گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔
روزہ کی نیت
محترم قارئین کرام! روزہ کیلئے بھی اُسی طرح نِیَّت شَرط ہے جِس طرح کہ
نَماز ، زکوٰۃ وغیرہ کے لئے ۔ لہٰذا ''بے نِیَّتِ روزہ اگر کوئی بھائی یا
بہن صُبحِ صادِق کے بعد سے لے کر غُروبِ آفتاب تک بالکل نہ کھائے پئے تب
بھی اُس کا روزہ نہ ہوگا۔
(رَدُّالْمُحتَار، ج٣، ص٣٣١)
رَمَضان شریف کا روزہ ہو یا نَفْل یا نَذْرِ مُعَیّن کا روزہ یعنی اللّٰہ
عَزَّوَجَلَّ کےلئے کسی مَخصُوص دِن کے روزہ کی مَنَّت مانی ہو مَثَلاً
خُود سُن سکے اتنی آواز سے یُوں کہا ہو کہ ''مجھ پراللّٰہ عَزَّوَجَلَّ
کیلئے اِس سال رَبِیْعُ النُّور شریف کی ہر پیرشریف کا روزہ ہے ۔تَو یہ
نَذْرِمُعَیَّن ہے اور اِس مَنّت کا پُورا کرنا واجِب ہوگیا۔اِن تینوں قِسم
کے روزوں کے لئے غُروبِ آفتاب کے بعد سے لیکر''نِصْفُ النَّہارِ شَرعی ''(اِسے
ضَحوَہ کُبریٰ بھی کہتے ہیں ) سے پہلے پہلے تک جب بھی نِیَّت کرلیں روزہ
ہوجائے گا۔ (رَدُّالْمُحتَار، ج٣،ص٣٣٢)
نصف النہار شرعی کا وقت معلوم کرنے کا طریقہ
شاید آپ کے ذِہْن میں یہ سُوال اُبھر رہا ہوگا کہ نِصفُ النَّہار شَرعی کا
وَقت کونساہے ؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ جس دِن کا نِصف النَّہار شَرعی معلوم
کرنا ہو اُس دِن کے صُبحِ صادِق سے لے کر غُروبِ آفتاب تک کا وَقْت شُمار
کرلیجئے اور اُس سارے وَقت کے دوحِصّے کرلجئے پہلا آدھا حِصّہ ختم ہوتے
ہی''نِصف النَّہار شَرعی '' کا وَقت شُروع ہو گیا ۔ مَثَلاً آج صُبحِ صادِق
ٹھیک پانچ بجے ہے اور غُروبِ آفتاب ٹھیک چھ بجے ۔تَو دونوں کے درمیان کا
وَقت کُل تیرہ گھنٹے ہوا۔اِن کے دوحِصّے کریں تو دونوں میں کا ہر ایک حِصّہ
ساڑھے چھ گھنٹے کاہوا۔اب صُبحِ صادِق کے پانچ بجے کے بعد والے ابتِدائی
ساڑھے چھ گھنٹے ساتھ مِلا لیجئے ۔تو اِس طرح دِن کے ساڑھے گیارہ بجے
''نِصفُ النَّہار شَرعی''کا وَقت شُروع ہوگیا۔ تواب ان تین طرح کے روزوں کی
نیّت نہیں ہو سکتی۔ (رَدُّالْمُحتَار، ج٣،ص٣٤١ ،ملخصاً)
بیان کردہ تین قِسْم کے روزوں کے عِلاوہ دیگر جِتنی بھی اَقسَامِ روزہ ہیں
اُن سب کیلئے یہ لازِمی ہے کہ راتوں رات یعنی غُروبِ آفتاب کے بعد سے لیکر
صُبحِ صادِق تک نِیت کرلیں۔اگر صُبحِ صادِق ہوگئی تَو اب نِیَّت نہیں ہوسکے
گی۔مَثَلاً قَضائے روزۂ رَمَضان ،کَفَّارے کے روزے ،قَضائے روزۂ نَفْل
(روزئہ نَفْل شُروع کرنے سے واجِب ہوجاتا ہے۔اب بے عُذْرِ شَرعی توڑنا
گُناہ ہے ۔اگر کسی طرح سے بھی ٹوٹ گیا خواہ عُذْر سے ہویا بلا عُذر،اِس کی
قَضا بَہَر حال واجِب ہے) ''روزئہ نَذْرِ غیر مُعَیَّن ''(یعنی اللّٰہ
عَزَّوَجَلَّ کیلئے روزہ کی مَنَّت تَو مانی ہو مگر دِن مَخصُوص نہ کیا ہو
اِس مَنَّت کا بھی پورا کرنا واجِب ہے اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے مانی
ہوئی ہرجائز مَنَّت کا پورا کرنا واجِب ہے ۔جب کہ زَبان سے اِس طرح کے
اَلْفاظ اتنی آواز سے کہے ہوںکہ خود سن سکے،مثلاً اِس طرح کہا ،''مجھ پر
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے ایک روزہ ہے''اب چُونکہ اِس میں دِن مخصُوص نہیں
کیا کہ کونسا روزہ رکھوں گا۔ لہٰذا زِندگی میں جب بھی مَنَّت کی نِیّت سے
روزہ رکھ لیں گے مَنَّت ادا ہوجائے گی۔ مَنَّت کیلئے زَبان سے کہنا شَرط ہے
اور یہ بھی شَرط ہے کہ کم از کم اتنی آوازسے کہیں کہ خود سُن لیں ۔ مَنَّت
کے اَلْفاظ اِتنی آواز سے ادا تَو کئے کہ خودسُن لیتا مگر بَہراپن یا کسی
قِسْم کے شَور وغُل وغیرہ کی وجہ سے سُن نہ پایا جب بھی مَنَّت ہوگئی اِس
کا پُورا کرنا واجِب ہے)وغیرہ وغیرہ ان سب روزوں کی نِیَّت رات میں ہی
کرلینی ضَروری ہے۔(مُلَخَّص از رَدُّ الْمحتار، ج٣، ص ٣٤٤)
روزہ کی نیّت کےمتعلق اہم معلومات
١: ادائے روزئہ رَمَضان اور نَذْرِ مُعَیَّن اور نَفْل کے روزوں کےلئے
نِیَّت کا وَقت غُروبِ آفتاب کے بعد سے ضَحوَہ کُبْرٰی یعنی نِصفُ
النَّہارِ شرعی سے پہلے پہلے تک ہے اِس پورے وَقت کے دَوران آپ جب بھی
نِیَّت کرلیں گے یہ روزے ہوجائیں گے۔ (رَدُّالْمحتار، ج٣، ص ٣٣٢ )
٢: نِیَّت دِل کے اِرادے کا نام ہے زَبان سے کہنا شَرط نہیں،مگر زَبان سے
کہہ لینا مُستَحَب ہے اگر رات میں روزئہ رَمَضان کی نِیَّت کریں تَو یُوں
کہیں:
نَوَیتُ اَنْ اَصُوْ مَ غَدًا لِلّٰہِ تَعَالٰی مِنْ فَرْضِ رَمَضان۔
ترجَمہ:میں نے نِیَّت کی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے اِس رَمَضان کا فَرض
روزہ کل رکھوں گا ۔
٣ :اگر دن میں نِیَّت کریں تَو یُوں کہیں-:
نَوَیتُ اَنْ اَصُوْ مَ ھٰذا الْیومَ لِلّٰہِ تَعَالٰی مِنْ فَرضِ رَمَضان
۔
ترجَمہ:میں نے نِیَّت کی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے آج رَمَضان کا فَرض
روزہ رکھوں گا ۔
(رَدُّالْمحتار، ج٣، ص ٣٣٢ )
٤: عَرَبی میں نِیَّت کے کلِمات ادا کرنے اُسی وَقت نِیَّت شُمار کئے جائیں
گے جبکہ اُن کے معنیٰ بھی آتے ہوں۔اور یہ بھی یاد رہے کہ زَبان سے نِیَّت
کرنا خواہ کسی بھی زَبان میں ہواُسی وَقت کار آمد ہوگا جبکہ اُس وقت دِل
میں بھی نِیَّت مَوجُود ہو۔ (اَیْضاً)
٥: نِیَّت اپنی مادَری زَبان میں بھی کی جاسکتی ہے ۔مگر شَرط یِہی ہے کہ
عَرَبی میں کریں خواہ کسی اور زَبان میں۔ نِیَّت کرتے وَقت دِل میں بھی
اِرادہ مَوجُود ہو،وَرنہ بے خیالی میں صِرف زَبان سے رَٹے رَٹائے جملے ادا
کرلینے سے نِیَّت نہ ہوگی۔ہاں اگر بِالفَرض زَبان سے رَٹی ہوئی نِیَّت کہہ
لی مگر بعد میں نیّت کیلئے مقرّرہ وَقت کے اندر دِل میں بھی نِیَّت کرلی
تَواب نِیَّت صحیح ہے۔
(رَدُّالْمحتار، ج٣ ،ص ٣٣٢ )
٦: اگر دِن میں نِیَّت کریں تَو ضَروری ہے کہ یہ نِیَّت کریں کہ میں صُبح
سے روزہ دار ہوں ۔اگر اِس طرح نِیَّت کی کہ اب سے روزہ دا ر ہوں صُبح سے
نہیں ،تَو روزہ نہ ہوا۔ ( الجَوْہَرَۃُ النَّیَِّرۃ، ج١ ،ص١٧٥))
٧: دِن میں وہ نِیَّت کام کی ہے کہ صُبحِ صادِق سے نِیَّت کرتے وَقت تک
روزے کے خِلاف کوئی اَمْرنہ پایا گیا ہو۔البتَّہ اگر صُبحِ صادِق کے بعد
بُھول کر کھاپی لیا یا جِماع کرلیا تب بھی نِیَّت صحےح ہوجائے گی۔کیوں کہ
بُھول کر اگر کوئی ڈَٹ کربھی کھاپی لے تَو اِس سے روزہ نہیں جاتا۔
(مُلَخَّص از ردالمحتار، ج٣، ص٣٦٧)
٨: آپ نے اگر یُوں نِیَّت کی کہ ''کل کہیں دعوت ہوئی تَو روزہ نہیں اور نہ
ہوئی تَو روزہ ہے''۔یہ نِیَّت صحےح نہیں۔بَہَرحال آپ روزہ دار نہ
ہوئے۔(عَالمگِیری، ج١،ص١٩٥)
٩: ماہِ رَمَضان کے دِن میں نہ روزہ کی نِیَّت کی نہ ہی یہ کہ ''روزہ
نہیں'' اگرچِہ معلوم ہے کہ یہ رَمَضانُ الْمبارَک کا مہینہ ہے تَو روزہ نہ
ہوگا۔(عَالمگِیری ،ج١،ص١٩٥)
١٠:غُروبِ آفتاب کے بعد سے لیکر رات کے کسی وَقْت میں بھی نِیَّت کی پھر
اِس کے بعد رات ہی میں کھایاپِیا تَو نِیَّت نہ ٹُوٹی ،وُہی پہلی ہی کافی
ہے پھر سے نِیَّت کرنا ضَروری نہیں۔( الجَوْہَرَۃُ النَّیرۃ ،ج١ ،ص١٧٥)
١١: آپ نے اگر رات میں روزہ کی نِیَّت تَو کی مگر پھر راتوں رات پکاّ
اِرادہ کرڈالا کہ ''روزہ نہیں رکھوں گا۔''تَو اب وہ آپ کی ،کی ہوئی نِیَّت
جاتی رہی ۔اگر نئی نِیَّت نہ کی اور دِن بھر روزہ دار وں کی طرح بھوکے
پیاسے رہے تب بھی روزہ نہ ہوا۔
(درمُختار مع ردُّالمُحتار، ج٣،ص٣٤٥)
١٢: دَورانِ نَماز کلام (بات چیت) کی نِیَّت تَو کی مگر بات نہیںکی تَو
نَماز فاسِد نہ ہوگی۔اِسی طرح روزے کے دَوران توڑنے کی صِرف نِیَّت کر لینے
سے روزہ نہیں ٹوٹے گا جب تک توڑنے والی کوئی چیز نہ کرے ۔ (الجَوْہَرَۃُ
النَّیَّرۃ،ج١، ص١٧٥)
یعنی صِرف یہ نِیَّت کرلی بس اب میں روزہ توڑ ڈالتا ہوں تو اسطرح اُ س وَقت
تک روزہ نہیں ٹوٹے گا جب تک حَلْق کے نیچے کوئی چیز نہ اُتاریں گے یا کوئی
ایسافِعل نہ کر گزریں گے جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہو۔
١٣: سَحَری کھانا بھی نِیَّت ہی ہے۔خواہ ماہِ رَمَضان کے روزے کیلئے ہو یا
کسی اور روزے کیلئے مگر جب سَحَری کھاتے وَقت یہ اِرادہ ہے کہ صُبح کو روزہ
نہ رکھوں گا تَو یہ سَحَری کھانا نِیَّت نہیں۔ ( الجَوْہَرَۃُ النَّیَّرۃ،
ج١ ،ص ١٧٦))
١٤ : رَمَضانُ الْمبارَک کے ہر روزے کے لئے نئی نِیَّت ضَروری ہے ۔ پہلی
تاریخ یا کسی بھی اور تاریخ میں اگر پوُرے ماہِ رَمَضان کے روزے کی نِیَّت
کر بھی لی تَو یہ نِیَّت صِرف اُسی ایک دن کے حق میں ہے ،باقی دِنوں کیلئے
نہیں۔ (ایضاً ،ص١٦٧)
١٥: ادائے رَمَضان اور نَذْرِ مُعَیَّن اور نَفْل کے عِلاوہ باقی روزے
مَثَلاً قضائے رَمَضان اور نَذْرِ غیرمُعَیَّن اور نَفْل کی قَضاء (یعنی
نَفْلی روزہ رکھ کر توڑ دیا تھا اُس کی قضائ)اور نَذْرِ مُعَیَّن کی قَضاء
اور کَفَّارے کا روزہ اور تَمَتُّع (حج کی تین قسمیں ہیں(١)قِران،(٢)
تَمَتُّع(٣)اِفراد۔ قِران اور تَمَتُّع والے پر حج ادا کرنے کے بعد بطورِ
شکرانہ حج کی قربانی کرنا واجب ہے جب کہ اِفراد والے کےلئے مستحب ۔اگر
قِران اور تَمَتُّع والے بہت زیادہ مسکین اور محتاج ہیں مگر قِران اور
تَمَتُّع کی نیت کر لی ہے اور اب ان کے پاس نہ کو ئی قربانی کے لا ئق کو ئی
جا نور ہے نہ رقم نہ ہی کوئی ایسا سامان وغیرہ ہے جسے فروخت کرکے قربانی کا
انتظام کر سکیں تو اب قربانی کے بدلے ان پر دس روزے واجب ہوںگے ۔تین روزے
حج کے مہینوں میں یعنی یکم شَوَّالُ الْمُکَرَّم سے نویں ذِی الْحجَّۃُ
الْحَرَام تک احرام باندھنے کے بعد اس بیچ میں جب چا ہیں رکھ لیں ۔ترتیب
وار رکھنا ضروری نہیں ۔ناغہ کرکے بھی رکھ سکتے ہیں۔بہتر یہ ہے کہ سات،آٹھ
اور نویں ذِی الْحجَّۃُ الْحَرَام کو رکھیں اور پھر تیرہ ذِی الْحجَّۃُ
الْحَرَامکے بعد بقیہ سات روزے جب چا ہیں رکھ سکتے ہیں بہتر یہ ہے کہ گھر
جا کر رکھیں ۔) روزہ اِن سب میں عَین چمکتے وَقتِ صُبحِ صادِق یا رات میں
نِیَّت کرنا ضَروری ہے اور یہ بھی ضَروری ہے کہ جو روزہ رکھنا ہے خاص اُسی
مَخصُوص روزے کی نِیَّت کریں۔اگر اِن روزوں کی نِیَّت دِن میں (یعنی صُبحِ
صادِق سے لیکر ضَحوہئ کُبرٰی سے پہلے پہلے)کی تَو نَفل ہوئے پھر بھی اِن کا
پُورا کرنا ضَروری ہے ۔توڑیں گے تو قَضاء واجِب ہوگی۔اگر چِہ یہ بات آپ کے
عِلْم میں ہو کہ میں جو روزہ رکھنا چاہتا تھا یہ وہ روزہ نہیں ہے بلکہ
نَفْل ہی ہے۔ (دُرِّمُختَار مَعَہ، رَدُّالْمُحتَار ،ج٣، ص٣٤٤)
١٦: آپ نے یہ گُمان کرکے روزہ رکھا کہ میرے ذِمّے روزے کی قَضاء ہے،اب
رکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ گُمان غَلَط تھا۔اگر فوراًتوڑدیں تو کوئی حَرَج
نہیں ۔البتّہ بِہتریِہی ہے کہ پُورا کرلیں۔اگر معلوم ہونے کے فوراً بعد نہ
توڑا تو اب لازِم ہوگیااسے نہیں توڑسکتے اگر توڑیں گے تَو قَضاء واجِب ہے۔
( رَدُّالْمُحتَار،ج٣،ص٣٤٦)
١٧: رات میں آپ نے قَضا ء روزے کی نِیَّت کی، اگر اب صُبح شُروع ہو جانے کے
بعدا ِسے نَفْل کرنا چاہتے ہیں تو نہیں کر سکتے ۔ (ایضاً ،ص ٣٤٥ )
١٨:دَورانِ نَماز بھی اگر روزے کی نِیَّت کی تو یہ نِیَّت صحیح ہے۔
(دُرِّمُختَار،، رَدُّالْمُحتَار ،ج٣،ص٣٤٥)
١٩:کئی روزے قَضاء ہوں تَو نِیَّت میں یہ ہونا چاہیے کہ اُس رَمَضان کے
پہلے روزے کی قَضاء ،دوسرے کی قَضاء اور اگر کچھ اِس سال کے قَضاء ہوگئے
کچھ پچھلے سال کے باقی ہیں تَو یہ نِیَّت ہونی چاہئے کہ اِس رَمَضان کی
قضاء اور اُس رَمَضان کی قضاء اور اگر دِن کو مُعَیَّن نہ کیا، جب بھی
ہوجائیںگے۔ (عالمگیری ،ج١،ص١٩٦)
٢٠: معَاذَاللّٰہ عَزَّوَجَلّ آپ نے رَمَضان کا روزہ قَصداً (یعنی جان
بُوجھ کر ) توڑ ڈالا تھا تَو آپ پر اِس روزہ کی قَضاء بھی ہے اور (اگر
کَفَّارے کی شرائط پائی گئیں تو) ساٹھ روزے کفَّارے کے بھی ۔اب آپ نے
اِکسٹھ روزے رکھ لئے قَضاء کا دِن مُعَیَّن نہ کیا تو اِس میں قَضاء اور
کفَّارہ دونوں ادا ہوگئے ۔ (عَالَمگِیری ،ج١، ص١٩٦)
فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
یا اللہ عزوجل ماہ رمضان کے طفیل برما کے مسلمانوں
کی جان و مال ،عزت آبرو کی حفاظت فرما۔اٰمین
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم و عنایت سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے |