بدھ مت مذہب کا سب سے پہلا اصول
’’احترام آدمیت‘‘ بیان کیا جاتا ہے مگراب یہ بھاشن برما میں مہاتما بدھ کا
من چڑھا رہا ہے۔ برما جسے میانمار بھی کہا جاتا ہے وہاں مہاتما بدھ کے
’’امن و آشتی‘‘ کے پرچارک پیرو کاروں نے رو ہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کی
انتہا کر دی ہے۔تازہ فسادات کی طوفانی لہر 28 مئی 2012 کو ابھری جب بدھ مت
کے پیروکاروں نے روہنگیا مسلمان خواتین سے قیمتی اشیاء لوٹ کر انہیں جنسی
زیادتی کا نشانہ بنایا اور بعد میں انہیں قتل کر دیا۔ اس اشتعال انگیز
سانحے سے مسلمانوں اور بدھ مذہب کے پیروکاروں کے درمیان فسادات نے شدت
اختیارکر لی۔ مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا ۔بڑے پیمانے پر مسلم خواتین کی
آبروریزی کی گئی۔ مسلمان آبادیاں نذر آتش کی گئیں جس کے نتیجے میں مکانات
تباہ اور ہزاروں افراد بے گھر ہوئے۔ سفاکیت کایہ سلسلہ جاری ہے۔ سینکڑوں
مسلمان لاپتا ہیں اور ان کا اپنے خاندان والوں سے رابطہ نہیں ہوپارہا۔ان
میں اکثریت بالغ مردوں اور لڑکوں کی ہے اور بظاہر انہیں مذہب کی بنا پر
نشانہ بنایا گیا ہے۔’’برمی روہنگیا آرگنائزیشن‘‘کے صدر کے مطابق اب تک
حالیہ جاری فسادات میں 28650 مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے جبکہ 12000 سے
زائد افراد لاپتہ اور 80 ہزار مسلمان بے گھر ہو کر سڑکوں پر اپنی جان بچاتے
بھٹک رہے ہیں۔300 سے زائدمساجد کو شہیدجا چکا ہے۔ المناک بات یہ ہے کہ ان
فسادات میں سرکاری فوج اور پولیس نہ صرف خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ
روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے اس ظلم میں برابر کی شریک بھی رہی ہے۔
برمابدھ مت کے پیروکاروں کا ملک ہے۔4 جنوری 1948ء کو برطانیہ سے آزاد ہوا،
اس کے سات صوبے اور سات ڈویژن ہیں۔ اراکان(راکھین) صوبہ جو بیس ہزار مربع
میل پر مشتمل مسلم اکثریتی علاقہ ہے، اس میں تقریباً تیس لاکھ سے زائد
مسلمان آباد ہیں جو اس کی تقریباً 90 فیصد آبادی ہے۔ اراکان تاریخی حیثیت
کا حامل علاقہ ہے،ایک زمانے میں یہاں باقاعدہ خودمختار خوشحال مسلم سلطنت
بھی قائم رہی ہے۔ اراکانی مسلم برمی نہیں بلکہ تاریخی مذہبی، نسلی اور
لسانی اعتبار سے الگ قوم ہیں جو فارسی، ترکی، عربی افغانی قوموں کا مرکب ہے۔
ان قوموں کے تاجر اس علاقے میں آکر آباد ہوتے گئے اور یوں اراکانی مسلمانوں
کی ایک الگ قوم معرض وجود میں آئی۔ یہ ’’روہنگیا‘‘ قوم کہلاتی ہے۔ ان کی
زبان بھی روہنگیا ہی ہے جو ترکی، فارسی عربی، افغانی، ہندی اور اردو زبانوں
کا آمیزہ ہے۔ برما کی فوجی حکومت کی نظر میں روہنگیا غیر ملکی آباد کار ہیں۔
چنانچہ ان کے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع محدود تر ہیں۔ آج تک یہ مسلمان
برما میں تارکین وطن کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ
کئی دہائیوں سے یہاں کے بدھ پرست مختلف طریقوں سے مسلمانوں پر ظلم ڈھاتے
آئے ہیں۔
تقسیم ہند کے فیصلے کے بعد 1948ء میں انگریز نے برما کو ہندوستان سے الگ
کیا تو اراکان کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ کچھ حصہ مشرقی پاکستان اور بڑا
حصہ برما میں شامل کیا گیا۔ 1982ء میں برما حکومت نے اراکان کے مسلمانوں کے
شہری حقوق چھیننے کا اعلان کیا۔ اس صورت حال سے تنگ آکر بے شمار اراکانی
مسلمان ہجرت پہ مجبور ہوئے۔ان میں سے دو لاکھ سے زائد اراکانی مسلمان متحدہ
عرب امارات، چھ لاکھ سے زائد سعودی عرب میں اور اتنے ہی تقریباً ملائشیا
میں ایک بڑی تعداد پاکستان میں آباد ہوئے جبکہ سات لاکھ کے قریب بنگلہ دیش
میں ہیں۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق برما میں حکومتی اہلکاروں نے جون میں
اقلتیی مسلمانوں کے خلاف تشدد کی مہم چلائی جس کے نتیجے میں برما میں فرقہ
وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔تشدد کے ان واقعات میں صرف بودھ ہی ملوث نہیں ہیں
بلکہ سیکیورٹی فورسز کے اہل کار بھی حصے دار ہیں۔ اس ظلم کے نتیجے میں اب
تک 90 ہزار سے زیادہ افراد بے گھر ہوچکے ہیں جس سے ایک اور انسانی بحران
پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھے کہ برما کی حکومت اس سنگین
مسئلے کا حل تلاش کرتی مگراس نازک صورت حال میں برما کے صدر کایہ بیان
سامنے آیا کہ اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ یا تو مسلمانوں کو ملک بدر کیا
جائے یا پھرمہاجر کیمپوں میں منتقل کر دیا جائے۔ صدر تھین سین کے اس بیان
کے بعد کہ روہنگیا مسئلے کا حل صرف مسلمانوں کی ملک بدری یا پناہ گزین
کیمپوں میں منتقلی ہے، صورت حال میں مزید بگاڑ پیدا ہواہے۔برما کی حکومت کا
کہنا ہے کہ روہنگیا نسل کے مسلمان غیر قانونی تارکین وطن ہیں اور ان کا اصل
وطن بنگلہ دیش ہے۔یوں حکومت بھی اب مسلمانوں کو ہراساں کررہی ہے۔ صرف یہی
نہیں بلکہ حکومت نے امدادی کارکنوں اور صحافیوں کومتاثرہ علاقوں میں جانے
تک کی اجازت نہیں دی۔ ان حالات میں بے گھر ہونے والے افراد کی حالت کے بارے
میں جاننا بہت دشوار ہے۔
ان مظالم سے تنگ آکر بہت سے روہنگیا مسلمانوں نے بنگلہ دیش، چین اور تھائی
لینڈ کی طرف ہجرت کی مگر کہیں بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ ہوا ۔ ادھر اجڑے
ہوئے روہنگیامسلمانوں کے بنگلہ دیش میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی
ہے۔کہا گیا ہے کہ اس سے بنگلہ دیش کے معاشی اور سماجی استحکام پر براہ راست
اثرے گا اور ملکی استحکام کو خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ چنانچہ رو ہنگیا مسلمان
بنگلہ دیش کی سرحد پر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ ہزاروں مہاجرین بنگلہ دیش
میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکا اور حقوق انسانی کے علمبردار بہت
سے گروپوں کی طرف سے ڈھاکہ حکومت پر ان مہاجرین کو قبول کرنے کے لیے دباؤ
ڈالا جا رہا ہے مگرجون سے اب تک بنگلہ دیش نے پندرہ سو سے زیادہ برمی
مسلمانوں کو واپس بھیجا جا چکاہے۔بنگلہ دیش کی حکومت کا اصرار ہے کہ ان
لوگوں کا تعلق برما سے ہے، اس لیے بنگلہ دیش میں انہیں آنے کی اجازت نہیں
دی جا سکتی۔بنگلہ دیش کی حکومت نے روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں کے لئے بین
الاقوامی امداد رسانی پر بھی پابندی عائد کردی ہے ۔ڈھاکہ حکومت نے اب تک
تین بین الاقوامی امدادی تنظیموں کو اْن روہنگیا مسلمان مہاجرین کی مدد
کرنے سے منع کر دیا گیا ہے، جو میانمار میں تعاقب اور تشدد سے گھبرا کر
سرحد پار کرتے ہوئے بنگلہ دیش پہنچ رہے ہیں۔ فرانسیسی تنظیموں ڈاکٹرز وِد
آؤٹ بارڈرز ، ایکشن اگینسٹ ہنگرکے ساتھ ساتھ برطانوی تنظیم مسلم ایڈ یو کے
کو بھی اپنی سرگرمیاں بند کر دینے کے لیے کہہ دیا گیا ہے۔یہ امدادی تنظیمیں
سن 1990ء کے عشرے کے اوائل سے روہنگیا مہاجرین کو حفظان صحت اور تربیتی
سہولتوں کے ساتھ ساتھ صاف پانی اور خوراک بھی فراہم کر رہی ہیں۔ ڈاکٹرز وِد
آؤٹ بارڈرز روہنگیا مہاجرین کے ایک کیمپ کے قریب اپنا ایک کلینک چلا رہی ہے۔
ادھر تھائی لینڈ کی حکومت نے ان مہاجرین کو فوج کے حوالے کر دیا جنہوں نے
تمام مسلمانوں کے ہاتھ باندھ کر انہیں بغیر انجن کے کشتیوں میں سوار کرکے
بیچ سمندر میں چھوڑ دیاجس کے باعث وہ تمام مسلمان سمندر کی بے رحم لہروں کا
شکار ہو گئے۔ اس سارے ظلم و ستم پر جہاں ساری عالمی طاقتیں خاموش ہیں، وہیں
بشمول پاکستان پچاس سے زائد مسلمان ممالک نے بھی چپ سادھ رکھی ہے۔ مسلم امہ
کی اسی خاموشی نے کفار کو اتنی شہ دے رکھی ہے کہ وہ جب چاہیں جہاں چاہیں
مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ پھینکیں۔ اگر اسلامی ممالک نے اس واقعے
پر یک زبان اور یک قلب ہو کر سخت مؤقف نہ اپنایا تو مسلمان اسی طرح مرتے
رہیں گے اور دنیا تماشا دیکھتی رہے گی۔
برما میں مسلم اقلیت کے خلاف تشدد کی کارروائیوں پر ’’اظہار تشویش‘‘ کرتے
ہوئے پاکستان نے کہا ہے کہ برمی حکومت ان کے سدباب کے لیے ’’تمام ضروری اور
مناسب‘‘ اقدمات کر رہی ہے۔دفترِ خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے کہا
’’جہاں تک میری معلومات ہیں تو برما میں صورت حال میں ’’نمایاں بہتری‘‘ آئی
ہے۔‘‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ برما میں مسلمان اقلیت کے خلاف بد ترین تشدد
بدستور جاری ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلم اقلیت پر
حملوں میں بدستور اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، تاہم صحیح صورت حال کے بارے
میں اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ برما کی حکومت بین الاقوامی امدادی
کارکنوں اور معائنہ کاروں کو متاثرہ علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دے
رہی۔برطانوی وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ برما میں انسانی
حقوق کی صورتِ حال ابھی بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اگر برما نے غلط راہ اختیار کی
تو یہ پابندیاں پھر سے عائد کی جاسکتی ہیں۔انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری نے میانمار میں انسانی
حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ آخر حقوق انسانی کے تحفظ کا علمبردار اقوام متحدہ
برما میں مسلمانوں پہ ہونے والے ظلم و جور کے واقعات پہ خاموش کیوں ہے؟ کیا
اس لیے کہ یہ ظلم ہندوؤں، یہودیوں اور عیسائیوں پہ نہیں بلکہ مسلمانوں پہ
ہے؟ عالمی برادری کو برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کا نوٹس لینا چاہیے تھا
مگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کااجلاس تک طلب نہیں کیاگیا۔ پاکستان کے
مسلمان برما میں ہونے والے مظالم کے خلاف متحد ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت
پاکستان اقوام متحدہ اور او آئی سی سے اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کرے، برما
کے سفیر کوطلب کرکے احتجاج کرے اوربرما کی حکومت پہ دباؤ بڑھوائے کہ وہ
روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دینے سے انکار کے قانون کو یا تو منسوخ کرے یا
اس میں تبدیلیاں کرے۔برمی حکومت سے وہاں فی الفور قتل عام رکوانے کی اپیل
کی جائے اور اگریہ خویزی نہ رکے تو برما کوناپسندیدہ قرار دے کراس کے سفیر
کو ملک بدر کیا جائے۔برما کے مسلمانوں کی حالت زارپر اقوام متحدہ و دیگر
عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی دیکھتے ہوئے یہ سوال اقوام اسلام
کے لیے بالخصوص بڑا اہم ہو گیا ہے کہ مذہبی منافرت کا شکار برما کے
مسلمانوں کو ظلم کی اس اندھیر نگری سے کیسے نکالا جائے؟ اس کے لیے مسلم
برادری کی عالمی تنظیموں اور اسلامی ممالک کی حکومتوں کو اب اپنی بے
اعتنائی و بے حسی سے باہر آ کر جرأت مندانہ کردار ادا کرناچاہیے۔ اسلامی
دنیا کو برما کے مسلمان بھائیوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کی جنگ لڑنا ہو گی
کیوں کہ اب برما کے مسلمانوں کا مستقبل مسلم برادری کے ہاتھ ہے۔ |