ابو آسیہ (اندھیری )
ابھی تک تو ہم نے یہی سنا تھا کہ ہماری قوم سو رہی ہے بلکہ گھوڑے کے ساتھ
گدھے بھی بیچ کر سورہی تھی لیکن عالمی حدت سے جہاں انٹارکٹیکا سمیت دنیا
بھر کے گلیشئر پگھل رہے ہیں لگتا ہے کہ اس گرمی سے قوم کی نیند پر بھی اثر
پڑ رہا ہے جس کے آثار بھی نظر آنے لگے ہیں گذشتہ دنوں اعلٰی پولیس افسران
کی قوم کے ساتھ دو میٹنگ کے خلاصے سے ہمیں سمجھ میں آیا کہ لوگ غم ذات سے
کے لئے حسن کائنات کو کیوں نہیں سمجھ پاتے ہیں میٹنگ کا موضوع تھا
کہ''محکمہ پولیس اور مسلمانوں کے مسائل '' ہم نے سوچا کہ اب پولیس والوں کی
خیر نہیں ہے بیتے سالوں میں پولیس والوں نے جتنے درد دئیے ہیں اگر اس کو
سوچ کر دس فیصد بھی آنکھ سے آنسو بہہ نکلے تو سونامی نہ سہی لیکن کانفرنس
ہال میں کم ازکم ٢٦ جولائی کے سیلاب کا منظر دوبارہ نظر آسکتا ہے اس لئے
شاید پولیس والوں نے اپنے بیٹھنے کااسٹیج بھی بلند کر رکھا تھا کہ نیچے
بیٹھے مسلمان اپنے ڈوبنے کے خوف سے ہی رونا بند کردیں گے لیکن وہاں تو غضب
ہوگیا پولیس کی ملی زیادتیاں تو یاد نہ رہیں البتہ پولیس اور عوام کے
درمیان رابطہ پل کے لئے درمیانی لوگوں نے شناختی کارڈ کا مطالبہ کرڈالا اب
پولیس بھی بے چاری مجبور ہے حکومت پر پہلے سے ہی آدھا ر کارڈ کا اتنا بڑا
بوجھ ہے کہ جنھوں نے ایک سال پہلے تصویریں اتروائی تھیں ان میں سے بہت سارے
تو دیدار آدھار کے انتظار میں عمر دراز میں سے بچے ہوئے دودن ختم کرے اس
دنیا سے ہی چلے گئے بقیہ جوبچے ہیں وہ اسپتال میں پڑے ہیں اب ایسے میں کوئی
نیا کارڈ کہاں سے جاری ہوسکتا ہے پھر لوگوں نے رمضان کے مہینے کا تذکرہ کیا
لیکن رمضان میں یاد بھی آئی توہوٹلوں کی اب کیا کریں صاحب دن بھر بھوکے
پیاسے سوتے رہنے کے بعد جب افطار کے وقت صبح ہوئی اورعشاء کی نماز کے بعد
دھیرے دھیرے جب زوال کا وقت گذ رجاتا ہے اور موسم میں تھوڑی خنکی پیدا ہوتی
ہے تو ہوٹل بند کردئے جاتے ہیں یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہم سحری کے بعد رات
بھر سوتے رہے اور جیسے ہی افطار کے بعد صبح جاگے اور رات بھر کی کسلمندی
دور ہوئی وقت گذارنے کے لئے کیرم کلبوں میں پہنچ گئے جگہ نہ ملنے پر گلی کے
نکڑ نکڑ پر ہم نے کیرم کے اڈے بنا لئے اب بڑے کے نقش قدم پر بچے نہ چلیں تو
مار کھائیں اس لئے وہ بھی کوک اور بیڈ مینٹن لیکر سڑکوں پر نکل آتے ہیں لوگ
تو کہتے ہیں کہ انھیں منع مت کرو پتہ نہیں اورکتنی ثانیہ مرزا ہمیں رمضان
کے طفیل مل سکتی ہیں اب شیطان مقید ہے تو قوم وشو ناتھ آنند اور ثانیہ مرزا
کی تلاش میں بیدار ہورہی ہے اور ایسے وقت میں ہوٹل بھی بند رہیں تو تازگی
کہاں سے آئیگی اس لئے جناب والا سے التماس ہے کہ ہمارے ہوٹلوں کو سحری تک
کھلا رہنے کی اجازت دیجائے تاکہ قوم کے نونہال جب مشق کرکے واپس آئیں تو
انھیں تروتازگی کا پورا سامان میسر ہو۔حسد کرنا بری بات ہے لیکن پھر بھی
لوگ اس سے باز نہیں آتے اب دیکھئے کچھ لوگ ڈھڑلے سے سگریٹ ،بیڑی تمباکو اور
دیگر منشیات کا کھلے عام استعمال کرتے ہیں لیکن انھیں اس بات کی قلق ہے کہ
ہمارے دیگر بردران سگریٹ ،بیڑی وغیرہ چھوڑ کر چرس گانجے کا استعمال کیوں کر
رہے ہیں یہ تو ایک دم غلط بات ہے پوری قوم کو اجتماعیت کا ثبوت دینا چاہئے
اور چرس گانجے کے بجائے سب کو سگریٹ بیڑی اور مسلمانوں کی پان پٹی پر ملنے
والی نشہ آور چیزوں کا ہی استعما ل کرنا چاہئے اگرچہ لوگ کہتے ہیں کہ چرس
گانجہ کے کاروبار میں بھی اپنے ہی لوگ ملوث ہیں لیکن پانی پٹی تو جائز
کاروبار ہے بلکہ پان تو ہندوستانی مسلمانوں کا قومی نشان ہے جس علاقے میں
چلے جائیے اگر پان کی پچکاریوں سے دیواروں کو مزین اور ان پر نقش نگاری کی
کوشش کی گئی تو اپنے آپ سمجھ میں آجاتا ہے کہ اگر اس قوم کے ساتھ سرکاری
طورپر تعصب نہ کیا جائے تو یہ قوم نہ جانے کتنے مقبول فدا حسین پیدا کرسکتی
ہے کیونکہ جو لوگ منھ سے اتنی خوبصورت پینٹنگ کر سکتے ہیں تو انکے ہاتھوں
کی قابلیت کے بارے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔اب جس قوم کے افراد صرف ایک
مہینے کے اندر اتنی مشقیں کر سکتے ہیں اگر انھیں سال بھر اسی طرح مشق کا
موقع ملا تو یقین جانئے کہ قوم کی صلاحتیوں سے اپنی قو م ہی نہیں بلکہ پورا
ملک مستفید ہوگا خواتین کے لئے یہ مہینہ نیکیوں کی باد بہاری بن کر آئے یا
نہ آئے لیکن ان کی بہار ضرور آتی ہے ان کے لئے خصوصی بازار لگتی ہے لیکن جس
طرح انھیں لوکل ٹرین اور بسوں میں اپنی نششتوں سے زیادہ ادھر ادھر بیٹھنے
میں مزہ آتا ہے اسی طرح رمضان کی شاپنگ کے لئے عورتیں مخلوط بازاروں میں
جانا زیادہ پسند کرتی ہیں ۔کیونکہ ان کا سوچنا ہے کہ دوکان چلانے والے تو
دونوں مارکیٹ میں مرد ہی ہیں بازار تو شیطان کا دارالخلافہ ہے لیکن رمضان
کی وجہ سے شیطان تو اپنے جھنڈے سمیت مقید ہوتا ہے لیکن شیطانی صفت لوگ
بازاروں میں عورتوں کے منتظر رہتے ہیں کچھ پاکٹ مارتے ہیں اور کچھ نظارہ
بازی اور جسمانی لمس کے ذریعے رمضان کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے اپنی عاقبت
خراب کرتے ہیں ۔اب ہم یہ مشورہ تو نہیں دے سکتے ہیں کہ عورتوں پر بازار
جانے پر پابندی لگا دی جائے کیونکہ ہمیں ملکی طالبان کے خطاب سے سخت نفرت
ہے ۔لیکن ایمان کے تقاضے سے اہل ایمان تو واقف ہی ہونگے ۔ |