بچوں کو روزہ نہ رکھوانے کی غفلت
یاد رکھیں جس طرح شریعت کا حکم ہے کہ بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسے نماز کا
کہو، دس سال کا ہوجائے پھر بھی نہ پڑھے تو مارو، اسی طرح شریعت کا حکم ہے
بچوں کو روزہ رکھوانے کا، فرق صرف اتنا ہے کہ نماز کے معاملے میں خاص عمر
پر مدار ہے اور روزے کے معاملے میں برداشت پر مدار ہے یعنی اگر بچہ اس قابل
ہوجائے کہ وہ روزے کی مشقت برداشت کرسکتا ہے تو سرپرستوں پر اس سے روزہ
رکھوانا واجب ہوجاتا ہے۔ لیکن لوگ اس میں غفلت کرتے ہیں، بچوں کو روزہ نہیں
رکھواتے بلکہ بعض ستم ظریف تو تڑوا دیتے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
خوب سمجھ لیجئے دس سالہ بچے پر خود نماز فرض نہیں ہوتی لیکن سرپرستوں کے
ذمے پڑھوانا واجب ہوتا ہے یہی حال روزے کا ہے فرق صرف اتنا ہے جیسا کہ عرض
کیا گیا کہ نماز میں مدار دس سال پر ہے جبکہ روزے میں مدار اس بات پر ہے کہ
بچہ روزے کی مشقت کو برداشت کرسکے۔ اور شریعت کے اس حکم کو سختی سمجھنا تو
بہت بڑا گناہ ہے۔ قرآن و حدیث میں اس دین کے احکام کو آسان بتایا گیا ہے۔
ارشاد ہے ’’یرید اللّٰہ بکم الیسر و لایرید بکم العسر‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ
آپ کے ساتھ آسانی کا معاملہ چاہتے ہیں تنگی کا نہیں۔ ’’وماجعل علیکم فی
الدین من حرج‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر دین میں کوئی تنگی نہیں
رکھی۔
روزے کے مقصد سے غفلت
بعض حضرات روزہ تو رکھ لیتے ہیں لیکن روزے کو بہلانے کے لئے مختلف مشغلے
اختیار کر لیتے ہیں مثلاً فلمیں دیکھنا، جوا کھیلنا اور گپ شب کی مجلس قائم
کرنا جس میں غیبت اور جھوٹ وغیرہ کی بھرمار ہوتی ہے۔ یہ لوگ یہ نہیں سوچتے
کہ حلال کھانے پینے کو چھوڑ دیا اور حرام میں ابھی تک لگے ہوئے ہیں۔ بھئی
جو حلال تھا اس پر پابندی لگی تو سوچنا چاہئے کہ جو حرام ہے اور جس پر پہلے
ہی سے پابندی تھی اس کی پابندی کتنی سخت ہوچکی ہوگی؟؟ خوب سمجھ لینا چاہئے
کہ روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے جس کی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے ’’لعلکم
تتقون‘‘ تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔ اور رسول اللہ ö نے بھی اس مقصد کو واضح
فرما دیا ہے ارشاد مبارک ہے:
من لم یدع قول الزور و العمل بہ فلیس للّٰہ حاجۃ ان یدع طعامہ و شرابہ
یعنی جو بری بات ﴿زور میں تمام بری باتیں آجاتی ہیں﴾ اور برے عمل کو نہ
چھوڑے تو اس کے کھانے پینے چھوڑنے کی اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں۔
اور فرمایا:
’’رُبَّ صائم لیس لہ من صیامہ الاالجوع‘‘
ترجمہ: بہت سے روزے داروں کو سوائے بھوک کے ان کے روزے سے کچھ بھی نہیں
ملتا۔
نیز ایسے لوگوں کو روزہ سخت لگتا ہے۔ ایسے لوگ تجربے کے طور پر سہی تلاوت،
ذکر و اذکار، نوافل اور دینی مجالس میں بیٹھ کر دیکھیں ان کا روزہ اچھا اور
آسان گزرے گا ان شائ اللہ۔
رمضان تربیت کا مہینہ ہے اور تربیت میں کچھ نہ کچھ مشقت تو جھیلنی ہی پڑتی
ہے لیکن عزم اور ہمت سے ناممکن کی حد تک مشکل کام بھی آسان ہوجاتے ہیں چہ
جائے کہ معمولی سی پابندی کو برداشت کرنا۔ آپ دیکھتے نہیں کہ یہ جوگی وغیرہ
کچھ غلاظتوں کو حاصل کرنے کے لئے کتنی سخت پابندیاں برداشت کرتے ہیں تو کیا
اللہ کی رضا کے لئے گناہوں کو نہیں چھوڑا جاسکتا؟
بس اس رمضان میں اپنے اوپر لازم کر لیں کہ نہ غلط بولوں گا اور نہ سنوں گا
اگر کہیں غیبت ہوگئی تو
چالیس رکعت نوافل پڑھوں گا، تین پارے تلاوت کروں گا اور سورپے اللہ کے
راستے میں صدقہ کروں گا، یہ باتیں مثال کے طور پر عرض کی ہیں اسی سزا کو
اپنے حالات کے مطابق بڑھایا اور گھٹایا بھی جاسکتا ہے بس سزا اتنی ہونی
چاہئے کہ جس پر عمل ممکن ہو اور دو تین دفعہ کرنے سے نفس سدھر جائے مقصود
ہے نفس کو قابو کرنا، نفس جب دیکھے گا کہ مجھے چالیس رکعتیں پڑھنی پڑیں گی
اور اتنی تلاوت اور اتنا صدقہ دینا پڑے گا تو سدھر جائے گا ان شائ اللہ۔
لیکن شرط یہ ہے کہ جب بھی کوئی گناہ سرزد ہو تو اس سزا کو اپنے اوپر جاری
بھی کیا جائے، دو تین دفعہ کرنے سے ان شائ اللہ مقصود حاصل ہوجائے گا۔
نیز ان گناہوں سے بچنے کے لئے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سوچے کہ میں اتنی
مشقت برداشت کر رہا ہوں اتنے گھنٹے بھوکا پیاسا رہتا ہوں آخر معمولی سی گپ
شپ کی خاطر اپنی اس محنت پر کیوں پانی پھیر دوں؟
اور تیسرا طریقہ کہ اپنے معمولات کو اس طرح منظم کرے کہ اس میں ان فضولیات
کی گنجائش ہی نہ ہو اور فرصت ہی نہ ملے۔
اب تک تو ان لوگوں کا ذکر چل رہا تھا جو روزے میں کوتاہی کرتے ہیں، اب ان
لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے جو غلو کا شکار ہوجاتے ہیں یعنی حد سے تجاوز کرجاتے
ہیں اور اللہ تعالیٰ کو یہ دونوں باتیں ناپسند ہیں۔
٭.٭.٭ |