ماہ رمضان میں ہر مسلمان نماز
عشاءاور نماز تراویح کی ادائیگی کے بعد جلدی سونے کی کوشش کرتا ہے تاکہ
سحری کے اہتمام کیلئے بروقت جاگا جاسکے، لیکن شدت گرمی اور لوڈشیڈنگ کی وجہ
سے آجکل نیند کا پورا ہونا ممکن نہیں رہا، گزشتہ رات بھی یوں لگا کہ جیسے
ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ اچانک ایک شور سا برپا ہوا جس نے بیدار کردیا،ایک
ڈھول والا اسقدر بے دردی سے ڈھول پیٹ رہا تھا کہ جیسے وہ بھی واپڈا والوںکا
غصہ ڈھول پر نکال رہا ہویقین مانیئے! مجھے ڈھول کی چیخوں میں 19 کروڑ عوام
کی صدائیں بدعاﺅں کی شکل میں سنائی دے رہے تھیں جو یقینا حکمرانوں کے” نامہ
اکاﺅنٹ“ میں درمنافع ڈائریکٹ جمع ہورہی ہوں گی، البتہ میں نے اپنے تکیے کے
نیچے رکھے موبائل فون پر وقت دیکھا تو وقت سحر شروع ہوچکا تھا، نیند پوری
نہ ہونے کے باعث تھکان اور بیزاری بستر چھوڑنے کو راضی نہ تھی، چند
ساعتوںبعد قرب و جوار کی مساجد کے لاﺅڈ سپیکرز پر تلاوت اور حمد ونعت کی
آوازیں سنائی دینے لگیںجبکہ قریبی جامع مسجد انوارمدینہ کے امام قاری محمد
نعیم عطاری مدظلہ نے اہتمام سحری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ روزہ دارو،
اللہ نبیؑ کے پیارو، جنت کے حقدارو !اٹھو اور سحری کا اہتمام کرو، ان الفاظ
نے ایسی سرائیت بخشی کہ وجود توانا ہوگیااورمیں نے بسترکو خیر آباد کہا اور
اہتمام سحری کی جستجو شروع کردی،
مسلمان بہن بھائیو! رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور
تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے، اب عشرہ رحمت (یعنی پہلا عشرہ) گزر چکا
اور دوسراعشرہ مغفرت شروع ہے جس میں خداوند تعالیٰ سے اپنے صریحاً، قصداً
اور چاہتے نہ چاہتے سرز دکردہ گناہوں کی معافی طلب کریں، حضرت سری سقطی ؒ
رمضان المبارک کی ایک شب یوں گریہ زار تھے کہ دیکھنے والوں کی بھی ہچکیاں
بندھی ہوئی تھیں صاحب راز خود سجدہ ریز ہو کر بار بار مغفرت خداوندی طلب
کررہے تھے اور اسرار یہی تھا کہ بلا شرط و باز پرس گناہوں سے معافی عنایت
ہو یہاں تک کہ رات وقت سحر میں داخل ہوگئی ، حضرت سری سقطی ؒ نے سر سجدہ
مغفرت سے اٹھایا تو شاگرد رشید حضرت شاہانی ؒ نے طوالت سجدہ آہ و زاری کا
سبب آشکار کرنے کی درخواست کی جس پر آپ نے فرمایا کہ ”تونہیں جانتا کہ عشرہ
رحمت ہم سے رخصت ہوچکا اور عشرہ مغفرت ہمارے درمیاں ہے جس کی ہر ساعت
گناہوں سے معافی کیلئے منادی ہے“ اس ارشاد کا حضرت شاہانیؒ پر ایسا اثر ہوا
کہ دوران عشرہ مغفرت اللہ تعالیٰ کے حضور معافی و تلافی کے طلبگار رہے،
مذکورہ واقع بیان کرنے کا مقصد تحریر کا محاصل زہن نشین کروانا ہے تاکہ ہم
بھی خدا کے حضور گریہ زاری کا اہتمام کریں اور توبہ النسوح کے ذریعے گناہوں
سے مغفرت طلب کریں،
کہتے ہیں کہ جب انسان دستر خوان پر سامان افطاری سامنے رکھ کر اعلان افطار
کا منتظر ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ بڑے فخر سے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ دیکھو!
