کلثوم نے ایک غریب گھرانے میں
آنکھ کھولی اور امام مسجد سے چند ابتدائی دینی قاعدے پڑھنے کے بعد قرآن
مجید کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر گھر کے کاموں میں جُت گئی۔سکول کی تعلیم بھی
نہ ہونے کے برابر تھی۔
سات بہن بھائیوں میں اُسکا چوتھا نمبر تھااوروالد صاحب ایک سرکاری دفتر میں
معمولی سے چپراسی تھے۔کلثوم کا صرف ایک ہی بھائی تھا ، جو سب سے بڑا تھا
لیکن یہ بڑائی صرف عمر کی تھی کیونکہ وہ تو سارا دن نشے میں دھت پڑا
رہتا،نہ گھر کی فکر اور کمانے کی چنتا۔ایک، آدھ کنال کا گھر تھا جو گاﺅں
میں معمولی سے معمولی بندے کے پاس بھی اپنا ذاتی ہوتا ہے لیکن کلثوم کا گھر
علاقے کے خان رفاقت علی کی عنایت تھی۔ اس تحفے کے پیچھے وہ خدمت تھی جو
کلثوم کا والد ڈیوٹی کے بعد خان کی بیٹھک میں کرتا تھا۔ ہزاروں منہ تو
ہزاروں باتیں ، اور کچھ محلے والے تو اس تحفے کی وجہ کلثوم کی والدہ کا
چمپئی رنگ بتاتے تھے۔کچی مٹی کے بنے ہوئے دو کمرے اور چند مرلے کا صحن
کلثوم کی زندگی کا کل اثاثہ تھا۔
باقی بہنو ں کی نسبت کلثوم کو اپنے رنگ روپ پر کافی ناز تھا اور کیوں نہ
ہوتا، کیونکہ اُسکا کھلتے گلاب جیسا رنگ اور تیکھے نین نقش کا جادوسر چڑھ
کر بول رہا تھا۔باقی بہن بھائی اپنے والد کے مشابہہ ، کالے کلوٹے اور بدھے
سے جسم والے تھے مگر کلثوم اپنی والدہ پر گئی تھی۔ اور باقی گھر والوں سے
الگ تھی۔ اُسکے گھر کی دیواریں چھ فٹ کی تھیں لیکن گھر کے مشرق کی طرف ایک
خالی میدان تھا اس لیے گھر کا کوڑا سی مشرقی دیوار کے ساتھ پھینکا جاتا تھا
جس سے اس کی اونچائی کا فی گھٹ گئی تھی اور اس ڈھیر پر کھڑے ہوکر کوئی بھی
گھر کا جائزہ آسانی سے لے سکتا تھا۔ اس پر مستزاد ایک انگور کی بیل تھی جو
آدھے سے زیادہ دیوار کو ڈھانپے رکھتی تھی۔ تغیراتِ زمانہ کے ساتھ ساتھ
ہمارے علاقے کی معاشرت بھی بدل رہی ہے اور گھروں میں چھوٹے چھوٹے کاموں کے
لئے بھی نوکرانیاں رکھی جاتی ہیں۔ کام خواہ کچھ ہو یا نہ ہو لیکن نوکرانی
رکھنا سٹیٹس کے لیے اچھا سمجھا جاتا ہے ۔ پھر غمی خوشی کے مواقع پریہ
بیگمات بیٹھ کر اپنی نوکرانیوں کے قصّے سُناتی ہیں اوردُنیا والوں کو بتاتی
ہے کہ دیکھو میرا شوہر مجھے کسی چیز کو ہاتھ بھی لگانے نہیں دیتا ، دو دو
نوکرانیاں گھر میں رکھی ہیں۔ اورپھر بیٹھ بیٹھ کر یہی عورتیں چند سالوں میں
گوشت کی چلتی پھرتی پبلسٹی کیمپین بن جاتی ہیں۔کلثوم کو سولہواں سن چڑھا
تھا اور وہ بھی باقی بہنوں کے ساتھ گھروں میں جاکر کام کاج کرتی۔ جس کے
بدلے میں دو وقت کا کھانا ،چند سکے اور پرانے کپڑے ملتے۔اور اسی کو پاکر وہ
اپنے سپنے بنتی۔کیونکہ خواب تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں ۔ جس پر کوئی خرچہ
نہیں آتا۔
شریف خان سے کلثوم کی ملاقات نِدا آپا کے گھر میں ہوئی تھی ۔ورنہ وہ بھی
اسی محلے میں پَلا بڑھا تھا لیکن کلثوم نے کبھی اُس پر توجہ نہیں دی تھی۔
شریف خان کی شکل و صورت تو عام سی تھی لیکن زبان میں بلا کی تیزی اور کاٹ
تھی ۔ خُدا نے بولنے کا ایسا ملکہ دیا تھا کہ دس منٹ کسی سے بات کر لے تو
وہ بندہ مدتوں اسکے سحر سے نہ نکلے۔ کلثوم بھی اُسکے سحر میں پھنس گئی ،
جانے عشق تھا یا ٹائم پاس لیکن دونوں اسے محبت ہی سمجھنے لگے ۔ عام انسانوں
کا عشق ہمیشہ بے عزتی کے خوف تلے سسکتا رہتا ہے کیونکہ یہ کسی کرکٹ سٹار
اور ٹینس سٹار کا عشق نہیں ہوتا ،جسے میڈیا بڑھا چڑھا کر پیش کرے،اور باعثِ
شہرت سمجھا جائے، یہ عام انسانوں کا عشق تھا،جو خوف اور بے عزتی کے سائے
میں پلتاتھا ۔کہتے ہیں کہ بچپن کی اُنسیت اور نوجوانی کا عشق بُھلائے نہیں
بھولتا، اور بار بار ملاقاتوں پر مجبور کرتاہے۔اور یہاں بھی کچھ ایسے ہی
حالات تھے۔
ہمارا معاشرہ سخت پشتون روایات تلے دبا ہوا ہے، عشق ومحبت کتابوں اور لوک
داستانوں کی حد تک قابِل قبول اور سر دُھننے لائق سمجھے جاتے ہیں۔ عام
زندگی میں اسے گالی سے یاد کیا جاتا ہے۔اور عاشق و معشوق دنیا کی دُھتکار
سہتے ہیں اگر زندہ بچ جائیں تب۔۔!
شریف خان دن بھر منڈی میں بوریاں اُٹھا کر چار پیسے کماتا جس میں سے کچھ
چرس کے دھویں کی نظر ہوتے اور کچھ کلثوم کے تحفوں کی نظر۔ شریف میں لاکھ
عیب سہی لیکن کلثوم کو تو اُس میں خوبیاں ہی خوبیاں نظر آرہی تھیں ۔وہ
احساسات کو جھلسا دینے والی غربت میں بھی شریف خان کے سپنے دیکھتی اور اُسی
کی یادوں کے سہارے دن سے رات کرتی۔اُسکی ماں اور بہنیں اُسکی راز دان تھیں
لیکن باپ بھائی کو بات کی ہوا تک لگنے نہیں دی۔
وقت کا گھوڑا پر لگا کر اُڑتا رہا ، اور تواترسے ملاقاتیں ہوتی رہیں،زندگی
بھی اپنی بہار دکھا رہی تھی۔مگر سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں۔اور بُرے زمانے
کبھی پوچھ کر نہیں آتے۔ایسی ہی گرمیوں کی ایک چلچلاتی دوپہر میں جب والد
ڈیوٹی پر اور بھائی اپنے دوستوں کے ساتھ آوارگی میں مصروف تھا، شریف خان نے
مشرقی دیوار کی طرف سے اندر جانکا۔ دیوار چھوٹی تھی اس لیے وہ انگور کی بیل
کی آڑ لیکر کھڑا ہوگیااور کلثوم کے کمرے سے باہر آنے کا انتظار کر نے لگا ۔
شدید گرمی کی وجہ سے گلی سنسان تھی اور لوگوں کے آنے کا کوئی ڈر نہ تھا۔جب
کلثوم کمرے سے باہر نکلی تو ہلکی سی سیٹی بجاکراُسے اپنی جانب متوجہ کیا۔اس
نے ادھر اُدھر دیکھ کر اثبات میں سر ہلایا اور شریف خان دیوار پھلانگ کر
انگور کی بیل کی آڑ لیکر بیٹھ گیا۔کلثوم نے کمروں کے ایک دو چکر لگائے اور
ہر طرف سے مطمئن ہونے کے بعد گھر کے دروازے کی زنجیر چڑھا کر شریف خان کی
پاس آکر بیٹھ گئی۔گرمی کی وجہ سے کلثوم کے ماتھے سے پسینہ موتیوں کی طرح
قطرہ قطرہ ٹپک رہا تھا۔جسے وہ پلو سے بار بار پونچھ رہی تھی اورشریف خان کے
ساتھ راز و نیاز کی باتیں کر رہی تھی۔وصال کا وقت تھااسی لیے گھنٹے منٹوں
کی مانند گزرنے لگے۔یہ وقت کی بے مروتی تھی یا قسمت کا لکھا کہ بھائی نے
گھر والوں کو جگانا مناسب نہ سمجھا اور دروازے کے دونوں پٹ کھینچ کرا پنا
لاغر سا ہاتھ اندر داخل کیا اور زنجیر چھن کی آواز سے گر گئی ۔بھائی کی
توجہ انگور کی طرف جاتی یا نہ جاتی لیکن وحشت کی وجہ سے شریف و کلثوم دونوں
یکایک کھڑے ہوگئے۔شریف نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅدیوار پھلانگ کر بھاگ نکلا۔ لیکن
کلثوم کا جسم پسینے سے شرابور تھر تھرکانپ رہا تھا۔بھائی نے غصے میں گالیاں
بکنا شروع کیں جس کے شور سے ماں بھی جاگ کر کمرے کے دروازے تک آگئی ۔ کلثوم
چپ چاپ کھڑی اپنی ماں کو لرزتے ہونٹوں اور ملتجی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
یکایک ایک دھماکا ہوا ،اور لوہے کا ایک ٹکڑا کلثوم کے دل سے سینکڑوں خوابوں
کی دھندلی تصویر مٹاتے ہوئے پار نکل گیا۔ماں بیٹی دونوں بے سُدھ ہو کر زمین
پر گر پڑیں، اورگھر سے بین کا شور اُٹھنا شروع ہوگیا۔ بھائی ہاتھ میں پستول
لیے تیزی سے گھر سے باہر چلا گیا۔
عصر کے بعد پولیس آئی اور گھر کا جائزہ لینے لگی۔ماں کو کچھ ہوش نہ تھا
لیکن کبھی کبھی چارپائی میں بیٹھ کر کلثوم کو آواز دیتی اور سسکیاں
بھرتی۔قریبی کیمسٹ نے آکر اُسے نشے کے انجیکشن دیے، جو شاید ہی ماں کے دل
سے ،خون سے خون کے قتل کا نشہ اُتار سکے۔
رفاقت علی خان علاقے کے SHO کے ساتھ تھا ، اور اُسے چائے ٹھنڈی ہوجائے گی
!کہہ کر اپنی بیٹھک کی طرف لے جارہا تھا۔تھانیدرار نے گھر کی نقشہ چند
لکیریں کھینچ کر بنایا اور خودکشی لکھ کر رفاقت علی خان کے ساتھ چلا گیا۔
قتل کو خودکشی ظاہر کرنے کا سودا دس ہزار میں طے ہوا تھا۔ شریف خان کوآج تک
کسی نے علاقے میں نہیں دیکھااورنہ اُس کے بارے میں کسی نے کچھ سُنا۔
مگر وہ کلثوم کو موت کے منہ میں اکیلا چھوڑ کر جانے کہاں بھاگ
گیا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |