طب کی پر مغز بات

طب کی پر مغزبات

حجاج الثقفی نے ایک طبیب سے کہا:’’ مجھے طب کی پر مغزبات بتائو‘‘
اس نے کہا:
’’شادی صرف نو خیزلڑکی سے کرو، گوشت صرف جوان جانور کا کھائو، جب دوپہر کا کھانا کھائو تو سو جائو اور جب شام کا کھانا کھائو تو چلو، اگرچہ تمہیں کانٹوں پر چلنا پڑے، جب تک پیٹ کی پہلی غذا ہضم نہ کر لو دوسرا کھانا نہ کھائو، جب تک بیت الخلا ئ نہ جائو سونے کے لئے بستر پر نہ آئو، پھلوں کے نئے موسم میں پھل کھائو، جب ان کا موسم جانے لگے اس وقت پھل کھاناچھوڑدو‘‘۔﴿الأبشیھی: المستطرف۲/۷۷۲

حجا اور اس کا گدھا
حجابازار گیا،وہاں اس نے ایک گدھا خریدا، جسے اس نے رسی سے باندھا اور اپنے پیچھے لے کر چلنے لگا، دو چور اس کے پیچھے لگ گئے، کچھ آگے چل کر ایک چور نے گدھے کی گردن سے رسی نکال کر اپنی گردن میں ڈال لی، جبکہ دوسرا گدھا لے کر نکل بھاگا، حجا کو اس ساری کا رروائی کی ہواتک نہ لگی، جب اس نے اپنے پیچھے دیکھا تو اسے گدھے کی جگہ انسان رسی میں بندھا نظرآیا ، اس نے تعجب سے کہا:’’گدھا کہاں گیا؟‘‘ چورنے نے کہا:’’میں ہی گدھا ہوں ’’حجا نے کہا:’’ یہ کیسے ہوا؟’’ چور نے جواب دیا: میں نے اپنی والدہ کی نافرمانی کی، اس نے مجھے بددعا دی کہ اللہ تجھے گدھا بنا دے،صبح جب میں نیند سے بیدار ہوا تو سچ مچ گدھا بن چکا تھا، پھر مجھے بازار لے جا کر اس شخص کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا جس سے آپ نے مجھے خریدا ہے اور اب اللہ کا شکر ہے کہ میری ماں مجھ سے راضی ہو گئی ہے اور میں دوبارہ انسان بن گیا ہوں،‘‘حجا نے لاحول پڑھتے ہوئے کہا:’’ میں تجھ سے کیسے خدمت لوں جبکہ تو انسان بن چکا ہے ،جا، اپنی زندگی کے راستوں پر لوٹ جا‘‘ اس نے اس کی گردن سے رسی کھول دی اور ناصحانہ انداز میں مزید اس سے کہا:’’آئندہ کبھی بھی اپنی ماں کی نافرمانی نہ کرنا ،اسے غصہ نہ دلانا، میرا کیا ہے، اللہ مجھے اس سے بہتر بدلہ دے دے گا‘‘۔دوسرے ہفتے حجا پھر گدھا خریدنے بازار گیا، اسے وہی گدھا نظر آیا جو گذشتہ ہفتے وہ خرید چکا تھا، وہ اس کے ذرا قریب ہوااور اپنا منہ اس کے کان پر رکھ کر بولا:’’اے منحوس!تونے دوبارہ اپنی ماں کی نافرمانی کی ہے، میں نے تجھ سے کہا نہیں تھا کہ والدہ کو غصہ نہ دلانا؟ بے شک تو اسی کا مستحق ہے جو تیرے ساتھ ہو رہا ہے‘‘۔﴿فراج:اخبارجحا،ص۴۶﴾

برجستہ گوئی
کچھ غلام روشن خیالی،برموقع،برمحل برجستہ گوئی اور حاضر جوابی میں مشہور ہوتے ہیں، اسی سلسلہ میں سعید یحییٰ الأ موی اپنے باپ سے ایک حکایت بیان کرتے ہیں ان کے والد یحییٰ الا موی کہتے ہیں:’’ایک زمانے میں قریشی نوجوان تیراندازی کیا کرتے تھے، ایک دن سیدنا ابو بکر صدیق و سیدنا طلحہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما کی اولاد میں سے ایک نوجوان نے تیر پھینکا جو ٹھیک نشانے پر لگا، اس نے کہا:’’انا ابن عظیم القریتین‘‘﴿ میں مکہ اور مدینہ کے بڑے آدمی کا بیٹا ہوں﴾ اس کے بعد خاندان عثمان(رض) میں سے ایک نے تیر مارا نشانے پر لگا، اس نے کہا:’’ انا ابن الشھید‘‘﴿ میں شہید یعنی عثمان (رض) کا بیٹا ہوں﴾ پھر ایک غلام نے تیر پھینکا، وہ بھی عین نشانے پر لگا، اس نے کہا:’’ انا ابن من سجدت لہ الملائکۃ‘‘ ﴿ میں اس شخص کا بیٹا ہوں جسے فرشتوں نے سجدہ کیا﴾ لوگوں نے اس سے کہا:’’ وہ کون ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا:’’آدم‘‘﴿تمام انسان آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام کو تمام فرشتوں نے بحکم خداوندی سجدہ کیا تھا﴾﴿ابن الجوزی: اخبارالاذکیائ،ص۰۵۱﴾

ایک سائل اور بھنی ہوئی مرغی
منقول ہے کہ ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کھانے میں مشغول تھا، ان کے سامنے ایک بھنی ہوئی مرغی رکھی تھی، اچانک دروازے پر دستک ہوئی، شوہر نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک فقیر کاسۂ گداگری پکڑے صدالگارہا تھا، شوہر نے اسے سختی سے جھڑکا تو وہ چلا گیا، کچھ عرصہ بعد ایسا اتفاق ہوا کہ یہ شوہر قلاش ہوگیا، اس کے پاس کچھ نہ رہا اوربیوی کو اس نے طلاق دیدی،بیوی نے عدت پوری کرنے کے بعد دوسرے آدمی سے شادی کر لی، ایک دن یہ دوسرا شوہر بیوی کے ہمراہ کھانا کھا رہا تھا، ان کے سامنے سجی﴿بھنی ہوئی مرغی﴾ رکھی تھی ،اچانک دستک ہوئی، آدمی نے بیوی سے کہا: ’’دروازے پر سائل کھڑا ہے ،یہ مرغی اسے دیدو‘‘ عورت باہر گئی تو کیا دیکھا، وہ اس کا پہلا شوہر کھڑا تھا، اس نے مرغی اسے دی اور روتے ہوئے واپس لوٹ آئی،شوہر نے اس کے رونے کاسبب پوچھاتواس نے کہا: ’’سائل‘‘ ﴿مانگنے والا﴾ اس کا پہلاشوہرتھا، اور اسے اس نے اپنا وہ قصہ سنایا کہ ایک سائل کو اس نے کس طرح جھڑکا تھا’’ اس کے شوہر نے کہا:اناواللّٰہ ذلک السائل
’’بخدا! ﴿اس دن﴾ وہ سائل ﴿کوئی اور نہیں﴾ میں ہی تھا﴿الأبشیھی:المستطرف۱/۴۱﴾
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 166598 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More