تذکرہ ابن صفی
”بڑا ظلم ہوا‘ ۔۔۔۔۔۔ علامہ صاحب نے اپنی مخصوص آواز و انداز میں فرمایا۔
اس انداز پر فدا ہونے والوں کی تعداد کتنی رہی ہوگی، خدا ہی جانے لیکن میں
تو ان کے بہت قریب بیٹھا ٹک ٹک انہیں جناب ابن صفی کو یاد کرتے دیکھ رہا
تھا۔ وہ یہ کہہ کر ایک لحظے کو خاموش ہوگئے اور میں یہ فقرہ سن کر دم
بخود۔ان کا اشارہ ادب میں صفی صاحب کے مقام کو تسلیم نہ کیے جانے کی طرف
تھا یا ان کی زندگی میں ادب کے ٹھیکیداروں کے ناروا سلوک کا، علامہ صاحب سے
یہ دریافت کرنے کی ہمت مجھ میں کہاں تھی۔ٹوکنا مناسب نہ تھا،اس موقع پر
علامہ صاحب ہی کا ایک شعر یاد آتا رہا تھا:
چمن میں ہر پنکھڑی بکھر کے کہے گی رودادِ قیدِ ہستی
بمقتضائے اصولِ فطرت ابھی تو منہ بند ہے کلی کا
خاکسار کی صفی صاحب پر کتاب میں علامہ صاحب کی ایک یادگار تصویر شامل ہے،
وہ اسے دیکھ کر جیسے کھو سے گئے تھے، یاد ماضی نے جیسے انہیں اپنی گرفت میں
لے لیا ہو، آنکھوں میں ہلکی سی نمی تیر گئی تھی، کیا خبر اپنا ہی شعر یاد
آگیا ہو:
میرا آنسو تیری آنکھ سے ٹپکا ہے
جوگی رستہ بھول گیا تھا ڈیرے کا
|
|
یہ ملاقات 27 جولائی، 2012 کی ایک شام کو ہوئی۔میں علامہ صاحب کو اپنی صفی
صاحب پر کتاب ” کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا“ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ
ان کی خدمت میں احمد صفی صاحب کا سلام پیش کرچکا تھا۔اول اول میں اپنی ابن
صفی صاحب پر کتاب کے تعارف میں بے تکان بولتا چلا گیا، ابتدائی دس منٹ
علامہ صاحب خاموش بیٹھے ، انہماک سے سنتے رہے، ہاتھ میں سگرٹ تو شروع ہی
میں تھام چکے تھے لیکن شعلہ بیاں مقرر نے اسے شعلہ نہ دکھایا تھا۔ ذکر ابن
صفی کا تھا اور اس ذکر پر ان کی آنکھوں میں ایک چمک سی آگئی تھی ۔
”سچ تو ہم سب کے سامنے کنڈلی مارے بیٹھا ہے جناب والا“۔۔۔میں نے عرض کیا۔ ”
اب تو نہ ماننے والے بھی ماننے پر مجبور ہیں۔“
”ارے میاں! یہ دن تو آنا ہی تھا۔“۔۔۔یہ کہہ کر انہوں ہاتھ میں دیر سے تھامی
سگرٹ جلائی اور ایک گہرا کش لیا۔ ”چائے پیں گے آپ۔۔اب سنیے کہ ہم رہتے تھے
ناظم آباد نمبر ایک میں اور صفی صاحب کا قیام دو نمبر میں تھا۔ میں اکثر ان
کے دفتر چلا جایا کرتا تھا۔ وہاں بیٹھ کر چائے اور سگرٹ پی جاتی، باتیں
ہوتیں اور پھر میں واپسی کا رستہ لیتا۔ ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ اگر کبھی ناغہ
ہوجاتا تو وہ مجھ سے غیر حاضری کا سبب پوچھا کرتے۔ایک روز میں ان کے پاس
بیٹھا تھا کہ انہوں نے مجھے ایک کاغذ پر اپنا لکھا سلام تھما دیا، اس کا
ایک شعر سنئے:
یاد حسین میں جو آنکھ نم نہیں
وہ یزید و شمر سے کم نہیں
ضمیر اختر وہ کاغذ لے گئے تھے۔شاید کسی کتاب میں استعمال کیا ہو انہوں
نے۔ابن صفی بہت اچھے شاعر تھے۔نہ معلوم ان کے اشعار محفوظ بھی ہیں یا نہیں،
اس بارے میں کچھ علم ہے آپ کو۔۔۔۔“
|
|
” جناب والا! متاع قلب و نظر ، ابن صفی کے شعری مجموعے کا مجوزہ نام ہے،
لاہور سے شائع ہوگا تو احمد صاحب مجھے ارسال کریں گے اور اسی شام کو یہاں
آپ کی اس میز پر رکھا ہوگا، یہ میری ذمہ داری ہے۔“ میں نے عرض کیا ۔
اس بات پر علامہ صاحب خوش ہوگئے۔ ”اچھا اپنا فون نمبر دیجیے، بلکہ یہیں
کتاب پر لکھ دیجیے۔ اور یہ جو آپ ابن صفی سے متعلق یادوں کو ریکارڈ کرنے کا
کہہ رہے ہیں تو میں آپ کو کسی روز بلا لوں گا، ذہن میں فوری طور پر جو
باتیں آئیں، بیان کردوں گا۔۔ابھی تو ہمارے بزرگ کشفی صاحب کی باتیں بھی ہیں،
سرور حسین آرٹسٹ بھی آیا کرتے تھے، بہت کچھ ہے ‘ ‘
” صفی صاحب کا انتقال کے روز آپ کراچی میں تھے“ میرا سوال تھا
اس روز علامہ طالب جوہری ملک سے باہر تھے۔ ” میں واپس آیا تو ان کے گھر گیا
لیکن کسی سے ملاقات نہ ہوسکی۔“
آج میں خود سے ملا ہوں طالب
آج بھولا ہوا گھر یاد آیا
میں ساری باتیں کر بیٹھا تو ایک دم سے چونک کر کہا : ” یہ فرمائیے کہ آپ کے
مطالعے میں صفی صاحب ناول رہے ہیں؟ “
|
|
”چھوڑا کون سا تھا ؟ سبھی پڑھ ڈالے۔ چاندنی کا دھواں، خاص نمبر تھا، مزے
دار کہانی تھی۔“۔۔۔یہ کہہ کر وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے۔۔۔۔پھر آہستگی
سے اپنی مخصوص آواز و اندازمیں بولے :
”بڑا ظلم ہوا‘ ۔۔۔۔۔۔ ! |