گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔
سابقہ گناہوں کا کفارہ
حضرتِ سَیِّدُنا ابو سَعید خُدْری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایت ہے کہ
ہمارے میٹھے میٹھے آقا مکّی مَدَنی مصطفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم فرماتے ہیں: ''جس نے رَمَضان کا روزہ رکھا اور اُس کی حُدُود کو
پہچانا اور جس چیز سے بچنا چاہیے اُس سے بچا تَو جو(کچھ گناہ) پہلے کرچکا
ہے اُس کاکَفَّارہ ہوگیا۔ '' (صحیح ابنِ حَبّان، ج٥ ،ص١٨٣،حدیث٣٤٢٤)
روزہ کی جزا
حضرتِ سَیِّدُنا ابُوہُریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایت ہے کہ سلطانِ
دوجہان شَہَنشاہِ کون ومکان، رحمتِ عالمیان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم فرماتے ہیں : ''آدمی کے ہر نیک کام کا بدلہ دس سے سات سو گُنا تک
دیا جاتا ہے۔اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا: اِلَّا الصَّوْمَ فَاِنَّہ،
لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ۔سوائے روزے کے کہ روزہ میرے لئے ہے اور اِس کی
جَزا میں خودُ دوں گا۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا مزید ارشاد ہے، بندہ اپنی
خواہِش اور کھانے کو صِرف میری وَجَہ سے تَرک کرتا ہے۔روزہ دار کیلئے دو
خوشیاں ہیں۔ایک اِفطار کے وَقت اور ایک اپنے ربّ عَزَّوَجَل َسے ملاقات کے
وَقت ۔ روزہ دار کے منہ کی بُواللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک مُشک سے زیادہ
پاکِیزہ ہے۔''
(صحیح مسلِم، ص٥٨٠،حدیث١١٥١)
مزید ارشاد ہے ، ''روزہ سِپَر (یعنی ڈھال) ہے اور جب کسی کے روزہ کا دِن ہو
تو نہ بے ہُودہ بَکے اور نہ ہی چیخے۔پھر اگر کوئی اورشَخص اِس سے گالَم
گلوچ کرے یا لڑنے پر آمادہ ہو، تو کہہ دے ، میں روزہ دا رہوں۔ (صحیح بخاری
،ج١،ص٦٢٤،حدیث١٨٩٤)
روزہ کا خصوصی انعام
محترم قارئین کرام! بیان کردہ اَحادیثِ مُبارَکہ میں روزہ کی کئی
خُصُوصِیّات ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ کتنی پیاری بِشارت ہے اُس روزہ دار کے
لئے جس نے اِس طرح روزہ رکھا جس طرح روزہ رکھنے کا حق ہے۔یعنی کھانے پینے
اور جِماع سے بچنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام اَعْضاء کو بھی گُناہوں سے باز
رکھا تو وہ روزہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے فَضْل وکرم سے اُس کیلئے تمام
پچھلے گُناہوں کا کَفَّارہ ہو گیا۔اور حدیثِ مُبارَک کا یہ فرمانِ عالیشان
تَو خاص طور پر قابِلِ تَوجُّہ ہے جیسا کہ سرکارِنامدار، بِاِذنِ پَر
وَردگار، دوعالَم کے مالِک ومُختار، شَہَنشاہِ اَبرار صلَّی اللہ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے پروَردگارعَزَّوَجَل کا فرمانِ خوشگوار سُناتے ہیں
''فَاِنَّہ، لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ''۔یعنی روزہ میرے لئے ہے اور اِس
کی جَزا میں خود ہی دُوں گا ۔ حدیثِ قُدسی کے اِس ارشادِ پاک کو بَعض
مُحَدِّثِینِ کرام َرحِمَہُمُ اللّٰہُ تعالٰی نے ، ''اَنَا اُجْزیٰ
بِہٖ،بھی پڑھا ہے جیسا کہتفسیرِ نعِیمی وغےرہ میں ہے تَو پھر معنٰی یہ ہوں
گے،'' روزہ کی جَزا میں خُود ہی ہوں۔'' سُبْحٰن اللّٰہ!عَزَّوَجَل یعنی
روزہ رکھ کر روزہ دار بَذاتِ خود اللّٰہ تَبارَک وَ تعالٰی ہی کو پالیتا ہے۔
نیک اعمال کی جزا جنت ہے
محترم قارئین کرام! قُرآن کریم میں مختلف مَقامات پر بیان ہُوا ہے کہ جو
اچّھے اَعمال کرے گا اُسے جنّت مِلے گی ۔ چُنانچِہ اللّٰہ تبارَکَ وَ
تَعالٰی(پارہ ٣٠ سورۃُ الْبَیِّنَہ کی آیت نمبر ٧ اور٨ )میں ارشاد فرماتا
ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصَّلِحٰتِلا اُولٰۤئِکَ ھُمْ خَیْرُ
الْبَرِیَّۃِ 0 جَزَآؤُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ
تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآاَبَدًاط رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْ
وَرَضُوْا عَنْہط ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رََبَّہ، 0
(پ ٣٠ ، البینۃ ٧،٨)
ترجَمہ کنزالایمان:بے شک جو ایمان لائے اور اچّھے کام کئے وُہی تمام مخلوق
میںبہتر ہےں۔اُن کا صِلہ اُن کے ربّ کے پاس بَسنے کے باغ ہیں ،جن کے نیچے
نہریں بَہیں،اُن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں۔اللہ(عزوجل) اُن سے راضِی اور وہ اُس
سے راضی ۔یہ اُس کیلئے ہے جو اپنے ربّ سے ڈرے۔
غیر صحابی کےلئے ''رضی ا للہ تعالیٰ عنہ'' کہنا کیسا؟
محترم قارئین کرام ! یہ بات بالکل غَلَط ہے کہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنا
لکھنا صِرف صَحابی کے نام کےساتھ مخصُوص ہے۔پیش کردہ آیات کے اِس آخِری
حِصّے رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرََضُوْا عَنْہُط ذٰلکَ لِمَنْ خَشِیَ
رَبَّہ،0 (ترجَمہئ کنزالایمان:اللّٰہ عَزَّوَجَل اُن سے راضی اور وہ اُس سے
راضی ۔ یہ اُس کیلئے ہے جو اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرے)نے اِس عوامی غَلط
فَہمی کو جَڑ سے اُکھاڑدیا ! خوفِ خُدا عَزَّوَجَل َّرکھنے والے ہر مؤمِن
کےلئے یہ بِشارتِ عُظمٰی ارشاد فرمائی گئی ہے کہ جو بھی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ
سے ڈرنے والا ہے وہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرََضُوْا عَنْہُ کے زُمْرَہ
میں داخِل ہے ۔ اِس میں صَحابی وغیرِ صَحابی کی کوئی تَخصیص نہیں،ہر صَحابی
اور ہر وَلی کے لئے رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھنا اور بولنا بِالکل دُرُست و
جائِز ہے ۔ جس نے ایمان کے ساتھ سرکارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی حیاتِ ظاہری میں سرکارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ایک لمحہ
بھر بھی صُحبت پائی یا دیکھا اوراس کا ایمان پر خاتمہ ہوا وہ صَحابی ہے ۔
بڑے سے بڑا ولی، صَحابی کے مرتبہ کو نہیں پا سکتا، ہر صَحابی عادِل اور
قَطْعی جنَّتی ہے ۔ان کے ساتھ جب رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھا جائے گا تو معنیٰ
یہ ہوں گے، ''اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ان سے راضی ہُوا۔'' اور جب کسی غیرِ
صَحابی کے لئے لکھا یا بولا جائے گا تو دعائیہ معنیٰ مُراد لئے جائیں گے،
یعنی'' اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اُن سے راضی ہو ۔ '' رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی
بات تو ضِمْناً آگئی دَراصل بتانا یہ مقصُود تھا کہ نَماز،حج ،زکوٰۃ ،
غُرباء کی اِمداد ، بیماروں کی عِیادت ، مَساکِین کی خَبر گیری وغےرہ تمام
اَعمالِ خَیر سے جنّت ملتی ہے۔مگر روزہ وہ عِبادت ہے، جس سے جنّت والا یعنی
خود مالِکِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ ہی مِل جاتا ہے۔کہتے ہیں،کہ
مجھے موتیوں والا چاہئے
ایک مرتبہ مَحمود غَزنوی علیہ رحمۃ القوی نے کچھ قیمتی مَوتی اپنے افسران
کے سامنے پھینکتے ہوئے فرمایا: ''چُن لیجئے اور خود آگے چل دئے۔تھوڑی دُور
جانے کے بعد مُڑکر دیکھا تو اَیاز گھوڑے پر سُوار پیچھے چلاآرہا ہے۔پوچھا
،اَیاز !کیا تجھے مَوتی نہیں چاہئیں؟ ایاز نے عَرض کی،''عالی جاہ!جو موتیوں
کے طالِب تھے وہ موتی چُن رہے ہیں،مجھے تو مَوتی نہیں بلکہ موتیوں والا
چاہیے۔''
ہم رسول اللّٰہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے
جنت رسول اللّٰہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی
اِس سلسلے میں ایک حدیثِ مُبارَک بھی مُلاحَظہ فرمائیے۔حضرتِ سَیِّدُنا
رَبِیعہ بن کَعب اَسْلَمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، ایک مرتبہ میں
نے حُضُور ،سَراپا نُور،فیض گَنجور، شاہِ غَیُورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کووُضُو کروایا تو رَحْمۃٌ لِّلْعٰلَمِین صلَّی اللہ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خوش ہو کر ارشاد فرمایا: سَلْ رَبِیعَۃُ!یعنی
رَبِیعَہ ! مانگ کیا مانگتا ہے؟ حضرت رَبِیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عَرض
کی، اَسْئَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃ، یعنی سرکار صلَّی اللہ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم جنَّت میں آپ کی رَفاقت (یعنی پڑوس )چاہئے۔(گویا عَرض
کررہے ہیں)
تجھ سے تجھی کو مانگ لوں توسب کچھ مل جائے سو سُوالوں سے یِہی ایک سُوال
اچّھا ہے
دریائے رَحمت مزیدجوش میں آیا اور فرمایا، ''اَوَغَیْرَ ذلِکَ؟ یعنی کچھ
اور مانگنا ہے؟'' میں نے عرض کی،''بس صِرف یہی۔''(یعنی یارسولَ اللہ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! جنّتُ الفِردُوس میں آپ صلی اللہ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا پڑوس مانگنے کے بعد اب دُنیا و عُقبٰی کی اور کونسی
نِعمت باقی رَہ جاتی ہے جسے مانگا جائے! )
تجھ سے تُجھی کو مانگ کر مانگ لی ساری کائِنات
مجھ سا کوئی گَدا نہیں،تجھ سا کوئی سَخی نہیں
جب حضرتِ سَیِّدُنا رَبِیعہ بِن کَعْب اَسْلَمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنَّت
کی رَفاقت (پڑوس) طَلَب کرچکے اور مزید کسی حاجَت کے طَلَب کرنے سے اِنکار
کردیا تواِس پر سرکارِنامدار، بِاِذنِ پروَردگار دوعالَم کے مالِک ومُختار،
شَہَنشاہِ اَبرار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
'' فَاَعِنِّیْ عَلٰی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْد''یعنی ا پنے نَفس پر
کثرتِ سُجُود( یعنی زِیادہ نَوافِل) سے میری مدد کر۔
(صحےح مسلم ،ص٢٥٣،حدیث٤٨٩)
(یعنی ہم نے تمہیں جنَّت تو عطا کرہی دی اب تم بھی بطورِ شُکرانہ نَوافِل
کی کثرت کرتے رہو۔)
جو چاہو مانگ لو!
سُبحٰنَ اللّٰہ ! سُبحٰنَ اللّٰہ ! سُبحٰنَ اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ اِس
حدیثِ مُبارَک نے تَو ایمان ہی تازہ کردیا ۔ حضرت سَیِّدُنا شیخ
عَبدُالحَقّ مُحَدِّث دِہلوی علیہ رَحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں، سرکارِ
مدینہ، سلطانِ باقرینہ ، قرارِ قلب وسینہ ، فیض گنجینہ، صاحِبِ مُعَطَّر
پسینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بِلاکسی تَقْیِیْد
وتَخْصِیص مُطْلَقاً فرمانا ، سَلْ؟ یعنی مانگ کیا مانگتا ہے؟اِس بات کو
ظاہِر کرتا ہے کہ سارے ہی مُعامَلات سرورِ کائنات، شاہِ موجودات صلَّی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارَک ہاتھ میں ہیں،جو چاہیں جس کو چاہیں
اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کے حُکْم سے عطا کردیں ۔عَلّامہ بُوصیری رحمۃُ اللہ
تعالیٰ علیہ قصیدہئ بُردہ شریف میں فرماتے ہیں ؎
فَاِنَّ مِنْ جُوْدِکَ الدُّنْیَا وَضَرَّتَھَا
وَمِنْ عُلُوْمِکَ عِلْمَ اللَّوْحِ وَالْقَلمٖ
یعنی ،یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! دُنیااور
آخِرت آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی کی سَخاوت کا حِصّہ ہے
اور لَوْح وقَلم کا عِلم تَو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
عُلُومِ مُبارَکہ کا ایک حِصّہ ہے۔ ؎
اگرخیریت دُنیا و عُقْبٰی آرزُوداری
بَدَرْگاہَش بیَادِ ہَر چِہ مَنْ خَواہی تمنّا کُن
یعنی دُنیا وآخِرت کی خَیر چاہتے ہو تو اِس آستانِ عَرش نِشان پر آؤ اور جو
چاہو مانگ لو!
(اَشِعَّۃُ اللَّْمعات ،ج١،ص٤٢٤،٤٢٥)
خالِقِ کُل نے آپ کو مالِکِ کُل بنادیا
د ونوں جہان دے دئےے قبضہ واِختیار میں
فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
یا اللہ عزوجل ماہ رمضان کے طفیل برما کے مسلمانوں
کی جان و مال ،عزت آبرو کی حفاظت فرما۔اٰمین
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم وعنایت سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے |