ڈھائی قلندر کی شان قلندری

سلسلہ نبووت ختم ہونے کے بعد سلسلہء ولایت ہی ہے جس نے رشد و ہدایت کا سلسلہ مسلمانوں و غیر مسلمانوں میں جاری و ساری رکھا ہوا ہے۔ اسی سلسلہء ولایت و تصوف میں ایک اصطلاح “ قلندر “ کی بھی ہے۔ قلندر کے معنی یوں تو اہل تصوف کے نزدیک ایک آزاد آدمی اور مداری کے ہیں- یعنی اپنے نفس کو ایک آزاد آدمی کی طرح اس دنیا فانی میں گزارنا یا پھر اسے بندر کی طرح نچانے پر قادر شخص یا ہستی جو دنیا مافیا سے آزاد ہو “ قلندر “ ہے-ایک حدیث مبارکہ کے مفہوم کے مطابق “ جس نے اپنے نفس کو پہچانا پس اس نے اپنے رب کو پہچانا۔ جس نے اپنے نفس کو فنا سے پہچانا اس نے اپنے رب کو بقا سے پہچانا -“

تاریخ میں جن تین ہستیوں کو “ ڈھائی قلندر “ کے نام سے نوازا گیا ان میں حضرت رابعہ بصری ، حضرت مخدوم لعل شہباز قلندر اور حضرت شرف الدین بوعلی قلندر شامل ہیں -“ چونکہ حضرت رابعہ بصری عورت تھیں اس لئے انہیں آدھی قلندر کہا جاتا ہے یوں عوام الناس کی زبان زد و عام ہے کہ دنیا میں ڈھائی قلندر بھی آئے ہیں- ان تینوں ہستیوں میں ایک قدر مشترک یہ بھی ہے کہ انہوں نے زندگی بھر شادی نہیں کی اور اللہ و حدہ لا شریک کی عبادت میں دن رات مصروف و مشغول رہے-آئیے اب ہم فردآ فرداََ ان تینوں قلندر کا تذکرہ تاریخ کی روشنی میں کرتے ہیں-

حضرت رابعہ بصری کی پیدائش پہلی صدی ہجری میں بصرہ میں ہوئی- آپ کی پیدائش کے بارے میں محققین کی رائے میں اختلاف ہے- آپ کا سن وفات ١٣٥ ہجری ہے- آپ سادات کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئیں- جس رات آپ کی ولادت متوقع تھی اس وقت گھر میں اتنا تیل بھی نہ تھا کہ چراغ یا دیا جلایا جاتا- آپ کی والدہ محترمہ نے اپنے شوہر سے کہا کہ آپ ہمسائے سے تھوڑا سا تیل ہی لے آئیں تاکہ گھر میں کچھ اجالا ہو سکے-

مگر چونکہ وہ دل میں عہد کئے ہوئے تھے کہ اللہ وحد لاشریک کے سوا کسی سے کچھ نہ مانگیں گے- سو ہمسائے کے گھر کے باہر ہی سے بغیر کچھ مانگے لوٹ کر آگئے اور گھر آکر کہا کہ وہ دروازہ نہیں کھول رہا ہے- اسی پرہشانی میں انہیں اونگھ آگئی تو خواب میں حضور اکرم کا دیدار ہوا- حضور اکرم نے تسلی دی اور فرمایا کہ “ تیری بچی بہت مقبولیت حاصل کرے گی اور اس کی شفاعت سے میری امت کے ایک ہزار افراد بخش دئے جائیں گے- “اب تم ایسا کرو کہ بصرہ کے حاکم کے پاس جائو اور اس سے کہو کہ تم جو روزانہ ایک ہزار مرتبہ مجھ ( ص ع و) پر درود شریف کا نذرانہ پیش کرتے تھے لیکن تم نے جمعتہ المبارک کو کیوں ناغہ کیا لہٰذا بطور کفارہ چارسو دینار ادا کر دو- صبح جب وہ بیدار ہوئے تو حکم کے مطابق ایک خط بصرہ کے حاکم کو لکھ کر پیش کیا-حاکم خط پڑھ کر پہلے تو بہت حیران ہوا اور رونے لگا اور پھر چار سو دینار انہیں دے دئے- یہ ایک باعزت سادات گھرانہ تھا جسے یہ سعادت ملی کہ ان کے گھر اللہ پاک کی مقبول و مقرب بندی پیدا ہوئی- حضرت رابعہ بصری کے ذریعہ روایت کے مطابق ستر ہزار افراد کی بخشش کی نوید بعد میں بھی سنائی گئی ہے-

حضرت رابعہ بصری کو انکے والدین کے انتقال کے بعد ایک ظالم نے اپنی کنیز بنا لیا اور پھر کچھ دنوں بعد انہیں فروخت بھی کر دیا- آپ کا معمول تھا کہ دن میں روزہ رکھتیں اور رات کو ساری رات عبادت میں مشغول رہتیں- ایک شب جب اس مالک کی آنکھ کھلی تو اس نے آپ کو کمرے کے گوشے میں سر بسجود پایا اور ایک معلق نور آپ کے سر پر فروزاں دیکھا- اس وقت جو آپ کے لبوں پر دعا تھی وہ یہ تھی کہ “ اے مالک اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ہر وقت تیری عبادت کرتی لیکن چونکہ تو نے مجھے غیر کا محکوم بنا دیا ہے اس لئے تیری بارگاہ میں دیر سے حاضر ہوتی ہوں- “ آپ کے یہ کلمات سن کر مالک پریشان ہو گیا اور صبح ہوتے ہی آپ کی خدمت میں عرض کرنے آگیا اور کہا کہ “اگر آپ میرے گھر پر ہی مستقل قیام فرمائیں تو میرے لئے ایک سعادت سے کم نہیں یا پھر آج سے ہی اور کہیں جانا چاہیں تو آزاد ہیں-“

ایک روایت کے مطابق حضرت رابعہ بصری جب حج بیت اللہ کے لئے روانہ ہوئیں تو راستے میں آپ کا گدھا مر گیا ، مکہ کا سفر مشکل اور طویل تھا جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان ہو گئیں تھیں اس وقت آپ نے اللہ سے دعا کی جس کے بعد وہ گدھا دوبارہ جی اٹھا اور اسی پر دوبارہ سفر انہوں نے شروع کر دیا-

تاریخ کے اوراق میں یہ روایت بھی رقم ہے کہ آپ جب خانہ کعبہ کے دیوار کی تڑپ لئے عازم سفر تھیں تو کعبہ خود آپ کے استقبال کے لئے حاضر ہوگیا تھا- آپ عشق الہٰی میں ڈوبی رہتی تھیں انہیں کھانے پینے کی بھی کوئی حاجت نہیں ہوتی تھی-کسی نے پوچھا کہ “ عاصی کی توبہ قبول ہوتی ہے کہ نہیں“- جس پر آپ نے کہا “ وہ اس وقت تک توبہ کرہی نہیں سکتا جب تک اسے اللہ کریم توفیق نہ دے اور جب توفیق حاصل ہوگی تو پھر دعا کی قبولیت میں بھی کوئی شک نہیں رہا-“

حضرت رابعہ بصری کا ایک خوبصورت قول یہ بھی ہے کہ “ جب تک قلب بیدار نہیں ہوتا اس وقت تک کسی عضو سے بھی خدا کی راہ نہیں ملتی اور بیداری قلب کے بعد اعضاء کی حاجت ہی ختم ہوجاتی ہے کیونکہ قلب بیدار وہی ہے جو حق کے اندر اس طرح ضم ہوجائے کہ پھر اعضاء کی حاجت ہی باقی نہ رہے اور یہی “ فنا فی اللہ “ ہے-

حضرت خواجہ حسن بصری بھی اس وقت آپ کے ہم عصر تھے- لہٰذا آپ دونوں کے درمیان حقیقت و معرفت کے اسرار و رموز پر گفتگو ہوتی رہتی تھی- ایک روز حضرت خواجہ حسن بصری نے آپ سے کہا کہ “ مجھے ان علوم کی بابت سمجھائیں جو آپ کو اللہ تعالٰی کے قرب سے بلا واسطہ حاصل ہوئےہیں -“ تو آپ نے فرمایا کہ “ میں نے تھوڑا سا سوت کات کر تکمیل ضرورت کے لئے دو ( ٢ ) درہم لے کر اس خیال میں غرق ہوگئی کہ اگر میں نے دونوں کو ایک ہی ہاتھ میں لے لیا تو یہ جوڑا بن جائے گا اور یہ بات وحدانیت کے خلاف اور میری گمراہی کا باعث ہو سکتی ہے- بس اسی کے بعد سے میری تمام راہیں کھلتی چلی گئیں جس کے بعد آج اس فضیلت کے مقام پر ہوں-“

حضرت رابعہ بصری کی تعریف و توصیف اور کرامات کے ذکر سے یوں تو تاریخ بھری پڑی ہے لیکن آپ کے بارے میں صرف یہی جملہ کافی ہے کہ آپ ان ہستیوں میں سے ہیں جن کو اللہ تعالٰی نے صرف ارو صرف اپنی عبادات کے لئے تخلیق کیا تھا-

ابواب تصوف میں قلندر کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے جس دوسرے ولی اللہ کا ذکر ہے وہ ہیں حضرت مخدوم لال شہباز قلندر یوں تو آپ کا اصل نام محمد عثمان مروندی ہے- آپ کا وطن بھی مروند تھا- یہ شہر تبریز سے کچھ ہی فاصلے پر ہے- آپ عالٰی نسب تھے اور آپ کا خاندان یگانہ روزگار تھا- آپ کے والد ماجد سید کبیر اپنے وقت کے مشہور عالم تھے- جب کہ آپ کی ولدہ محترمہ انتہائی عابد ، زاہد اور عبادت گزار تھیں-حضرت مخدوم لال شہباز قلندر نے سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا تھا- آپ حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی کے مرید اور خلیفہ تھے- اسی وجہ سے آپ کی آمد بھی ملتان شہر میں کئی بار ہوئی تھی- آپ کی ولادت ٥٧٣ ہجری جبکہ وفات ٦٧٣ ہجری میں ہوئی تھی-

آپ نے اللہ کی راہ میں سندھ میں سہون شریف کی جانب ہجرت کی تو ایک ایسے محلے میں مقیم ہوئے جو طوائفوں کا مسکن تھا- آپ کے آتے ہی اللہ کے حکم سے اس محلے سے یہ گند گی دور ہونا شروع ہوگئی اور بزرگان دین کی کرامات سے طوائفوں نے یہ علاقہ خود چھوڑ دیا اور جو باقی رہ گئی تھیں انہوں نے پاک دامن طریقے سے اپنے گناہوں کی معافی کے بعد زندگی گزارنی شروع کردی تھیں آپ کی کراماتیں تو لا تعداد ہیں جن کا ذکر کرنے کے لئے ایک طویل وقت درکار ہے جس کے لئے حصہ دوئم جلد جاری کر دونگا تاکہ عوام کو مزید بزرگان دین کے بارے میںآگہی ہو سکے کہ یہ دین اسلام کتنی محنتوں اور قربا نیوں سے دنیا بھر میں پھیلا ہے جس کے پیچھے آج بھی یہود و نصارہ پڑے ہوئے ہیں-

نوٹ:- “ ڈھائی قلندر کی شان قلندری “ کا حصہ دوئم بھی ضرور مطالعہ فرمائیں جس میں باقی باتیں انشاء اللہ ہونگیں- مزید یہ کہ اپنی قیمتی آراء سے ضرور نوازیں- شکریہ -
Haji Abul Barkat,Poet/Columnist
About the Author: Haji Abul Barkat,Poet/Columnist Read More Articles by Haji Abul Barkat,Poet/Columnist: 13 Articles with 50088 views AUTHOR OF 04 BOOKS:-
1. ZAOQ - E -INQILAB
2.IZN - E - INQILAB
3.NAWED - E - INQILAB
4. QAHQAHE - HE - QAHQAHE
************************
MEMBER A
.. View More