جب سور ج طلوع ہوتاہے تو
اس کی کرنیں چار سو ظلمت کے اندھیروں کو چاک کرکے ضوء و ضیاء کی رعنائیاں
بکھیرتی ہیں ،ہرچیز واضح اور صاف دکھائی دینے لگتی ہے ۔جو اوجھل تھاظاہر
ہوگیا۔ایسے ہی اس آنی جانی دنیا میں ایسی ہستیاں جلوہ فروز ہوئیں جن پرفضل
ربّ کی چھاچھماچھم مینہ برسی کے ان کے وجودِ مسعود سے انسانیت کے لیے فیض و
برکات کے دریاپھوٹ پڑے ایسی ہی نابغہ ئ روزگار ہستی امام مہدی رضی اللہ
تعالیٰ عنہ ہیں ۔
آئیے :اپنے دلوں کی صحراماند زمین کو نیک و پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے چشمہ
سے سیراب کرتے ہیں ۔
(حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ)
نام مبارک:
حضرت امام محمدبن حسین بن علی بن محمدبن علی رضا آئمہ الہدیٰ میں سے
بارھویں امام ہیں۔
کنیت ولقب:
آپ کی کنیت ابوالکلام ہے اور آپ کو مندرجہ ذیل القابات سے پکاراجاتا ہے
الامام بالحجۃ،المہدی ،المنتظراور صاحب زماں۔
والدہ محترمہ کانام:
آپ کی والدہ امِّ ولد تھیں ان کانام صیقل یا سوسن تھا اور نرجس بھی کہا
جاتا تھا اور ان کے اور بھی بہت سے نام تھے۔
ولادتِ با سعادت:
آپ نے ٢٥٨ہجری ٣٠ رمضان المبارک کو سرمن رائے میں تولد کیا۔
بوقتِ حمل کے مناظر:
حکیمہ عمّہ ابو زکی رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کی ایک روز میں حضرت ابو
محمد رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے فرمایا۔
اے عمّہ: آج شب ہمارے ہاں قیام کرو کیونکہ آج رات اللہ تعالیٰ ہمیں کچھ عطا
کرے گا یعنی ہمارے ہاں کچھ پیدا ہوگا۔
میں نے کہا :حضرت یہ بچہ کس سے پیدا ہوگا۔ جبکہ حضرت نرجس سے توحمل کے کوئی
آثار ہی نظر نہیں آتے،،۔
آپ نے فرمایا: اے عمّہ نرجس کی مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ جیسی
ہے اس لیے ان کا حمل ولادت سے پہلے ظاہر نہیں ہوگا،،۔
حضرت عمّہ نے کہا: میں نے وہ رات وہیں کاٹی جب آدھی رات ہوئی تو میں نے
اُٹھ کر نمازِ تہجد ادا کی اور حضرت نرجس نے تہجد کے نفل ادا کئے۔
میں نے دل ہی دل میں کہا کہ صبح ہونے کوہے مگر جو حضرت ابو محمد رضی اللہ
عنہ نے فرمایا ہے اس کے آثار نظر نہیں آتے حضرت ابو محمد نے مجھے آواز دی۔
اے عمّہ جلدی مت کرو،،۔
میں اسی کمرے میں جس میں حضرت نرجس تھی واپس چلی گئی۔ آپ مجھے راستے میں
ملیں آپ پر لرزہ طاری تھا۔ میں نے انہیں پکڑ کر سینے سے لگایا اور قل ھو
اللہ احد ، انا انزلناہ ، آیۃ الکرسی پڑھ کر آپ پر دم کیا۔ آپ کے شکم سے
آواز سنائی دی۔
جو کچھ میں نے پڑھا تھا آپ کے بچے نے بھی وہی پڑھا۔پھر میں نے مشاہدہ کیا
کہ تمام گھر نور سے منور ہوگیا اور حضرت نرجس کا بچہ زمین پر سربسجودہے۔
میں نے بچے کو اٹھا لیا تو حضرت ابو محمد نے اندر سے آواز دی۔ اے عمّہ میرے
بچے کو میرے پاس لاؤ۔میں بچہ ان کے پاس لے گئی ۔آپ نے بچے کو اپنی گود میں
بٹھا کر اپنی زبان اس کے منہ میں ڈال کر فرمایا۔ اے میرے بچے بحکم الہی
گفتگو کر،،۔ پس بچے نے کہا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم وزیدان من علی الذین استضفعوا فی الارض ونجعلھم
الوارثین۔
ترجمہ: اللہ کے نام سے شروع جو رحمن و رحیم ہے اور زیادہ کیا ان لوگوں کو
جو کمزور ہیں ہم اس کو امام اور وارث بنائیں گے۔
بعد ازاں میں نے دیکھا کہ سبز پرندوں نے مجھے پکڑ لیا ہے۔حضرت ابو محمد رضی
اللہ عنہ نے ایک سبز پرندے سے فرمایا۔ اسے پکڑ کراس کی حفاظت کرو یہاں تک
کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس بارے میں حکم دے اللہ ہی اس امر کو پہنچانے والا
ہے۔''
میں نے حضرت محمد سے دریافت کیا۔
یہ دوسرے پرندے ہیں۔
آپ نے فرمایا۔
'' یہ حضرت جبرئیل ہیں اور دیگر رحمت کے فرشتے ہیں۔''
پھر فرمایا۔
'' اے عمہ اسے اس کی ماں کے پاس واپس لے جاؤ'''
اور تو آنکھوں کی ٹھنڈک حاصل کر اور غم نہ کر اور یہ معلوم ہونا چاہیے کہ
اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے، لیکن اکثر لوگ اسے جانتے ہیں۔
حضرت عمہ آپ کو آپ کی ماں کے پاس لے گئی، جب آپ کا تولد ہوا تو آپ ناف
بریدہ اور ختنہ شدہ تھے ، آپ کے دائیں جانب بالشت بھرلمبائی میں یہ کلمات
مرقوم تھے۔
جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔(الایۃ)
ترجمہ : حق آیا باطل بھاگا بے شک باطل ذلیل و رسوا ہونے والا ہے۔
پھر انہی سے مروی ہے کہ بوقت تولد آپ زمین پر دو زانو حالت میں تھے اور
شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے تھے، آپ نے چھینک لیتے ہوئے کہا۔
الحمدللہ رب العلمین
ترجمہ : تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سارے جہان کا رب ہے۔
ایک شخص نے بیان کیا کہ میں ابو محمد زکی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر
ہوا اور کہا۔
'' اے ابن رسول اللہ آپ کے بعد منصب ِ خلافت اور منصبِ امامت کون اداکرے
گا۔
آپ یہ سن کر اندر تشریف لے گئے اور اندر سے ایک بچہ کندھے پر اٹھا کر لے
آئے، بچہ ایسا تھا جیسا کہ چودھویں رات کا چاند ہوتا ہے، بچہ کی عمر تین
سال کے قریب تھی آپ نے اس آدمی سے فرمایا۔
'' دیکھو اگر تم اللہ تعالیٰ کے نزدیک صاحبِ عظمت نہ ہوتے تو میں تجھے ہر
گز اس بچہ کی زیارت نہ کرواتا۔ اس کا نام نبی پاک کے نام پر ہے، اور اس کی
کنیت یہ ہے۔
ھوالذی یملاء الارض قسطاً لما ملئت جوراً وظلما
٭٭
راز کی بات راز میں رکھنا :
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص نے بیان کیا کہ خلیفہ معتضد نے مجھے دو اور
افراد کے ہمراہ بلوایا اور کہا حسن بن علی سرمن رائے میں وصال فرماچکے ہیں،
اس لیے جلدی جاؤ اور ان کے گھر میں جس فرد کو بھی دیکھو اس کا سر میرے پاس
لے آؤ۔
ہم آپ کے مکان میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ مکان نہایت صاف ستھرا اور پاکیزہ
تھا یہاں تک کہ ابھی ابھی اس کو بنا کر فراغت حاصل کی تھی۔ ہم نے اس مکان
پر پردہ پڑا ہوا پایا۔ پردہ اٹھایا تو وہاں ایک گڑھا نظر آیا۔ جب نزدیک
پہنچے تو یہ گڑھا نظر نہ آیا۔ اس کے اوپر بوریا بچھا ہوا تھا اور ایک نہایت
حسین وجمیل شخص اس پر قیام کیے نماز میں مصروف تھا اس نے ہماری طرف توجہ نہ
کی، میرے رفقاء میں سے ایک آگے ہوا کہ اس تک پہنچ جائے لیکن وہ پانی میں
ڈوب کر پھڑکتا رہا۔ آخر میں نے اس کا ہاتھ پکڑا تو وہ ڈوبنے سے محفوظ
ہوگیا۔ ازاں بعد ایک اور آدمی نے آپ تک پہنچنے کی سعی کی ، لیکن اس کا
انجام بھی ایسا ہی ہوا اور میں نے اسے نجات دلوائی، میں حد سے زیادہ حیران
و پریشان ہوا، میں نے گھر والے سے معافی کی درخواست کرتے ہوئے کہا۔
'' قسم بخدا میں اس سے پہلے آگاہ نہیں تھا اور نہ معلوم تھا کہ ہم کہاں
آرہے ہیں، میں نے جو کچھ کیا اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرکے معذرت
خواہ ہوں۔''
میں نے جو کچھ کہا اس نے اس کی پروا نہ کی ، پھر ہم معتضد کے پاس واپس چلے
گئے اور تما م و اقعہ کہہ دیا معتضد نے یہ سب کچھ سن کر کہا:
'' اس راز کو پوشیدہ رہنے دیجئے۔ اگر یہ بات لوگوں کے پاس پہنچ گئی تو
تمہاری گردن اڑا دی جائے گی۔''
ان سب حالات سے دیگر اہلِ قراء کو ان کی شانِ جلالت کا علم ہوگیا ہوگا۔
(٭٭٭)
قارئین کرام :ہم تذکرۃ الصّالحین کرتے چلے آرہے ہیں ۔ لیکن ایک بات ان سب
ہستیوں میں کامن تھی ۔ایک جیسی تھی ۔بتائیں وہ کیا؟چلیں میں بتاتاہوں ۔وہ
یہ کہ ان سب پر ربّ کافضل تھا۔اور جس پر ربّ کا فضل ہو وہ دنیا میں بھی
سرخرو اور آخرت میں بھی سرخرو ۔لہذا ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہم فضل رب
کے متلاشی ہوجائیں ۔جس جس کام میں ،جس جس جگہ سے ہمیں میسرآئے لے لیں
۔یقینا آپ چونک گئے ہوں گئے کہ فضل ربّ کہاں سے ملے گا۔
قارئین کرام:ہروہ کام جس کا ربّ نے کرنے کا حکم دیااس کی بجاآوری اور جس سے
منع کیا اس سے اجتناب تو ان شا ء اللہ عزوجل :ہم بھی ربّ تعالٰی کافضل
پانیں والوں میں شمار ہوں گئے ۔آپ علم رکھتے ہیں ۔اچھاہے لیکن اگر آپ چاہتے
ہیں کہ اچھا،بہتر اور بہترین ہوجائے تو پھر اپنے علم پر عمل کے دھنی بن
جائیں ۔فقط وعظ و نصیحت سننے اور سنانے پر اکتفاء کچھ خاص نفع بخش ثابت نہ
ہوگاجب تک اس میں عمل کی شیرنی شامل نہ کی جائے ۔اسلیے تو شاعر نے کہا:
واشعار پڑھنا، وعظ سنانا تو سہل ہے
شکلوں سے احتیاط ہی مشکل ہے دوستو
اس عہد میں وہ مردِ مجاہد سے کم نہیں
ماحول کے جو مدِ مقابل ہے دوستو
جو اپنے ملکِ جسم پہ کر دے نفاذِ دیں
وہ شخص بھی تو حاکمِ عادل ہے دوستو
آسان ہے عبادت و طاعت کا التزام
بچنا مگر گناہ سے مشکل ہے دوستو
ہو کیوں نہ ایک جست میں راہِ سلوک طے
رہبر جو میرا بالغِ منزل ہے دوستو
اس کے غمِ فراق کا نالہ ہے خود گواہ
وہ ربِ کائنات سے واصل ہے دوستو
دکھلائیں رشکِ مہر کو مدحت کے ہم چراغ جرات ہماری دید کے قابل ہے دوستو |