تین شخصوں کی دعا رد نہیں کی جاتی(احکام روزہ)۔

محترم قارئین کرام!روزہ دار کتنا خوش نصیب ہے کہ ہر وَقت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا حاصِل کرتا رہتا ہے ۔یہاں تک کہ اِفْطار کے وَقت وہ جو بھی دُعاء مانگتا ہے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اُسے اپنے فَضل وکرم سے قَبول فرماتا ہے ۔ چُنانچِہ سَیِّدُنا عبداللہ بن عَمر و بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے رِوایت ہے کہ امامُ الْمُتَوَکِّلِین، سیّدُ القانعین، رَحمۃٌ لِّلْعٰلمِین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ دلنشین ہے،
''اِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدِ فِطْرِہٖ لَدَعْوَۃً مَّا تُرَدُّ''
(الترغیب و الترہیب، ج٢، ص٥٣،حدیث٢٩)

ترجمہ :بے شک روزہ دار کے لئے اِفْطَار کے وَقْت ایک ایسی دُعاء ہوتی ہے جو رَد نہیں کی جاتی۔''
سَیِّدُناابُوہرَیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مَروی ہے کہ تاجدارِ رسالت ، شَہَنْشاہِ نُبُوَّت ، پیکرِ جُودو سخاوت، سراپا رَحمت، محبوبِ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ پُر عظمت ہے ،''تین شخصوں کی دُعاء رَدّ نہیں کی جاتی
(١) ایک روزہ دار کی بَوَقتِ اِفْطَار
(٢)دُوسرے بادشاہِ عادِل کی اور
(٣) تیسرے مظلُوم کی۔اِن تینوں کی دُعاأاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ بادَلوں سے بھی اُوپر اُٹھا لیتا ہے اور آسمان کے دروازے اُس کیلئے کُھل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے،''مجھے میری عِزّت کی قَسَم!میں تیری ضَرور مَدَد فرماؤں گااگرچِہ کچھ دیر بعد ہو۔''

ہم کھانے پینے میں رہ جاتے ہیں
پیارے روزہ دارو! آپ کو مُبارَک ہوکہ آپ کے لئے یہ بِشارت ہے کہ اِفْطَار کے وَقْت جو کچھ دُعاء مانگو گے وہ دَرَجہ قَبولِیَّت تک پَہُنچ کررہے گی ۔ مگر افسوس کہ آج کل ہماری حالت کچھ ایسی عجیب ہوچُکی ہے کہ نہ پُوچھو بات ! اِفطَار کے وَقت ہمارا نَفس بڑی سَخت آزمائش میں پڑجاتا ہے ۔کیونکہ عُمُوماً اِفطَار کے وَقت ہمارے آگے اَنواع واَقسام کے پَھلوں ، کباب، سَمَوسَوں ، پکوڑوں کے ساتھ ساتھ گرمی کا موسم ہو تو ٹھنڈے ٹھنڈے شَربت کے جام بھی مَوجود ہوتے ہیں۔بُھوک اور پیاس کی شِدَّت کے سَبَب ہم نِڈھال تو ہوہی چکے ہوتے ہیں۔ بس جیسے ہی سُورج غُروب ہوا، کھانوں او رشربت پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں کہ دُعاء یادہی نہیں رہتی! دُعاء تَو دُعاء ہمارے بے شُمار اِسلامی بھائی اِفطَار کے دَوران کھانے پینے میں اس قَدَر مُنْہَمِک ہوجاتے ہیں کہ ان کو نَمازِ مغرب کی پُوری جَماعت تک نہیں مِلتی۔بلکہ مَعَاذَ اللّٰہ بَعْض تَو اِس قَدَرْ سُستی کرتے ہیں کہ گھر ہی میں اِفطَار کرکے وَہیں پر بِغیر جَماعت نَماز پڑ ھ لیتے ہیں۔ تَوبہ!تَوبہ!!

جنّت کے طلبگارو ! اتنی بھی غفلت مت کرو!!نَمازِ باجَماعت کی شَریعت میں نِہایت ہی سَخت تاکید آئی ہے ۔اور ہمیشہ یا د رکھو!بِلا کسی صحےح شَرعی مجبوری کے مسجِد کی پنج وَقْتہ نَماز کی جَماعت تَرک کردینا گُناہ ہے۔

افطار کی احتیاطیں
بہتر یہ ہے کہ ایک آدھ کھجور سے اِفطار کر کے فوراً اچّھی طرح مُنہ صاف کر لے اور نَمازِ باجماعت میں شریک ہوجائے ۔

آ ج کل مسجِد میں لوگ پھل پکوڑے وغیرہ کھانے کے بعد مُنہ کو اچّھی طرح صاف نہیں کرتے فوراًجماعت میں شریک ہو جاتے ہیں حالانکہ غِذا کا معمولی ذرّہ یا ذائِقہ بھی مُنہ میں نہیں ہونا چاہئے کہ ایک فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ بھی ہے: کِراماً کاتِبِین( یعنی اعمال لکھنے والے دونوں بُزُرگ فِرِشتوں) پر اس سے زےادہ کوئی بات شدید نہیں کہ وہ جس شخص پر مقرَّر ہیں اُسے اِس حال میں نَماز پڑھتا دیکھیں کہ اسکے دانتوں کے درمِیان کوئی چیز ہو۔' ' (طبَرانی کبیر ،ج ٤، ص ١٧٧، حدیث٤٠٦١)

میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: مُتَعَدَّد احادیث میں ارشاد ہوا ہے کہ جب بندہ نَماز کو کھڑا ہوتا ہے فِرِشتہ اس کے منہ پر اپنا منہ رکھتا ہے یہ جو پڑھتا ہے اِس کے منہ سے نکل کر فِرِشتے کے منہ میں جاتا ہے اُس وَقت اگر کھانے کی کوئی شے اُس کے دانتوں میں ہوتی ہے ملائکہ کو اُس سے ایسی سَخت اِیذ ا ہوتی ہے کہ اور شے سے نہیں ہوتی ۔

حُضُورِ اکرم ،نُورِ مُجَسَّم ،شاہِ بنی آدم ،رسولِ مُحتَشَم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا، جب تم میں سے کوئی رات کو نَماز کیلئے کھڑا ہو تو چاہئے ،کہ مِسواک کرلے کیونکہ جب وہ اپنی نَماز میں قرا ء ت(قِرَا۔ءَ ت) کرتا ہے تو فِرِشتہ اپنا منہ اِس کے منہ پر رکھ لیتا ہے اور جو چیز اِس کے منہ سے نکلتی ہے وہ فرشتہ کے منہ میں داخِل ہوجاتی ہے ۔ (کنزُ العُمّال ،ج ٩، ص ٣١٩ )

اور طَبرانی نے کَبِیر میں حضرت ِ سیِّدُناابو ایُّوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ دونوں فِرِشتوں پر اس سے زِیادہ کوئی چیزگِراں نہیں کہ وُہ اپنے ساتھی کو نَماز پڑھتا دیکھیں اور اس کے دانتوں میں کھانے کے رَیزے پھنسے ہوں۔
( فتاویٰ رضویہ ،ج ١، ص ٦٢٤تا ٦٢٥ )

مسجدمیں افطار کرنے والوں کو اکثر مُنہ کی صفائی دشوار ہوتی ہے کہ اچّھی طرح صفائی کرنے بیٹھیں تو جماعت نکل جانے کا اندیشہ ہوتا ہے لہٰذا مشورہ ہے کہ صرف ایک آدھ کھجور کھا کرپانی پی لیں ۔ پانی کو مُنہ کے اندر خوبجُنبِش دیں یعنی ہلائیں تا کہ کھجور کی مٹھاس اور اس کے اجزا چھوٹ کر پانی کے ساتھ پیٹ میں چلے جائیں ضَرورتاً دانتوں میں خِلال بھی کریں۔ اگر مُنہ صاف کرنے کا موقع نہ ملتا ہو تو آسانی اسی میں ہے کہ صِرف پانی سے افطار کر لیجئے۔ مجھے اُن روزہ داروں پر بڑا پیار آتا ہے جو طرح طرح کی نعمتوں کے تھالوں سے بے نیاز ہو کر غروبِ آفتاب سے پہلے پہلے مسجِد کی پہلی صف میں کھجور ، پانی لیکر بیٹھ جاتے ہیں۔ اِس طرح افطار سے جلدی فراغت بھی ملے، منہ کو صاف کرنا بھی آسان رہے اور پہلی صف میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ باجماعت نَماز بھی نصیب ہو۔

افطار کی دعائ
ایک آدھ کَھجور وغیرہ سے روزہ اِفطَار کرلیں اور پھر دُعاء ضَرور مانگ لیا کریں۔کم ازکم کوئی ایک دُعائے ماثُورَہ (قراٰن وحدیث میں جو دعائیں وارد ہو ئی ہیں انہیں دعائے ماثورہ کہتے ہیں ۔)ہی پڑھ لیں۔دو عالم کے مالِک و مختار، مکّی مَدَنی سرکار، محبوبِ پرورد گار عَزَّوَجَلَّو صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جو مختلف اَوْقات پر جُدا جُدا دُعائیںمانگی ہیں اُن میں سے کم ازکم کوئی ایک دُعاء تَو یاد کرہی لینی چائیے۔اِسی کو پڑھ لینا چائےے۔اِفطَار کے بعد کی ایک مشہُور دُعاء آگے گُزر چُکی ہے۔اِس ضمن میں ایک اور رِوایَت مُلاحَظہ فرمائیے۔چُنانچِہ ابوداو،د (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی رِوایَت میں آتا ہے کہ سرکارِمدینہئ منوّرہ، سردارِمکّہئ مکرّمہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بَوَقتِ اِفطَار یہ دُعاء پڑھتے:۔
اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ۔
ترجَمہ:اے اللہ عزوجل میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی عطا کردہ رِز:ق سے اِفْطَار کیا۔
(سنن ابوداو،د،ج٢،ص٤٤٧،حدیث٢٣٥٨)

محترم قارئین کرام!گُزَشْتہ حدیثِ مُبارَک میں فرمایا گیا ہے کہ ''اِفطَار کے وَقت دُعاء رَدّ نہیں کی جاتی۔''بَعض اَوقات قَبُولِیَّتِ دُعاء کے اظہار میں تاخِیر ہوجاتی ہے تَوذِہن میں یہ بات آتی ہے کہ دُعاء آخِر قَبول کیوں نہیں ہوئی !جبکہ حدیثِ مُبارَک میں تَو قَبولِ دُعاء کی بِشَارت آئی ہے۔محترم قارئین کرام! بظاہِر تاخِیر سے نہ گھبرائےے۔سیِّد ی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدِ گِرامی حضرتِ رئیسُ الْمُتَکَلِّمِیِن سَیِّدُنا نَقی علی خان عَلَیہِ رَحمۃُ الرَّحمٰن (اَحسَنُ الْوِعاءِ لِاٰدَابِ الدُّعائِ، ص ٧) پر نَقْل کرتے ہیں-:

دعاء کے تین فوائد
اللّٰہ کے محبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب عَزَّوَجَلَّو صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:دُعاء بندے کی ، تین باتوں سے خالی نہیں ہوتی :
(١)یا اُس کا گُناہ بخشا جاتا ہے۔یا
(٢)اُسے فائِدہ حاصِل ہوتا ہے ۔یا
(٣) اُس کے لئے آخِرت میں بَھلائی جمع کی جاتی ہے کہ جب بندہ آخِرت میں اپنی دُعاؤں کا ثواب دیکھے گاجو دُنیا میں مُسْتَجاب (یعنی مَقبول ) نہ ہوئی تھیں تمنّا کرے گا،کاش !دُنیا میں میری کوئی دُعاء قَبول نہ ہوتی اور سب یہیں (یعنی آخِرت ) کے واسِطے جمع ہوجاتیں۔
(اَلتَّرْغِیْب وَالتَّرْھِیْب ،ج٢،ص٣١٥)

محترم قارئین کرام!دیکھا آپ نے!دُعاء رائِگاں تَوجاتی ہی نہیں۔ اِس کا دُنیا میں اگر اثر ظاہِر نہ بھی ہو تَو آخِرت میں اَجْر و ثواب مِل ہی جائے گا ۔ لہٰذا دُعاء میں سُستی کرنا مُناسِب نہیں۔

فیضان سنت کا فیضان۔۔۔۔جاری ہے
یا اللہ عزوجل ماہ رمضان کے طفیل برما کے مسلمانوں
کی جان و مال ،عزت آبرو کی حفاظت فرما۔اٰمین

وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 371519 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.