حضرت بریدہ رضی اللہ عنہٗ فرماتے
ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا یارسول اللہ
ﷺ! میں اپنی ماں کو اپنی گردن پر لاد کر دو فرسخ (چھ میل) تک ایسی سخت گرمی
میں لے گیا کہ اگر آپ اس گرمی میں گوشت کا ایک ٹکڑا ڈال دیتے تو وہ بھن
جاتا تو کیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا شاید تیرا یہ
کام ایک ہی مرتبہ کیلئے ہو (یعنی اس جیسے تیری ماں کے لاکھوں حقوق ہیں۔)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک
شخص آیا اور اس کے ساتھ ایک عمر رسیدہ بوڑھا بھی تھا۔ آپ ﷺ نے اس سے
دریافت فرمایا اے فلاں! یہ تمہارے ساتھ کون ہیں؟ اس نے عرض کیا یہ میرے
والد ہیں‘ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم ان کے آگے نہ چلنا‘ ان سے پہلے نہ بیٹھنا‘
ان کا نام لے کر نہ پکارنا اور نہ کسی کے والد کو برا کہنا کہ وہ جواب میں
تمہارے باپ کو برا کہے۔
ابوغسان ضبتی رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے باپ کے ساتھ ٹھیک
دوپہر میں جارہا تھا میری حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے ملاقات ہوئی‘
انہوں نے مجھ سے پوچھا یہ کون ہیں؟ میں نے کہا یہ میرے والد ہیں‘ حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا ان کے آگے نہ چل! یا تو ان کے پیچھے چل‘
یا ان کے پہلو میں اور کسی کو نہ چھوڑنا کہ تمہارے اور تمہارے باپ کے
درمیان حائل بنے اور اپنے باپ کی بے منڈیر کی چھت پر نہ چڑھنا کہ جس سے
تیرا باپ خطرہ محسوس کرے اور اس ہڈی کو نہ چوسنا جس کی طرف تیرے باپ نے
دیکھا ہو‘ شاید کہ اس کے چوسنے کی تیرے باپ کی خواہش ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص
حضورﷺ کے پاس آیا اور اس نے آپ ﷺ سے جہاد کیلئے اجازت طلب کی‘ آپ ﷺ نے
دریافت فرمایا کیا تیرے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا جی ہاں! آپ ﷺ نے
فرمایا جا انہی کے بارے میں جہاد کر! (یعنی ان کی خدمت سے غفلت مت برت)
مسلم کی روایت میں اس طرح ہے روای کہتے ہیں کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں
آیا اور اس نے عرض کیا میں آپ سے ہجرت اور جہاد پر بیعت ہوکر اللہ پاک سے
اجر کا امیدوار ہوں‘ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تیرے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟
اس نے عرض کیا دونوں حیات ہیں‘ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو اللہ پاک سے اجر کا
متلاشی ہے؟ اس نے کہا جی ہاں! آپﷺ نے فرمایا اپنے والدین کی طرف واپس چلا
جا اور ان کے ساتھ حسن صحبت سے زندگی بسر کر… ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ
اس شخص نے کہا کہ میں آپﷺ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ ﷺ سے
ہجرت پر بیعت ہوں اور اپنے ماں باپ کو روتا چھوڑ آیا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا
ان کی طرف لوٹ جا اور انہیں اسی طرح ہنسا جس طرح تو نے انہیں رلایا ہے‘
ونیز ابوداؤد میں حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ یمن والوں
میں سے ایک آدمی آپ ﷺ کی طرف ہجرت کرکے آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے دریافت کیا
کیا یمن میں کوئی تیرا ہے؟ اس نے کہا میرے ماں باپ ہیں آپ ﷺ نے دریافت
فرمایا کہ ان دونوں نے تجھے اجازت دے دی تھی؟ اس نے کہا نہیں‘ آپ ﷺ نے
فرمایا ان دونوں کے پاس واپس چلا جا اور ان سے اجازت طلب کر پس اگر وہ تجھے
اجازت دیدیں تب تو تو جہاد میں شرکت کر ورنہ انہی دونوں کے ساتھ حسن سلوک
کرتا رہ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر
ہوکر عرض کیا مجھے جہاد کی تمنا ہے مگر اس پر قدرت نہیں‘ آپ ﷺ نے دریافت
فرمایا کہ تیرے والدین میں سے کوئی حیات ہے؟ اس نے کہا میری ماں زندہ ہے۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اس کے ساتھ حسن سلوک کرکے اللہ کے سامنے سرخرو ہو
اگر تو نے ایسا کرلیا تو گویا تو نے حج اور عمرہ اور جہاد سبھی کرلیا۔
حضرت محمد بن سیرین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک کھجور کے درخت
کی قیمت حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے زمانہ میں ایک ہزار درہم تک پہنچ چکی
تھی روای کہتے ہیں کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہٗ نے ایک کھجور کے درخت کو
کھوکھلا کردیا اور اس کا گابھہ جو سفید سفید چربی کی طرح ہوتا ہے نکال کر
اپنی ماں کو کھلا دیا‘ لوگوں نے ان سےعرض کیا تمہیں ایسا کرنے پر کس چیز نے
آمادہ کیا؟ حالانکہ تم دیکھ رہے ہو کہ پیڑ کی قیمت ہزار درہم کو پہنچ چکی
ہے انہوں نے فرمایا کہ میری ماں نے اس کا مطالبہ مجھ سے کیا تھا اور جب
کبھی کسی چیز کا مجھ سے مطالبہ کریگی اور مجھے اس کے دینے پر قدرت ہوگی
ضرور دوں گا (خواہ چیز کتنی ہی گراں ہو)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے اللہ
کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: کہ پہلی امتوں میں تین شخص تھے جو ایک ساتھ
سفر پر نکلے کہ رات ہوگئی۔ رات بسر کرنے کیلئے ایک غار میں داخل ہوئے تو
اچانک ایک بڑا پتھر گرنے سے غار کا منہ بند ہوگیا سوچنے لگے کہ کیا کیا
جائے۔ مشورہ کے بعد یہ طے پایا کہ اپنے اپنے نیک اعمال کے واسطے سے اللہ رب
العزت سے دعاکی جائے تاکہ اس آزمائش سے چھٹکارا مل جائے۔ ان تینوں میں سے
ایک نے کہا: اے اللہ! تو جانتا ہے میرے بوڑھے ماں باپ تھے اور میں شام کو
سب گھروالوں سے پہلے انہی کو دودھ پلاتا تھا ایک دن محنت مزدور کی خاطر میں
دور نکل گیا واپس گھر آنے میں دیر ہوگئی اور معمول کے مطابق دودھ دوہا‘
اور والدین کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن میرے پہنچنے سے پہلے وہ سوچکے تھے۔
میں نے ان کو بیدار کرنا مناسب نہ سمجھا اور دودھ کا پیالہ ہاتھ میں لیے ان
کے سرہانے کھڑا رہا‘ میرے بچے میرے پاؤں میں بھوک کی وجہ سے بلبلا رہے تھے
لیکن میں ان کی بیداری کا انتظار کرتا رہا کہ صبح ہوگئی‘ جب وہ بیدار ہوئے
تو پھر میں نے ان کو دودھ پلایا۔ یااللہ! اگر یہ کام میں نے صرف تیری رضا
کیلئے کیا تھا تو تو ہمیں اس آزمائش سے نجات عطا فرما اور چٹان کو پیچھے
ہٹادے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اس کی دعا قبول کرلی اور چٹان غار کے منہ
سے تھوڑی پیچھے ہٹ گئی۔
عبقری سے اقتباس |