ماہِ رمضان پھر ہماری زندگی کا
حصہ بنا ہے۔ اب کے رمضان عجیب موڑ پر آیا ہے۔ قومی سیاست میں بہت کچھ ہے جو
رمضان کے باعث تھم سا گیا ہے۔ قومی سطح پر ہماری عادت ہے کہ ہفتے کے کسی
بھی دن پیدا ہونے والے مسئلے کا حل کیا جانا پیر تک موقوف رکھتے ہیں۔ یہی
حال رمضان کا ہے۔ اگر رمضان سے ذرا پہلے کوئی بحران رونما ہو تو اُس کا حل
عید کے بعد پر موخر کردیا جاتا ہے۔ سیاست میں اچھا خاصا اتار چڑھاؤ پیدا
ہوچلا تھا۔ قوم ایک بار پھر خلجان میں مبتلا ہونے کے لیے نفسیاتی طور پر
تیار بیٹھی کہ رحمتوں کا مہینہ وارد ہوا اور لوگوں کو پریشانی سے بچالیا!
مِرزا تفصیل بیگ رمضان کے دوران خاموش رہتے ہیں۔ بعض احباب یہ سمجھ بیٹھتے
ہیں کہ شاید اُنہیں ایک ماہ کے لیے قید کردیا جاتا ہے۔ اور دوسرے بہت سے
احباب کے خیال میں تو اُنہیں سال بھر میں صرف ایک آدھ مہینے ہی کے لیے آزاد
کیا جانا چاہیے!
کل ہم مِرزا سے ملنے اُن کے گھر گئے تو روزے تھے یعنی بھرے بیٹھے تھے۔ ایسی
حالت میں لوگ اُن کے نزدیک جانے سے اجتناب برتتے ہیں۔ ہم نے سوچا ماہِ رحمت
ہے، شاید وہ اپنے آپ پر کچھ قابو پائیں اور سیاست پر گفتگو سے پرہیز کریں۔
مگر افسوس کہ اِس بات بھی ہمارے اندازے کے نصیب میں غلط ثابت ہونا لکھا تھا!
سیاسی موضوعات مِرزا کے لیے گھر کی لونڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِن موضوعات
سے وہ سُلوک بھی گھر کی لونڈی کا سا روا رکھتے ہیں! جس طرح گانے میں مہارت
رکھنے والے ایک ہی سانس میں پانچویں سپتک تک پہنچ جاتے ہیں بالکل اُسی طرح
مِرزا بھی جب سیاست پر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں تو پلک جھپکتے ہیں کونسلر
آفس سے ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس پہنچ کر دم لیتے ہیں!
رمضان کے دوران مہنگائی کا رونا روئیے تو مِرزا بدکنے لگتے ہیں۔ اُن کا
شِکوہ یہ ہے کہ لوگ اب تک پھلوں، سبزیوں، آٹے دال اور روزمرہ استعمال کی
دیگر اشیاءکے مہنگے ہو جانے کا رونا رو رہے ہیں اور دوسری طرف قوم سستے میں
بیچی جارہی ہے! ہم سمجھا سمجھا کر تھک گئے کہ قوم کہیں جا رہی ہے نہ ملک۔
یہ رونا ہی بیکار ہے۔ ہم تو بچپن سے یہ گیدڑ بھپکی سُنتے آئے ہیں کہ ملک
تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے! مگر بہ چشم خود دیکھ لیجیے کہ ملک جہاں تھا
وہیں ہے۔ اور ہم بھی اپنی جگہ برقرار ہیں۔ مگر مِرزا کہاں ماننے والے ہیں۔
سیاست کے میدان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ مِرزا کو خون کے آنسو رُلاتا رہتا
ہے تبھی تو وہ اِس قدر دُبلے پتلے ہیں کہ ہم جیسے اُنہیں دیکھ دیکھ کر
کُڑھتے رہتے ہیں۔ مگر افسوس کہ صرف دِل گُھلتا ہے، جسم نہیں گُھلتا! فٹنس
کے لیے ہم اپنا خُون تو جلانے سے رہے۔ اگر خُون جلا جلاکر سُپر سلِم ہو بھی
گئے تو بعد میں طرح طرح کے قومی مسائل پر جلانے کے لیے ہم خُون کہاں سے
لائیں گے!
راجہ پرویز اشرف کے وزیر اعظم بننے سے مِرزا بہت خوش ہیں۔ جو لوگ راجہ صاحب
کی وزارتِ عُظمٰی میں کیڑے نکالنے پر تُلے رہتے ہیں اُن سے مِرزا سخت نالاں
ہیں۔ اُن کی نظر میں راجہ پرویز اشرف واحد حکومتی شخصیت ہیں جو بجلی کی لوڈ
شیڈنگ کے خاتمے کی (ناکام ہی سہی) ڈیڈ لائن دیتی ہے! کِسی اور میں اِتنی
ہمت کہاں کہ ڈیڈ لائن دے اور پھر اُس کے ناکام ہو جانے پر جواز اور توضیح
کا دریا بھی بہائے! کوئی تو ہے جو لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی ڈیڈ لائن کا اعلان
کرنے کی جرات کرسکتا ہے! اب ہم مِرزا کو کیا سمجھائیں کہ ممکنہ ناکام ڈیڈ
لائن پیش کرنے کی ہمت اور جرات تو ہم میں بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے! ملک
میں سیاسی استحکام کب تک پیدا ہوگا، یہ ڈیڈ لائن تو ہم کسی بھی وقت دے سکتے
ہیں۔ اور اس اِس کا سبب یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہے اِس ڈیڈ لائن کو ناکام ہی
ہونا ہے! مگر بھئی، مِرزا ہماری بات کا اعتبار کیوں کرنے لگے، ہم کہاں کے
راجہ ہیں، کِس ہُنر میں یکتا ہیں!
رمضان کا تقدس برقرار رکھنے کے لیے لوگ اِس ماہِ مبارک میں مِرزا سے کِسی
بھی معاملے میں بحث و تمحیص سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں! بات مہنگائی کی ہو
یا سیاست کی، مِرزا پلک جھپکتے میں ہتھے سے اُکھڑ جاتے ہیں اور پھر اُن پر
قابو پانا اُتنا ہی دُشوار ہوتا ہے جتنا قومی کرکٹ ٹیم کی فیلڈنگ کو بہتر
بنانا! مِرزا کو جب بھی موقع ملتا ہے، ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں
اور جو کچھ بھی اُس طرف سے لُڑھکایا جا رہا ہوتا ہے وہ کانوں کے ذریعے سے
دِماغ میں اُنڈیل لیتے ہیں! ذہن ہم اِس لیے نہیں کہہ رہے کہ ٹی وی پر پیش
کی جانے والی انٹ شنٹ گفتگو سُنتے رہنے سے ذہن دوبارہ دِماغ ہی کی منزل پر
پہنچ جاتا ہے! ٹی وی دیکھتے رہنے ہی سے مِرزا کی اب یہ حالت ہے کہ اُٹھتے
بیٹھتے حکومت کو ”خراج عقیدت“ پیش کرتے رہتے ہیں۔ آپ سوچیں گے کہ خراج
عقیدت تو اُنہیں پیش کیا جاتا ہے جن کا وجود مِٹ چکا ہو۔ مِرزا کی نظر میں
حکومت بھی ایک مُردہ ہی ہے!
سبزیوں، پھلوں اور آٹے دال کا کمال ہے کہ لوگوں کے پاس حکومت کی کارکردگی
پر براہِ راست تنقید کی گنجائش ہی نہیں نکل پارہی۔ پیٹ بھرنا سب سے بڑا
مسئلہ ہے۔ اِس مسئلے کے حل کی کوششوں سے فرصت ملے تو حکومت کی کارکردگی
جیسے ”چھوٹے موٹے“ معاملات پر توجہ دی جائے! مگر خیر، مِرزا کسی بھی موضوع
کو اپنا ہدف بنانے کے معاملے میں کسی بھی اُصول کے پابند نہیں۔ وہ جب بھی
کسی موضوع کو پامال کرنے پر تُلتے ہیں تو اُس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اِس
معاملے میں ذرا بھی مُروّت کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے! یہ سمجھ لیجیے کہ
ایک دریا ہے جو بہنے لگتا ہے تو پھر رُکنے کا نام نہیں لیتا۔
کِسی بھی موضوع کو ”شہید“ کرنے یا اُس کی ”واٹ“ لگانے کے عمل میں مِرزا کی
نظر سے کوئی بھی نکتہ بچ نہیں سکتا۔ بات بھنڈی اور ٹِنڈے کی ہو یا نیٹو رسد
کی۔۔ جب مِرزا لب کُشا ہوتے ہیں تو اُن کی زبان سے نکلنے والے الفاظ ہر
اُلجھے اور گُھٹے ہوئے موضوع کے لیے ”قبض کُشا“ ثابت ہوتے ہیں۔ ایسی حالت
میں مِرزا صرف سُننے ہی کی نہیں، دیکھنے کی بھی چیز ہوتے ہیں!
افطاری کی بڑھتی ہوئی مالیت مِرزا کے پسندیدہ موضوعات کی فہرست میں خاصی
نمایاں ہے۔ وہ خود تو، اللہ معاف کرے، روزہ شاذ و نادر ہی رکھتے ہیں مگر
روزہ داروں کے لیے افطاری کی بڑھتی ہوئی لاگت کے غم میں اِس قدر گُھلتے ہیں
کہ یقینی طور پر روزہ داروں کے حصے میں آنے والے ثواب کا ذرا سا جُز اُنہیں
بھی ضرور ملتا ہوگا! ہم نے اُنہیں بارہا سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ یہ چھوٹے
موٹے موضوعات آپ کے شایان شان نہیں۔ رب نے آپ کو قومی مسائل کے لیے پیدا
کیا ہے۔ یعنی یہ کہ ہر اُلٹا سیدھا موضوع اِس قابل نہیں کہ آپ اُس پر
توانائی ضائع کریں مگر وہ کب مانتے ہیں۔
رہی سہی کسر سحر و افطار کی رنگا رنگ ٹی وی نشریات نے پوری کردی ہے۔ سحر
اور افطار کے دو گھنٹے مِرزا کے لیے ذہنی تسکین اور بعد میں اُن کے
”سامعین“ کے لیے بہترین ”سمع خراشی“ کا موجب ثابت ہوتے ہیں! مِرزا اِن
نشریات سے محظوظ ہونے کے بعد اپنے چاہنے والوں کے سامنے اُن نکات کی تشریح
کا فریضہ انجام دیتے ہیں جو، اُن کے خیال میں، شاید لوگ سمجھ نہ پائے ہوں!
بیشتر احباب اِس عمل کو ”یک نہ شُد، دو شُد“ قرار دیتے ہیں! سحر و افطار کی
نشریات کے دلچسپ لمحات مِرزا کی زبانی سُننے اور پھر حکومت کے نام کا رونا
رونے کا لطف ہی کچھ اور ہے! ٹی وی پروگرامز کی منصوبہ بندی کرنے والے اگر
مِرزا سے مشورہ کرلیا کریں تو کئی ایسے اہم اور دلچسپ نکات کو اپنی نشریات
کا حصہ بنا سکتے ہیں جو عوام کے لیے معلومات کے ساتھ ساتھ تفریح طبع کا بھی
سامان کرتے ہوں!
حکومت کے لیے سکون کا سانس لینے کا محل ہے کہ ماہِ صیام نے وارد ہوکر لوگوں
کو کنٹرول کرلیا ہے۔ جو کچھ سیاست کے نام پر ہو رہا ہے وہ ایسا ہے کہ لوگ
بولتے بولتے پھٹ ہی پڑیں مگر روزے کی حالت میں اِنسان کو زبان پر قابو
رکھنا پڑتا ہے! اور یہی ایک بات حکومت کے حق میں جاتی ہے! مِرزا بھی جانتے
ہیں کہ روزے کی حالت یا روزے کے اوقات میں حکومت کی کارکردگی پر نکتہ چینی
سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر روزہ ہو تو زبان کے پھسلنے سے مکروہ ہو جاتا ہے
اور اگر روزہ نہ ہو تو لوگ سرزنش کرتے ہیں کہ ایک تو روزہ نہیں رکھتے اور
اوپر سے جو منہ میں آئے وہ بکتے ہو! ایسی حالت میں تنقید کے تیروں کا نشانہ
بننے کے لیے سبزیاں اور پھل حاضر ہیں۔ اِن سے جی اُکتا جائے تو آٹے دال پر
آ جائیے۔ اِسی حالت میں ماہِ صیام گزر جائے گا۔ پھر حکومت ہوگی اور ہم ہوں
گے! |