آپریشن `بے گھر لوگ اور انکی حالت ذار

گھر سے بے گھر ہونا کا عذاب کتنا تکلیف دہ عمل ہے اس کا اندازہ بے گھر لوگوں سے بخوبی کیا جاسکتا ہے اور یہ دکھ اس وقت بھی زیادہ ہو جاتا ہے جب گھر ہونیوالے افراد کے چھوٹے بچے یا پھر ان کی جواں سال بہنیں / بیٹیاں بھی بے گھر ہونے کے عمل میں ایک شریف آدمی کیساتھ ہوں اور وہ بے سروسامانی کے عالم میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوں-ہمارے معاشرے میں جہاںپر ہر شریف آدمی کا جینا تو ویسے بھی محال ہے ایسے میں اگر کوئی شریف اور غریب آدمی بے گھر ہو جائے اور جولائی کے ان سخت گرمیوں میں خیموں میں قیام پذیر ہوں اور ان کیلئے بنیادی ضروریات نہ ہوں توپھر وقت کیسے گزرتا ہے یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنے کیلئے ہم سب کو بطور شہری اور جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں سوچنا ہوگا-

تین سال قبل جب سیکورٹی فورسز نے باڑہ میں آپریشن شروع کردیا اور کرفیو کا نفاذ شروع کردیا تو ہزاروں کی تعداد میں بے سروسامان کی عالم میں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ گئے صاحب حیثیت لوگوں نے پشاور اور اس کے گرد و نواح کا رخ کرلیا جبکہ"باڑہ میںغریب و خوار لوگوں " نے جلوزئی کا رخ کرلیا- آپریشن کرنیوالے کون ہیں اور کیوں کررہے ہیں اس پر بحث نہیں کی جاسکتی لیکن آپریشن کرنے والوں سے یہ پوچھا تو جاسکتا ہے کہ یہاں حالات یکدم خراب تو نہیں ہوئے بلکہ خرابی کا سلسلہ پہلے سے جاری تھا اور اگر یہ سلسلہ پہلے سے جاری تھا تو ان کی انٹیلی جینس ایجنسیاں جن کی تنخواہیں ہم جیسے غریبوں کا گلہ گھونٹ کر ٹیکس لیکر ادا کی جاتی ہیں ان کی اس دوران کارکردگی کیا تھی اور انہوں نے کیا رپورٹیں سیکورٹی اداروں کو دی تھی اور اگر ان کی غلطی نہیں تھی تو کس کی غلطی تھی جس کی وجہ سے آج ہزاروں کی تعداد میں غریب خوار ہورہے ہیں جن کی غلطی ہے انہیں کیا سزا دی گئی -یہ ایک ایسا سوال ہے جو آج تک"وردی والوں " سے کوئی پوچھنے کی ہمت نہیں کرسکا ہے -کیونکہ اس طرح کی باتیں" ملکی مفاد"میں آجاتی ہیں - جو ہم جیسے لوگ پوچھ نہیں سکتے-

بات ہورہی تھی آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونیوالے افراد کی ` یہ بے گھر افراد کن حالات سے دوچار ہے کوئی اندازہ ہی نہیں کرسکتا - پہلے تو ان کی جلوزئی میں رجسٹریشن نہیں ہورہی تھی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ایسے لوگ میں نے بذات خود دیکھے ہیں جو دوسرے لوگوں کے خیموں میں رہائش پذیر ہیں کیونکہ ان کے علاقے میں آپریشن تو نہیں لیکن وہ لوگ اپنی عزت و ناموس کی خاطر علاقہ چھوڑ گئے ہیں لیکن پی ڈی ایم اے میں بیٹھے ہوئے زمینی خدائوں کو صرف " ائیر کنڈیشنڈ میں بیٹھنے "والوں کے آرڈر سمجھ آتے ہیں - پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے رمضان سے قبل ان متاثر ین کو تمام بنیادی سہولیات کی فراہمی کے احکاماتی جاری کردئیے تھے جس کی یقین دہانی ہوم سیکرٹری نے عدالت عالیہ میں کروا دی تھی اور کہا تھا کہ پی ڈی ایم اے کو سیلاب کے خطرات کا سامنا ہے اس لئے فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی یہ کام رمضان سے قبل کرلے گی -لیکن ہمیں پتہ نہیں کہ انہوں نے کونسا رمضان المبارک کا ذکر کیا تھا ابھی جو چل رہا ہے یا پھر آنیوالے رمضان المبارک کا کیونکہ ان کی حالت تو ویسے ہی ہے-

ہزاروں کی تعداد میں اپنے ہی وطن میں بے گھر ہونیوالوں کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خیموں میں مقیم متاثرین خیبر ایجنسی کو تین دن بعد ایک کلو /اور کبھی کبھار آدھ کلو برف پانی ٹھنڈا کرنے کیلئے ملتا ہے سخت گرمی میں ان متاثرین کو باڑہ کے متاثرین کی اپنی ایک تنظیم روزانہ 75بلاک برف لیکر تقسیم کرتی ہے جو مختلف سیکٹروں کے لوگوں کو ملتا ہے برف روزانہ آتا ہے لیکن چونکہ لوگ زیادہ ہے اس لئے تین دن بعدہر ایک متاثر کا نمبر آتا ہے برف کی تقسیم کا منظر اتنا دردناک ہے کہ کوئی صاحب دل شخص اسے دیکھنے کی ہمت بھی نہیں کرسکتا دو سال سے لیکر پانچ سال تک معصوم بچے جن کے پائوں میں چپل بھی نہیں ہوتے برف کیلئے کیسے خوار ہوتے ہیں اس کا اندازہ گھروں میں ٹھنڈے ائیر کنڈیشنر اور ریفریجریٹر کا برف استعمال کرنے والے لوگ نہیں کرسکتے ایسے ہی خواتین اور بوڑھے بھی برف کیلئے خوار ہوتے ہیں-اگر یہ معصوم بچے / خواتین / بوڑھے ہمارے نہیں ہوسکتے -کیا نیلی چھت والا ان لوگوں کو بے گھر کرسکتا ہے تو پھر ہم جیسوں اور " ایزی لوڈ"والے کیا آسمان سے اترے ہوئے ہیں -

پی ڈی ایم اے /ایف ڈی ایم اے جو متاثرین کی امداد کے دعوے کرتی ہیں ان کا حال یہ ہے کہ انہوں نے متاثرین کیلئے امداد تو درکنار انہیں رمضان کے مہینے میں کھجوریں دینا بھی گوارہ نہیں کیا جبکہ انہیں دی جانیوالی دال کے دو پیکٹ بھی آدھے کرلئے چینی اور چائے تک ان متاثرین کو نہیں دی جارہی - ان حالات میں خیبر ایجنسی سے اپنوں کے ہاتھوں بے گھر ہونیوالے یہ متاثرین اگر یہ بات کرتے ہیں جو کہ سچ بھی ہیں کہ اگر قبائل ہونا جرم ہے تو انہیں اس جرم کی سزا روزانہ دینے کے بجائے انہیں یکدم دی جائے اور انہیں ختم کیا جائے تاکہ وہ روز روز کی ذلتوں سے بچ سکیں -

ان بے گھر اور خانماں برباد لوگوں کیلئے وزیراعلی نے کجھوریں دینے کا بھی اعلان کیا جو ابھی تک انہیں نہیں ملا اور کو ئی پوچھنے والا نہیں کہ ان کیلئے آنیوالا امداد کہا جارہا ہے - گذشتہ دنوں سعودی عرب سے ہمارے لئے " خیرا ت "آگیا جو کہ اخبارات میں بھی آچکا ہے جو دینے والے ہیں وہ عاجزی کیساتھ کھڑے ہیں جبکہ جو خاتون وزیر " خیرات لے" رہی ہیں انہوں نے " سن گلاسز" ایسے سٹائل سے پہنی ہیں جیسے وہ خیرات لے نہیں دے رہی ہوں - خیرکیا پتہ موصوفہ اپنی شرم کو چھپا رہی ہوں ان "کالے چشموں" کی آڑ میں -خیرخیبر ایجنسی کے جلوزئی میں مقیم متاثرین پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ان کے نام پر آنیوالا کھجوریں کہاں گئی کیونکہ چند مخصوص لوگوں میں تقسیم کرکے اور ان کی تصاویر لیکر ویب سائٹس/اخبارات میں دینے سے کام نہیں چلتا-

اپنے گھروں میں آرام سے افطاری اور سحری کرنے والے ہم جیسے لوگ بھی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں جو اپنے حکمرانوں سے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں رکھتے کہ آخر کاران کے اپنے " پیٹ" کب بھریں گے اور متاثرین کی نام پر آنیوالا خیرا ت کب تک یہ لوگ اپنے گھروں میں لے جاتے رہیں گے ویسے آپ کی بات ہے کہ خیرات خور ہم سے زیادہ ان محکموں میں بیٹھے ہیں جو اپنے گھروں میں پہلے راشن پہنچاتے ہیں اور بعدمیں اپنے محکموں کے اعلی حکام کو -انہیں اور حکمرانوں کو ہم جیسے غریب عوام سے اس وقت محبت ہوتی ہے جب یہ لوگ ووٹ ڈالنے کیلئے آتے ہیں ویسے غریب عوام کی عام دنوں میں کوئی اوقات نہیں -
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 425769 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More