نگاہیں ایک دن بدر کے نقشہ پر
پڑیں،بدر وہ جہاں حق وباطل کاپہلا معرکہ ہواتھا، نگاہیں تھوڑی دیرکے لئے
نقشہ پر جم کر رہ گئیں، پہاڑوں کا لا متنا ہی سلسلہ اور انہیں جھلسے ہوئے
پہاڑوں کے دامن میں وہ ریگ زار جو میدان کا رزاربناتھاحق و باطل کا،مشرقی
کنارے کی طرف نظر گئی تو العدوۃ الدنیا نظر آیا جو اسلامی لشکر کی جگہ تھی،
یہیں ٹوٹی پھوٹی چہار دیواری پر نظر پڑی جو اپنے دامن میں ان نفوس قدسیہ کو
لئے ہوئے ہے جو اللہ و رسول اللہ ö کے عشق و محبت میں جان دینے کے لئے اس
طرح شوق و وارفتگی کے ساتھ بڑھ رہے تھے جس طرح دودھ دینے والا جانور اپنے
بچے کی طرف لپکتا ہے جب دیر سے بچہ اس کی نگاہوں سے اوجھل رہا ہو، اس مشہد
مقدس پر نظر پڑنا تھاکہ تصوروخیالات کی دنیا میں گم ہو گیا، اس کی ایک ایک
تصویر نگاہوں میں پھرنے لگی اور اپنے کھوٹے ایمان اور اللہ ورسول اللہ ö سے
محبت کے جھوٹے دعوے کو شرم و ندامت کے پانی میں غوطے دینے لگی۔
میں نے دیکھاکہ جھلساہواصحراہے پانی دور دور پتہ نہیں ، گرم ہوائوں کے جھکڑ
چل رہے ہیں، تین سوتیرہ مجاہدین ستر اونٹ اوردو گھوڑے میدان میں ہیں سب
پیاسے ہیں اور گرم ہوائیں چل رہی ہیں ان مجاہدین کے قائدخود ساقی کوثر ہیں.
یہ تصویر.نگاہوں کے سامنے گذر رہی تھی کہ مجھے حفیظ جالندھری صاحب کے
شاہنامہ اسلامی کی وہ نظم یاد آگئی جو انہوں نے’’صحرا کی دعا‘‘ کے عنوان سے
لکھاہے،اس نظم نے دل کی کچھ اورہی حالت کردی، ہونٹ یوں حرکت کرنے لگے ò
یہ تشنہ لب جماعت یہاں پر رک گئی آکر
دعا کی دامنِ صحرا نے دونوں ہاتھ پھیلا کر
کہ اے صحرا کو آتشناک چہرہ بخشنے والے
رخ خورشید کو کرنوں کا سہرا بخشنے والے
ازل کے دن سے اب تک بھاڑ میں بھنتار ہاہوں میں
صدائے رعدوباراں دورسے سنتا رہاہوںمیں
ہواہوں جب سے پیدا جان پانی کو ترستی ہے
میرے سینے کے اوپر آگ کی بدلی برستی ہے
میں سمجھا تھا مقدر ہوچکی ہے دھوپ کی سختی
میری قسمت میں لکھی جا چکی ہے سوختہ بختی
بنایا رفتہ رفتہ سخت میں نے بھی مزاج اپنا
لیا ہر آبلہ پا سے زبردستی خراج اپنا
خبر کیا تھی الہٰی ایک دن ایسا بھی آئے گا
کہ تیرا ساقی کوثر یہاں تشریف لائے گا
اگریہ بات پہلے سے مجھے معلوم ہو جاتی
مرے دل کی کدورت خودبخود معدوم ہو جاتی
خبر کیا تھی یہاں تیرے نمازی آکے ٹھہریں گے
شہید آرام فرمائیں گے غازی آکے ٹھہریں گے
خبر کیا تھی ملے گی یہ سعادت میرے دامن کو
بنایا جائے گا فرش سعادت میرے دامن کو
خبر ہوتی تو میں شبنم کے قطرے جمع کر رکھتا
چھپا کر ایک گوشے میں مصفا حوض بھر رکھتا
وہ پانی ان مقدس مہمانوں کو پلا دیتا
میں اپنی تشنگی دیدارِ حضرت سے بجھا لیتا
مرے سر پر سے گذرا نوح کے طوفان کا پانی
تأسف ہے کہ مجھ سے ہوگئی اس وقت نادانی
اگر رکھتا میں اس پانی کی تھوڑی سی خبرداری
تو ہوجاتا مری آنکھوں سے چشموں کی طرح جاری
یہ ستر اونٹ دوگھوڑے یہاں سیراب ہو جاتے
مجاہد بھی وضو کرتے نہاتے غسل فرماتے
حضور ö ساقی کوثر مری کچھ لاج رہ جاتی
مری عزت مری شرم عقیدت آج رہ جاتی
ترے محبوب کے پیارے قدم اس خاک پر آئے
الہٰی حکم دے سورج کو اب آتش نہ برسائے
اگر اب میرے دامن سے ہوائے گرم آئے گی
تو مجھ کو رحمۃ للعالمیں ö سے شرم آئے گی
جلیل الشاں مہمانوں کا صدقہ مہربانی کر
عطا بہروضوان کے لئے تھوڑا سا پانی کر
برائے چند ساعت ابر باراں بھیج دے یا رب
بہاراں بھیج دے یا رب بہاراں بھیج دے یارب
اگر اب میرے دامن سے ہوائے گرم آئے گی
تو مجھ کو رحمۃ للعالمیں öسے شرم آئے گی
زبان اس شعر کو بار بار دہرانے لگی اور دل میں ایک دھرن واضطراب پیدا کرنے
لگی صحراکو ساقیٔ کوثر سے شرم آئے گی اور ہم کو. اس خیال کاآناتھاکہ
اپناسیاہ اعمالنامہ کھلی کتاب کی طرح سامنے آگیا ان کی نماز عشق میدان
کارزار میں اداہورہی تھی ò
نہ مسجد میںنہ بیت اللہ کی دیواروں کے سائے میں
نماز عشق اداہوتی ہے تلواروں کے سائے میں
اور ہماری نماز مسجد میں بھی مشکل سے ادا ہوتی ہے وہ ساقی کے چشم وابرو کے
اشارے پر گردن کٹانے گھر سے دور بچوں سے دور گردن کٹانے نکل آئے تھے اور
شوق شہادت میں تلواروں کی دھار پر اپنی گردن رکھ دیتے تھے کہ. ò
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
وہ وعدہ کے سچے عہد کے پکے ،ہم وعدہ خلاف اور عہد کے کچے، ہم قوال وہ
فعال،ہم الفاظ کے بادشاہ،وہ حق و صداقت کے شاہکار،ہم گفتاروہ کردار،ہم صورت
وہ حقیقت، ہوائے گرم آنے سے صحرا کو شرم آئے گی اور ہمارا جب نبی ö سے
سامنا ہوگا توکیا منہ دکھائیں گے ،شاید اسی تصور واحساس نے اقبال خوش نوا
کو اپنے عشق رسول اور اعتراف قصور کی بنائ پر بارگاہ خداوندی میں یہ عرض
کرنے پر مجبور کیا. ò
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
یا اگر بینی حسابم ناگزیر
از نگاہ مصطفےٰ پنہاں بگیر
سرندامت سے جھکا ہوا تھا، اپنی ایک ایک کوتاہی یاد آرہی تھی کہ فضا میں
نعرۂ تکبیرگونجی، چونک گیا نظر اُٹھی تو تلواریں بجلی کی طرح چمک رہی
تھیں،خنجروں کی شپاشپ اور برچھی بھالوں کی چقاحق،گرزوں اور ڈھالوں کی باہمی
تکرار سے شور محشر بپا ہو چکا تھا،صحابہ کرام(رض) شوق شہادت میں ہتھیلی پر
جان رکھ کر لشکر کفار میں گھس جاتے ہیں اور جان کی ذرا پروانہ ہوتی، میں نے
دیکھا کہ
اثر انداز تھا شوق شہادت جاں نثاروں پر
گلے بڑھ بڑھ کے رکھ دئیے تھے تلواروں کی دھاروں پر
میں نے دیکھا کہ دوکمسن نوجوان حضرت عبدالرحمن سے چپکے چپکے کچھ باتیںکر
رہے ہیں،حضرت عبدالرحمن نے کچھ اشارہ کیا میں دیکھتا ہوں کہ وہ دونوں بجلی
کی طرح ابو جہل پر جھپٹے اور آن کی آن میں اس کو موت کے گھاٹ اُتار دیامگر
قریش کاریلا بڑے زوروں سے ان کی طرف بڑھا، یہ کمسن سخت معرکہ سے دوچار ہوئے
معوذ شہید ہوگئے اور معاذ ابھی اپنا جوہر دکھارہے ہیں کہ اچانک شانہ پر ایک
تلوار پڑتی ہے اور ہاتھ کٹ کر الگ نہیں ہوتا بلکہ جھولنے لگتا ہیں اور اس
حال میں بھی وہ بڑھ بڑھ کر حملہ کر رہے ہیں مگر لٹکتا ہوا ہاتھ رکاوٹ پیدا
کر رہا ہے میں اس منظر کو دیکھ کر حیران تھا کہ اچانک وہ ایک پائوں سے کٹے
ہوئے ہاتھ کو دبا کر نوچ ڈالتے ہیں. جو لڑنے میں رکاوٹ پیدا کر رہا ہے
تصور و خیال کی دنیا سے باہر آیا تو وہی پہاڑوں کا سلسلہ اور سنسان مگر
شہدائ کے مرقد سے آباد میدان تھا۔
اثرانداز تھا رنگ شہادت جاں نثاروں پر
گلے بڑھ بڑھ کے رکھ دیتے تھے تلواروں کی دھاروں پر
سوچ میں پڑگیا کہ ہم کیسے مسلمان ہیں ہم کو مال ومنال اور جاہ و منصب سے
محبت ہے اللہ و رسول اللہ ö کے نام تو زبان کا چٹخارہ بن کر رہ گیا ہے دل
پر کچھ عجب تاثرو انفعال کی کیفیت طاری ہوگئی اور زبان یوں حرکت کرنے لگی:
اللھم لاتجعل الدنیا اکبر ھمنا ولا مبلغ علمنا ولاغایۃ جھد نا
﴿میرے اللہ! تو دنیا ہی کو میری اصل فکر مقصد علم اور مرکز جدوجہد نہ بنا﴾
دیر تک صحرا کے یہ الفاظ زبان پر جاری رہے۔
اگر اب میرے دامن سے ہوائے گرم آئے گی
تو مجھ کو رحمۃ للعالمیں ö سے شرم آئے گی
اور جی چاہا کہ نوجوان نسل کو شاہنامہ اسلام پڑھنے کا مشورہ دوں جو جوش و
حمیت اور ایمان و عزیمت کی زندہ و جاوید تصویر پیش کرتا ہے۔ |