میرے بندے کے سامنے مختلف اقسام کی خوراک ، پھل، لذیز اور خوشبودار طعام و
پینے کیلئے طرح طرح کے مشروبات دستر خوان پر چنے ہیں مگر وہ (دن بھر کی
شدید بھوک و پیاس کے باوجود)میرے احکامات کی بجاآوری کرتے ہوئے میرے خوف سے
انہیں کھا پی نہیں رہا ، تب اللہ تعالیٰ انسان سے فرماتا ہے کہ ” اے میرے
بندے “ مانگ آج میں تیری ہر دعا قبول کرونگا، اذان مغرب سے قبل اللہ تعالیٰ
دستر خوان پر مانگی گئی روزہ دار کی ہر دعا قبول فرماتا ہے ، ایک اور مقام
پر ارشاد ہے کہ ”جب بندہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ
فرشتوں سے فرماتا ہے کہ آج آسمان میں چراغاںکردو ، فرشتے اسکا سبب دریافت
کرتے ہیں تو ارشاد خداوندی ہوتا ہے کہ آج میرے اس گنہگار بندے نے توبہ کرکے
مجھ سے دوستی کرلی ہے جاﺅ آج ناصرف اسکے گزشتہ گناہوں کو مٹا دو بلکہ تما م
گناہ نیکیوں میں بدل دو“ مسلمان بہن بھائیو! اپنے دستر خوانوں پر سامان
افطار رکھ کر اعلان افطار سے قبل صدق دل سے جو دعا بھی خدا تعالیٰ کے حضور
ہاتھ اٹھا کر مانگی جائے گی انشاءاللہ ہاتھ دعائے خیر سے فارغ ہونے سے قبل
بصدقہ نبی کریمﷺ شرف قبولیت حاصل کرے گی،
یقینا رمضان المبارک مسلمانوں کیلئے سراپا رحمت اور خیر و برکت ہے یہ وہ
مہینہ ہے کہ جس میں فراوانی زرق کےساتھ ساتھ اعمال صالح کا ثواب بھی 70گناہ
بڑھادیا جاتا ہے، لہذا جو لوگ محض شدت گرمی اور طویل الوقتی (16تا17گھنٹے
کے دورانیہ)کے باعث روزہ نہیں رکھتے ، اور اس فرسودہ و بیہودہ خیال کو
زہنوں میں وجود دیئے ہوئے ہیں کہ روزہ انکا روزگار کش ثابت ہوسکتا ہے،
دفتری امور میں دشواری لاحق ہوسکتی ہے، محنت پیشہ افراد کو مزدور ی کا
فقدان لاحق ہوسکتا ہے یا جسمانی نکاہت وکمزوری کا سبب بن سکتا ہے یہ انکی
ذہنی اخطراع و غلط سوچ ہے، حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ رزق انسان کو ایسے
تلاش کرتا ہے کہ جیسے موت زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے، یہاں قابل فہم امر
یہ ہے کہ آج دنیا و مافیہا میں انسان کسی بھی کام کا طے شدہ معاوضہ حاصل
کرتا ہے مگر روزہ ایک ایسی انمول عبادت ہے کہ جس کا صلہ خدا تعالیٰ اپنے
روزہ دار کو کئی گناہ زائد عطا فرماتا ہے ،
ماہ صیام کے پر نور و مبارک ایام میں اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری الہامی و
رشد و ہدایت پر مبنی لازوال کتاب ”قرآن مجید“ کے نزول کا آغاز فرمایا جو
عرصہ 23سال میں مکمل ہوا، سورة البقرہ کی آیت نمبر 185کا خلاصہ ہے کہ” قرآن
پاک ماہ رمضان میں نازل ہوا“جو ہر کسی کیلئے ضابطہ حیات ہے، اس ماہ کے روزے
فرض قرار دیئے گئے ہیں، جو مسلمان خلوص نیت کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے
رکھتا ہے اور پانچ وقتہ نماز کی ادائیگی کی پابندی وتلاوت قرآن معمول
رکھتاہے اور اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق گزارنے کی سعی کرتا ہے
تو ایسے شخص کے سابقہ تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں، رمضان المبارک مسلمانوں
کیلئے ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جس پر خدا تعالیٰ کا جتنا
بھی شکر بجالایا جائے کم ہوگا، یہ نوع انسانی کیلئے ایک گلدستہ کی مانند ہے
کہ جس کی خوشبو سے پوری کائنات معطر ہوجاتی ہے ، خدا تعالیٰ یقینا آگاہ ہے
کہ اسکا بندہ کماحقہ عبادات کا حق ادا نہیں کرپاتا ، خشوع و خضو کے تقاضے
پورے نہیں کرپاتا، الغرض عبادات کواس شایان شان طریقہ سے ادائیگی یقینی
نہیں بھی بنا پاتا مگر صلہ و جزا اسکا مقدر ضرور بنتی ہے، اگر یہ کہا جائے
تو یقینا غلط نہ ہوگا کہ رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ وہ
انمول تحفہ ہے کہ جس میں ہم سال بھر کی اپنی کوتاہیوں اور بے ضابطگیوں و بد
اعمالیوں کا خمیازہ عبادات کی بجاآوری کی صورت میں یقینی بناسکتا ہے ، یہ
مہینہ امت مسلمہ کو رحمت دو عالم حضور نبی کریم ﷺ کی دعا و طلب ہے جسے مسلم
امہ کیلئے خصوصی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہے خصوصاً وہ لوگ جو سال بھر
عبادات و فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کے مرتکب رہے ہوں وہ اس ماہ میں
عبادات کی کثرت کے ذریعے ریکوری یقینی بناسکتے ہیںالبتہ خلوص نیت لازم امر
ہے، لہذا سحر و افطار کی پابندی کےساتھ ساتھ فرضی عبادات کی ادائیگی اور
تلاوت قرآن پاک کی کثرت اور درود وظائف کو عادت بنالیں تو اس ایک ماہ کی
عبادات اور نبی کریمﷺ کے صدقے اللہ تعالیٰ انکے تمام گناہ معاف فرما کر
انہیں صراط مستقیم عطا فرماتا ہے اور دوسری طرف زرق میں اضافہ کےساتھ ساتھ
خزانہ غیب سے مدد فرمائی جاتی ہے ، انکے سر پر رحمت سایہ فگن رہتی ہے،
”روزہ دارو، اللہ نبی کے پیارو“ جنت کے حقدارو ! ایک التماس ہے کہ آپ
اہتمام روزہ کیلئے وقت سحر اٹھتے ہیں تو نماز تہجد کی ادائیگی کو بھی معمول
بنالیں اور دوران امور سحر دوردو سلام کا ورد بھی لازم رکھیں اور گناہوں سے
معافی کے طلبگار رہیں،ایک آخری قابل بیان امر ہے کہ دوران رمضان طاق راتوں
میں سے ایک رات لیلة القدر بیان فرمائی گئی ہے جس کے بارے میں ارشاد پاک ہے
کہ اس رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل و اعلیٰ ہے لہذا خوش
قسمتی سے لیلٰة القدر میسر آنے پر رات بھر عبادات کی کثرت کے ساتھ ساتھ خدا
کے خضور اپنے اور دیگر مسلمان بھائی بہنوں کی دنیاوی و اخروی کامیابی کیلئے
بھی دعا گو ضرور ہوں،
قاری محمد نعیم عطاری کے ہر روز بوقت سحر ادا کردہ یہ الفاظ ”روزہ دارو،
اللہ نبی کے پیارو، جنت کے حقدارو !“ اسی وقت ہم پر مصداق آئیں گے کہ جب ہم
اہتمام عبادات کو حقیقی معنوں میں رمضان المبارک میں اداکرنے کے اہل ہوں
گے۔
(قارئین: مذکورہ تحریر میں پیش کردہ آیات و احادیث کا خلاصہ پیش کیا گیا
ہے) |