں،جو بِد عت
کہ اُصول اور قوا عدِ سنّت کے مُوا فِق اور اُس کے مطابِق قِیاس کی ہوئی ہے
(یعنی شریعت و سنّت سے نہیں ٹکراتی)اُس کو بدعتِ حَسَنہ کہتے ہیںاور جو اس
کے خلاف ہے وہ بدعتِ ضَلالت یعنی گمراہی والی بدعت کہلاتی ہے ۔
(اَشِعَّۃُاللَّمعات، ج اوّل، ص ١٣٥)
بدعتِ حسنہ کے بغیر گزارہ نہیں
بَہَرحال اچّھی اور بُری بدعات کی تقسیم ضَروری ہے ورنہ کئی اچّھی اچّھی
بدعتیں ایسی ہیں کہ اگر ان کو صِرْف اس لئے تَرْک کر دیا جائے کہ قرُ وُنِ
ثلَاثہ یعنی شاہِ خیر الانام، صَحابہئ کِرام و تابِعینِ عِظام ، صلی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم و علیہم الرضوان کے اَدوارِ پُر انوارمیں نہیں
تھیں ،تو دین کا موجود ہ نِظام ہی نہ چل سکے۔جیسا کہ دینی مدارِس ، ان میں
درسِ نظامی،قُراٰن و احادیث اور اسلامی کتابوں کی پریس میں چھپائی وغیرہ
وغیرہ یہ تمام کام پہلے نہ تھے بعدمیں جاری ہوئے اور بدعتِ حَسَنہ میں شا
مل ہیں۔بَہَرحال ربِّ ذُوالْجلال عزوجل کی عطا سے اُس کے پیارے حبیب صلَّی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یقینا یہ سارے اچّھے اچّھے کام اپنی حیاتِ
ظاہِری میں بھی ر ائج فرما سکتے تھے۔مگر اﷲ عَزَّوَجَلَّے اپنے محبوب صلَّی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے غلاموں کے لئے ثوابِ جارِیّہ کمانے کے
بے شمار مَواقِع فراہم کر دئیے اوراﷲ عَزَّوَجَلَّ کے نیک بندوں نے
صَدَقہئِ جارِیّہ کی خاطر جو شریعت سے نہیں ٹکراتی ہیں ایسی نئی ایجادوں کی
دھوم مچا دی۔کسی نے اذان سے پہلے دُرُو د و سلا م پڑھنے کا رَواج ڈالا ،
کسی نے عیدِمِیلاد منانے کا طریقہ نکالا پھر اس میں چَراغاں اور سبز سبز
پرچموں اور مرحبا کی دھومیں مچاتے مَدَنی جلوسوں کا سلسلہ ہوا،کسی نے
گیارھویں شریف تو کسی نے اَعراسِ بزرگانِ دین رَحِمَھُمُ اللّٰہُ المبین کی
بنیاد رکھ دی اور اب بھی یہ سلسلے جاری ہیں۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ
دعوتِ اسلامی والوں نے سنّتوں بھرے اجتماعات وغیرہ میں اُذْکُرُوا اﷲ
!(یعنی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا ذِکْر کرو !)اور صَلُّوا عَلَی
الْحَبِیب!(یعنی حبیب پر دُرود بھیجو !) کے نعرے لگانے کی بالکل نئی ترکیب
نکال کر اللّٰہ اللّٰہ اور دُرُود و سلام کی پُرکیف صداؤں کا حَسین سماں
قائم کر دیا !
اﷲ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں
اے دعوتِ اسلامی تری دھوم مچی ہو
سبزگنبد کی تاریخ
سبز سبز گنبد جس کے دیدار کے لئے ہر عا شق کا دل بے قرارہوتااور آنکھ
اشکبارہوجایا کرتی ہے۔یہ بھی بدعتِ حَسَنہ ہے کیوں کہ وہ سرکارصلَّی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصا لِ ظاہری کے سینکڑوں برس بعد بنا ہے۔ اس
کی مختصر اً معلو مات بھی حا صِل کر لیجئے ۔
سر کا ر ِمدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روضہئ انور پر سب
سے پہلا گنبد شریف ٦٧٨ھ (1269ئ) میں تعمیر ہوا اور اس پر زَرد رنگ کروایا
گیااور وہ پیلا گنبد کہلایا ، پھر مختلف ادوار میں تَغَیُّر و تَبَدُّلہو
تا رہا ۔یہاں تک کہ ٨٨٨ ھ (1483 ئ) میں کالے پتھر سے نیا گنبد بنایا گیا
اور اس پر سفید رنگ کروایا گیا۔ عُشّاق اُس کو قُبَّۃُ البَیْضا یا ''گنبد
ِ بَیضائ' 'یعنی سفیدگُنبد کہنے لگے۔ ٩٨٠ ھ (1572 ئ) میں انتہائی حسین
گنبد بنایا گیا اور اُس کو رنگ برنگے پتّھروں سے سجایا گیا ۔ اب اس کا ایک
رنگ نہ رہا۔غالِباً میناکاری کے دلکش و جاذبِ نظر منظر کے باعث وہ رنگ
برنگا گنبد کہلایا۔ ١٢٣٣ ھ (1818 ئ) میںاز سرِ نواس کی تعمیر کی گئی اور
اس پر سبز رنگ کیا گیا ۔ جو اَلْقُبَّۃُ الْخَضْراء یعنی سبز گنبدکے نام سے
مشہور ہوا۔اس کے بعد اب تک کسی نے اس میں ردّو بدل نہیں کیا۔ ہاں سبز رنگ
کو یہ سعادت ملتی رہتی ہے کہ وہ خُدّام کے ہاتھوں اُوپر جاکر لِپَٹجاتا ہے
۔ گنبدخَضْرا جو کہ یقیناقطعاً بدعتِ حَسَنہ ہے وہ اب دنیا بھر کے
مسلمانوںکا مَرجَع ، آنکھوں کا نور اور دل کا سُرُور ہے۔ اِن شآءَ اللّٰہ
عَزَّوَجَلَّ اس کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں مٹاسکتی۔جو اس کو عِناداً(یعنی
بُغض کی وجہ سے ) مٹانا چاہے گا اِن شآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّوہ خود ہی مِٹ
جائے گا۔
گنبدِ خَضرا خدا تجھ کو سلامت رکھے
دیکھ لیتے ہیں تجھے پیاس بجھا لیتے ہیں
اِن جیسے تمام نَوایجاد نیک کاموں کی بنیاد وُہی حدیثِ پاک ہے جومُسلِم
شریف کے حوالے سے ماقبل گُزری جس میں فرمایا گیا ہے،جو کوئی اسلام میں
اچّھا طریقہ جاری کرے اُس کو اِس کا ثواب ملیگا اور اُس کا بھی جواِس کے
بعد اس پر عمل کریں۔ نوٹ:(مفسرِ شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان
علیہ رحمۃ الحنان کی کتاب مستطاب''جاء الحق وزھق الباطل ''میں بدعات اور ان
کی اقسام وغیرہ کے بارے میں مزید تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں ۔)
فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
یا اللہ عزوجل ماہ رمضان کے طفیل برما کے مسلمانوں
کی جان و مال ،عزت آبرو کی حفاظت فرما۔اٰمین
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے |