گُزشتہ سے پیوستہ۔
آغا بابر عادی مجرم نہیں تھا۔ اُور نہ اِس سے پہلے اُسکا پولیس سا واسطہ
پڑا تھا۔ بلکہ بعض پُولیس افسران تو خُود شہریار مجددی کی نسبت کیوجہ سے
آغا بابر کو اِضافی پروٹوکول دِیا کرتے تھے۔ لیکن آغا بابر نے پُولیس کی
چند گھنٹوں کی ابتدائی تواضع کے بعد ہی اپنے جُرم کا اقبال کرلیا۔ اُور
مزید کُچھ مہمان نوازی کے بعد وُہ ساڑھے تین کروڑ روپیہ کی رقم بھی لُوٹانے
پر رضامند ہُوگیا جو اُس نے مختلف حیلے بہانوں سے خُرد بُرد کی تھی۔
صرف ایک ہفتہ کے قلیل عرصے میں ڈی ایس پی اعتصام مجددی کی خاص توجہ کے باعث
نہ صرف آغا بابر سے رقم بازیاب کرالی گئی بلکہ وہ تمام میٹریل بھی تاجروں
نے تبدیل کردیا۔ جو دھوکہ دہی سے فرقان کی سائٹ پر جمع ہُوچُکا تھا۔ جبکہ
حماد اینڈ سنز کا کوٹیشن منسوخ کرنے کے بعد فرقان کی فرمائش پر وہ ٹھیکہ
ٹھیکیدار عبدالرحمن کو نئے سِرے سے دیدیا گیا۔
اَب مزید پڑھیئے۔
فرقان کا ٹھیکدار عبدالرشید کو کام دیئے جانے کا مشورہ نہایت مُفید ثابت
ہُورہَا تھا۔ عبدالرشید نے سب سے پہلے فرقان کے مشورے سے نقشہ میں کچھ
تبدیلیاں کروائیں۔ جسکی وجہ سے کُچھ غیر ضروری بلڈنگ کی تعمیرات کو فی
الحال چھوڑ دیا گیا۔ جسکی فیکٹری کو کم از کم پانچ برس تک کوئی ضرورت ہی
نہیں تھی۔ جبکہ کُچھ دیواروں کی اُونچائی اور حجم کو بھی کم کیا گیا۔ اس کے
علاوہ فیکٹری کے فرنٹ ایلیویشن کو نہایت سادہ رکھا گیا۔ اِن تمام تبدیلیوں
اُور آغا بابر کے کمیشن خُور ایجنٹوں سے نجات کے باعِث فیکٹری کی تعمیرات
کے بجٹ میں کم از کم چالیس لاکھ روپیہ کی بچت متوقع تھی۔ عبدالرشید کے
تجربے اُور اِخلاص کے باعث فرقان کو آج بھی کوئی ذہنی الجھن نہیں تھی۔
البتہ عبدالرشید کے مشورے پر فیکٹری کے تمام میٹریل کی خریداری اَب فرقان
ہی کررہا تھا۔ جسکی وجہ سے تمام خام مال نہایت ارزاں قیمت پر بہترین کوالٹی
کیساتھ فیکٹری کی تعمیرات میں شامل ہُورہا تھا۔ اور عبدالرشید کی خاص
دلچسپی کے باعث فیکٹری کا پروجیکٹ ایک برس کے بجائے صرف آٹھ ماہ میں مکمل
ہُونے کی اُمید تھی۔
تمام کام خُوش اسلوبی سے جاری تھا۔ ہر نیا دِن فیکٹری کے مکمل ہُونے کی
نوید سُنا رہا تھا۔ مشینری کی خریداری شہریار مجددی کے سپرد تھی۔ کافی
مشینری نصب بھی ہُوچُکی تھی ۔ لیکن چھ ماہ گُزر جانے کے باوجود بھی شہریار
مجددی پاکستان شفٹ نہیں ہُو پائے تھے۔ البتہ وہ کُچھ وقت نِکال کر مہینے
میں چار پانچ دِن کیلئے پاکستان ضرور آجاتے تھے۔ اُور فیکٹری کی تعمیر سے
مطمئین تھے۔ فرقان کو بس ایک کمی محسوس ہُورہی تھی۔ کہ اُسکی معاونت کرنے
کیلئے کوئی آغا بابر کی طرح کا ہوشیار آدمی نہیں تھا۔ جو باہر کے معاملات
میں اِسکا ہاتھ بٹا سکتا۔ لیکن آغا بابر کے تجربے کے بعد فرقان بُہت ذیادہ
محتاط ہُوگیا تھا۔ پھر ایک دِن اُسکے دِل میں خیال آیا کہ ،، وہ کیوں نہ
حسَّان صاحب سے اِس مُعاملہ میں مدد حاصِل کرئے۔
یہی سُوچ کر اُس شام وہ حَسّان صاحب کی طرف چلدیا۔ نصف راستہ طے کرنے کے
بعد جب وہ شہر کے ایک مشہور ہاسپٹل کے قریب سے گُزر رَہا تھا۔ اُسکی نِگاہ
اُسی بنک منیجر کرامت صاحب پر پڑی۔ جُو کہ فرقان کے خیال کے مطابق نعمان
اور فرقان کے درمیان جُدائی کا سبب بنا تھا۔ فرقان کے دِل میں جب بھی کرامت
صاحب کا خیال آتا۔ تب ایک بات شِدت سے اُسکے ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیا
کرتی تھی۔ کہ کاش وہ کرامت صاحب کا مُنہ نوچ لے۔ جسکے پرپوزل کی وجہ سے اُن
دُونوں دوستوں کے درمیان غیریت کی دیوار حائل ہوگئی تھی۔ کرامت صاحب کے
نزدیک سے گُزرنے پر فرقان نے دیکھا کہ کرامت صاحب ایک ڈاکٹر کی منت سماجت
کررَہے ہیں ۔
کرامت صاحب سے لاکھ اِختلاف کے باوجود بھی فرقان کو جُونہی یہ بات سمجھ میں
آئی کہ کرامت صاحب اِس وقت کسی مشکل میں گرفتار ہیں۔ وہ اپنی طبعیت کے
برخلاف وہاں سے بے رخی برت کر نہیں گُزر سکا۔ فرقان نے کار کو پارکنگ ایریا
میں لگایا اور کرامت صاحب کی پریشانی جاننے کیلئے اُن کی جانب بڑھتا چلا
گیا۔
کرامت صاحب سے مُلاقات کے بعد فرقان کو معلوم ہُوا کہ کرامت صاحب کی چودہ
برس کی بیٹی چند ماہ سے کینسر کے مرض میں مُبتلا ہے اُور تقریباً ۳ ماہ سے
اِسی ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ کرامت صاحب کی بیٹی ہی انکی اکلوتی اُولاد
تھی۔ جنہیں اب ڈاکٹرز لاعلاج قرار دے چُکے تھے۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ
کرامت صاحب کی بچی کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں تھا۔ جبکہ کرامت صاحب کے
وسائل اسقدر نہیں تھے۔ کہ وہ اپنی بچی کو علاج کیلئے بیرون مُلک لیجاسکتے۔
فرقان نے جب کرامت صاحب کی رُوداد اُنکی زُبانی سُنی تو وہ تمام اختلاف
بُھلا کر کرامت صاحب کی دلجوئی کرتے ہُوئے کہنے لگا۔
کرامت صاحب آپ دلبرداشتہ نہ ہُوں انشاءَ اللہ آپکی بچی ایک دِن ضرور صحتیاب
ہُوگی ۔ آپ خود بھی دُعا کرتے رہیں۔ اُور اللہ والوں سے بھی دُعا کی
درخواست کرتے رہیں۔ کیونکہ جنہیں اللہ کریم سے نِسبت ہُوجاتی ہے اللہ کریم
اُنکی دُعاؤں کو کبھی رد نہیں فرماتا۔ جو اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ
کریم کی رضا کیلئے وقف کرچُکے ہُوں اللہ کریم بھی اُنکی بھیگی آنکھوں اُور
اُٹھے ہُوئے ہاتھوں کی لاج ضرور رکھتا ہے۔ ویسے میں بھی اِس وقت ایک اللہ
کے ولی کے آستانے پر حاضر ہُونے کی سعادت حاصِل کرنے جارہا تھا۔ اب
انشاءَاللہ اُن سے کہوں گا کہ وہ آپکی بچی کیلئے ضرور دُعا کریں۔ مجھے قوی
یقین ہے کہ اگر میں اُنکے ہاتھ اُٹھوانے میں کامیاب ہُوگیا ۔ تُو آپکی بچی
کو اِک نئی زندگی ضرور حاصِل ہُوجائیگی۔
فرقان کی اخلاص بھری باتوں سے کرامت صاحب کا حُوصلہ بُلند ہُونے لگا تھا۔
کرامت صاحب نے تشکر کے جذبے سے فرقان کے ہاتھ دباتے ہُوئے کہا فرقان بھائی
اگر آپ کی اِجازت ہُو تُو میں بھی اُنکی زیارت کا شرف حاصِل کرنا چاہوں
گا۔۔۔۔۔۔؟ فرقان نے خُوشدلی سے جواباً کرامت صاحب کے ہاتھوں کو تھامتے
ہُوئے کہا۔۔۔۔ کیوں نہیں کرامت صاحب آپ ضرور میرے ساتھ چلیں۔
حسَّان صاحب نے کرامت صاحب کا تعارف حاصِل کرنے اُور تمام کہانی کرامت صاحب
کی زُبانی سُن لینے کے بعد دُعا کرنے سے قبل کرامت صاحب سے ایک سوال
کیا۔۔۔۔ کرامت صاحب ایک بات تُو بتایئے کہ آپ جِس بنک میں مُلازم ہیں کیا
اُسکے مالکوں سے لڑائی اور ضد قائم رکھنے کے بعد بھی آپ آسانی سے اُسی بنک
میں اپنی مُلازمت پر قائم رِہ پائیں گے۔۔۔۔۔۔۔؟
کرامت صاحب نے حیرت سے حسَّان صاحب کی طرف دیکھتے ہُوئے کہا،، حضرت یہ کِس
طرح ممکن ہے۔ یقیناً اِس تمام معاملہ میں ہار میرا مُقدر ہُوگی۔ کیونکہ جب
میرے مالک ہی میرے کام سے خُوش نہیں ہُونگے تُو وہ کبھی بھی میرا وجود اپنی
فرم میں برداشت نہیں کرپائیں گے۔
پھر آپ اللہ کریم کے واضح حُکم کے خِلاف جاکر اُور سُودی سسٹم کا حِصہ بننے
کے باوجود یہ توقع کیوں رکھتے ہیں۔ کہ وہ کریم پروردگار جس نے آپکو عزت عطا
فرمائی۔ علم عطا کیا، رزق مُہیا کیا ، اُور اُولاد کی نعمت سے نوازا،، مگر
آپ نے پھر بھی اُسکا شُکر ادا کرنے کے بجائے وہ راہ اِختیار کی۔ جس راستے
کو اُس پاک کریم رب نے اپنی مُخالفت کا رستہ بتایا۔ کیا آپ ظالموں اور
غریبوں کے لہو سے اپنی حیات کا رِشتہ قائم رکھنے والوں کے لشکر میں شامل
ہُونے کے باوجود بھی ۔ اُور اپنی تمام تر نافرمانیوں کے صلہ میں یہ اُمید
رکھتے ہیں۔ کہ آپ کی زندگانی تنگ نہ ہُوگی۔ آپ کے چمن میں ہمیشہ بہار رہے
گی۔ اُور خِزاں اور خار کبھی آپکا مُقدر نہیں بنیں گے۔۔۔۔۔۔؟ اُور اگر آپ
ایسا ہی سُوچتے رہے ہیں۔ تو کرامت صاحب مُعاف کیجئے گا۔ پھر تُو آپ نے
رازِق حقیقی کو اپنے دُنیاوی آقاؤں کی خُوشنودی سے بھی کم جاننے کا گُناہِ
عظیم کیا ہے۔ ذرا دِل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجئے گا۔ کہ کیا آپ خُود اپنی
بچی کی حالت کے زِمہ دار نہیں ہیں۔ حَسَّان صاحب نے نہایت دلسوز انداز میں
کرامت صاحب کو دیکھتے ہُوئے کہا۔
کرامت صاحب کی زُباں حَسَّان صاحب کے بیاں کے آگے گنگ ہُوچُکی تھی۔ البتہ
اُنکی چشم کے آبگینے مسلسل چھلک رہے تھے۔ جو یہ بتانے کیلئے کافی تھے کہ
دِل کی زمین ابھی بالکل بنجر نہیں ہُوئی ہے۔ بلکہ وہ زَرا سی نمو کی منتظر
ہے۔ کرامت صاحب نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد سسکتے ہُوئے کہا حضرت اگرچہ
میری ریٹائرمنٹ میں صرف چار سال کا فاصلہ حائل ہے۔ اُور مجھے اپنے اسٹیٹس
یا ریٹائرمِنٹ کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ لیکن میں اپنی بچی کی خاطر اگر یہ
قربانی دے بھی دُوں۔ تب بھی میں عُمر کے اُس حصے سے گُزر رَہا ہُوں۔ جہاں
نہ میرا ناتواں جسم مزدوری کے قابل ہے اُور نہ ہی مجھے کوئی ہُنر آتا ہے کہ
جس سے اپنے گھر والوں کی کفالت کرسکوں۔۔۔۔۔؟ تمام زندگی میں کُچھ معمولی سی
رقم ہی پس انداز کرپایا تھا۔ یا بیگم کے زیورات تھے۔ مگر وہ بھی بچی کی
بیماری کے نذر ہوچُکے ہیں۔ ڈرتا ہُوں کہ کہیں میری تُوبہ اُور میری قُربانی
میرے اپنوں کے گلے کا پھندہ نہ بن جائے اُور میں پچھتاوے کے بِحر بیکراں
میں گرفتار ہُو کر نہ رِہ جاؤں۔
توبہ اُور قربانی میں شرط نہیں رکھی جاتی امتیاز میاں۔ بے یقینی کی دلدل سے
یقین کی رسی ہی تُم کو باہر نِکال سکتی ہے۔ تُم ایک قدم بڑھاکر تُو دیکھو
پھر دیکھنا وہ کریم کس طرح تُمہاری مدد کے راستے کھولتا ہے۔ بیٹی بھی مِل
جائے گی۔ اُور رَب کی رضا بھی۔ مگر فیصلہ تُمہی کو کرنا ہے البتہ میں
تُمہیں یقین دِلاتا ہُوں کہ اِس قربانی کے بعد آپ بے روزگار نہیں رہیں گے۔
فرقان میاں کی نئی فیکٹری میں آپ جیسے تجربے کار لوگوں کی اشد ضرورت ہے۔
اُور جہاں تک بچی کی صحت کا مُعاملہ ہے۔ تو بزرگوں کی نعلین کے صدقے میں ہم
ایک ایسی دوا جانتے ہیں جو اِس مرض میں اکسیر کا مقام رکھتی ہے۔ آپ بچی چند
دِنوں کیلئے ہمارے گھر چھوڑ جائیے گا۔ اللہ کریم نے چاہا تو صحت مِل جائے
گی۔ کیونکہ شِفا اُسکے حُکم میں ہے دوا تُو صِرف بہانہ ہے۔ حسان صاحب نے
کرامت صاحب کی تشویش کا جواب دیتے ہُوئے کہا۔
پھر آپ ہی توبہ کرادیجئے۔ تاکہ میری نئی زندگی کا آغاز آپ ہی کے آستاں سے
ہُوجائے۔ کرامت صاحب کا جُملہ مکمل ہُوتے ہی حسان میاں نے وجد میں باآواز
نعرہ تکبیر بُلند کردیا۔
(جاری ہے)
مُحترم قارئین کرام ،، آپ سب سے دُعاؤں کیلئے ملتمس ہُوں۔ مجھے یقین ہے کہ
رمضان المبارک کی اِن بابرکت ساعتوں میں آپکے ہاتھوں کی بُلندی کے دوران
میں آپکی دعاؤں کا حِصہ ضرور رہا ہُونگا۔
پلکوں سے دَرِ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا |