روزہ نہ رکھنے کی مجبوریاں(احکام
روزہ)۔
محترم قارئین کرام!بعض مجبوریاں ایسی ہیں جن کے سَبَب رَمَضانُ الْمُبارَک
میں روزہ نہ رکھنے کی اِجازت ہے۔مگر یہ یاد رہے کہ مجبوری میں روزہ مُعاف
نہیں وہ مجبوری خَتْم ہوجانے کے بعد اس کی قَضاء رکھنا فَرض ہے۔ البتّہ
قَضاء کاگُناہ نہیں ہوگا۔جیسا کہ ''بہارِشریعت ''میں''دُرِّمُختار ''کے
حَوالہ سے لکھاہے کہ سَفَر و حَمل اور بچہّ کو دُودھ پِلانا اور مَرض اور
بُڑھاپا اور خوفِ ہَلاکت و اِکراہ یعنی ( اگر کوئی جان سے مار ڈالنے یا کسی
عُضو کے کاٹ ڈالنے یا سخت مار مارنے کی صحیح دھمکی دے کر کہے کہ روزہ توڑ
ڈال اگر روزہ دار جانتا ہو کہ یہ کہنے والا جو کچھ کہتا ہے وہ کر گزرے گا
تو ایسی صورت میں روزہ فاسِد کر دینا یاترک کرنا گناہ نہیں۔ ''اِکراہ سے
مُراد یہی ہے'' ) ونُقصانِ عَقل اور جِہاد یہ سب روزہ نہ رکھنے کے عُذْر
ہیں اِن وُجُوہ سے اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو گُناہ گار نہیں ۔ (دُرِّمُخْتار،
رَدُّالْمُحتَار،ج٣ ،ص٤٠٢)
سفر کی تعریف
دَورانِ سَفَربھی روزہ نہ رکھنے کی اِجازت ہے۔سَفَر کی مِقْدار بھی ذِہن
نشین کرلیجئے۔سَیِّدی ومُرشِدی امامِ اَہْلِسُنَّت ،اعلیٰ حضرت، مولٰینا
شاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃُ الرحمٰن کی تحقیق کے مُطابِق شَرْعاً سَفَر کی
مِقْدارساڑھے ستاون میل (یعنی تقریباً بانوے کلومیٹر)ہے جو کوئی اِتنی
مِقدار کا فاصِلہ طے کرنے کی غَرَض سے اپنے شہر یا گاؤں کی آبادی سے باہَر
نِکل آیا ، وہ اب شرعاً مُسافِر ہے۔اُسے روزہ قَضا ء کرکے رکھنے کی اِجاز ت
ہے اور نَماز میں بھی وہ قَصْر کرے گا۔مُسافِر اگر روزہ رکھنا چاہے تَو رکھ
سکتا ہے مگر چار رَکْعَت والی فَرض نَمازوں میں اُسے قَصر کرنا واجِب ہے
۔نہیں کرے گا تَو گُنہگار ہوگا۔اور جَہالَتاً (یعنی علم نہ ہونے کی وجہ
سے)پوری (چار)پڑھی تو اس نَماز کا پھیرنابھی واجب ہے۔ (مُلَخَّصاًفتاوٰی
رضویہ تخریج شدہ ،ج٨،ص٢٧٠)
یعنی معلومات نہ ہونے کی بِناء پر آج تک جتنی بھی نمازیں سفر میں پوری پڑھی
ہیں ان کا حساب لگا کرچار رکعتی فرض قصر کی نیّت سے دو دو لوٹانے ہوں گے۔
ہاں مسافر کو مقیم امام کے پیچھے فرض چار پورے پڑھنے ہوتے ہیں سنتیں اور
وتر لوٹانے کی ضرورت نہیں ۔ قَصْر صِرف ظُہر ،عَصْر اور عِشاء کی فَرْض
رَکْعَتوں میں کرنا ہے۔یعنی اِن میں چار رَکْعَت فَرْض کی جگہ دو رَکْعَت
ادا کی جائیں گی۔باقی سُنَّتوں اور وِتَرْ کی رَکْعَتیں پُوری اداکی جائیں
گی۔ دُوسرے شہر یا گاؤں وغیرہ میں پہنچنے کے بعد جب تک پندرہ دِن سے کم
مُدَّت تک قِیام کی نِیَّت تھی مُسافِر ہی کہلائے گا اور مُسافِرکے اَحْکام
رہیں گے۔اور اگر مُسافِر نے وہاں پہنچ کر پندرہ دِن یا اُس سے زِیادہ قِیام
کی نِیَّت کرلی تَو اب مُسافِر کے اَحکام خَتْم ہو جائےں گے ۔اور وہ مُقیم
کہلائے گا ۔اب اسے روزہ بھی رکھنا ہوگا اور نَماز بھی قَصْر نہیں کرے گا۔
سفر کے متعلق ضروری اَحکام کی تفصیلی معلومات حاصل کرنے کیلئے (بہار ِ
شریعت حصّہ چہارم کے باب'' نمازِ مسافِر کا بیان'' )کامُطالَعَہ فرمائیں۔
معمولی بیماری کوئی مجبوری نہیں
کوئی سخت بیمار ہو اور اُسے روزہ رکھنے کی صُورت میں مَرض بڑھ جانے یا دیر
میں شِفا یابی کا گُمانِ غالِب ہو تَو ایسی صُورت میں بھی روزہ قَضاء کرنے
کی اِجازت ہے۔(اِس کے تفصیلی اَحْکام آگے آرہے ہیں)مگر آج کل دیکھا جاتا ہے
کہ معمولی نَزلہ،بُخار یا دَرْ دِ سَر کی وجہ سے لوگ روزہ تَرک کردیا کرتے
ہیں یا مَعَاذَاللّٰہ عزوجل رکھ کر توڑ دیتے ہیں،ایسا ہر گز نہیں
ہوناچاہئے۔اگر کسی صحےح شَرعی مجبوری کے بِِغیر کوئی روزہ چھوڑدے اگرچِہ
بعد میں ساری عُمْربھی روزے رکھے، اُس ایک روزے کی فضیلت کو نہیں پاسکتا۔
محترم قارئین کرام!اِس سے قَبل کہ روزہ نہ رکھنے کے اَعذار( یعنی مجبوریوں
)کا تفصیلی بَیان کیا جائے گا لفظ ''کرم'' کے تین حُرُوف کی نسبت سے تین
احادیثِ مُبارَکہ بَیان کیجاتی ہیں۔
سَفر میں چاہے روزہ رکھو،چاہے نہ رکھو
مدینہ١:اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہا رِوایَت فرماتی ہیں، حضرتِ سَیَّدُنا حَمزہ بِن عَمر و اَسلَمی
رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہُت روزے رکھا کرتے تھے ۔اُنہوں نے تاجدارِ رسالت ،
شَہَنْشاہِ نُبُوَّت، پیکرِ جُودو سخاوت ، سراپا رَحمت، محبوبِ رَبُّ
الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے دریافت
کیا، سَفر میں روزہ رکھوں؟ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: ''چاہے رکھو،چاہے نہ رکھو۔'' (صحیح بُخاری،
ج١،ص٦٤٠،حدیث١٩٤٣)
مدینہ٢:حضرتِ سَیِّدُنا ابُو سَعِید خُدری رضی اللہ تعالیٰ عنہُ فرماتے
ہیں،سَو لہویں رَمَضانُ الْمُبارَککو سرورِ کائنات،شاہِ موجودات صلی اللہ
تعالی علیہ والہ وسلم کے ساتھ ہم جِہاد میں گئے،ہم میں بعض نے روزہ رکھا
اور بعض نے نہ رکھا۔نہ تو روزہ داروں نے غَیر روزہ داروں پر عَیب لگایا اور
نہ اِنہوں نے اُن پر۔ (صحیح مُسلم ،ص٥٦٤،حدیث١١١٦)
مدینہ٣ :حضرتِ سَیِّدُنا اَنَس بن مالِک کَعبِی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
رِوایَت ہے کہ مَدینے کے تاجدار، غریبوں کے غمگُسار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ خوشگوار ہے: اللّٰہ عزوجل نے مُسافِر سے آدھی
نَماز مُعاف فرمادی ۔ (یعنی چار رَکْعَت والی فَرْض نَماز دو رَکْعَت پڑھے
) اور مُسافِر اور دُودھ پِلانے والی اور حامِلہ سے روزہ مُعاف فرمادیا۔
(کہ اجازت ہے اُس وَقْت نہ رکھیں بعد میں وہ مِقْدار پُوری کرلیں) (جامع
تِرمذی، ج٢،ص ١٧٠، حدیث ٧١٥)
'' الصَّلٰٰوۃ وَالسَّلامُ علیکَ یا سیِّدی یا رسولَ اﷲ''
کے تینتیس حُرُوف کی نسبت سے روزہ نہ رکھنے کی اجازات پر مبنی33پیرے
(مگر وہ مجبوری ختم ہوجانے کی صُورت میں ہرروزہ کے بدلے ایک روزہ قَضا ء
رکھنا ہوگا)
مدینہ١:مُسافِر کو روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا اِخْتِیار ہے۔
(رَدُّالْمُحتَار، ج٣،ص٤٠٣)
مدینہ٢:اگر خود اُس مُسافِر کو اور اُس کے ساتھ والے کو روزہ رکھنے میں
ضَرَر (یعنی نقصَان)نہ پہنچے تَوروزہ رکھنا سَفَر میں بِہتر ہے اور اگر
دونوں یا اُن میں سے کسی ایک کونقصان ہورہا ہو تو روزہ نہ رکھنا بِہتر ہے۔
(دُرِّمُخْتار، ج٣ ،ص٤٠٥)
مدینہ٣:مُسافِر نے ضَحْوَ ہئ کُبرٰی (ضَحْوَ ہ کُبرٰیکی تعریف روزے کی نیت
کے بیان میں گزر چکی ہے ۔ )سے پیشتر اِقامَت کی اور ابھی کچھ کھایا نہیں
تَوروزہ کی نِیَّت کرلینا واجِب ہے ۔(الجَوْہَرۃالنیرۃ ،ج١،ص١٨٦)
مَثَلاً آپ کا گھر پاکستان کے مشہور شہر حیدر آباد میں ہے اور آپ بابُ
المدینہ کراچی سے حیدرآبادکیلئے چلے اور صُبح دس بجے پہنچ گئے اور صُبحِ
صادِق کے بعد راستے میں کچھ کھایا پِیا نہ تھاتو اب روزہ کی نِیَّت
کرلیجئے۔
مدینہ٤:دِن میں اگر سَفر کیا تَو اُس دِن کا روزہ چھوڑدینے کیلئے آج کا
سَفَر عُذر نہیں۔ البَتَّہ اگر دَورانِ سَفر تَوڑدیں گے تَو کفَّارہ لازِم
نہ آئے گامگر گُناہ ضَرور ہوگا۔ (رَدُّالْمُحتَار ،ج٣ ،ص٤١٦) اور روزہ قضا
کرنا فرض رہے گا۔
مدینہ٥:اگر سَفَر شُروع کرنے سے پہلے توڑدیا ۔پھر سَفَر کیا تَو (اگر
کفّارے کے شرائط پائے گئے تو) کَفَّارہ بھی لازِ م آئیگا۔ (اَیْضاً)
مدینہ٦:اگر دن میں سَفَر شُروع کیا (اور دَورانِ سَفر روزہ توڑ انہ تھا)اور
مکان پرکوئی چیز بھول گئے تھے اسے لینے واپَس آئے اور اب اگر آکر روزہ توڑ
ڈالا تَو(شرائط پائے جانے کی صورت میں) کفَّارہ بھی واجِب ہے ۔اگر دَورانِ
سَفَر ہی توڑدیا ہوتا تَو صِرف قضاء رکھنا فَرْض ہوتا جیسا کہ نمبر٤ میں
گُزرا۔ (فتاوٰی عالمگیری ،ج١،ص٢٠٧)
مدینہ٧:کسی کو روزہ توڑ ڈالنے پر مجبور کیا گیا تَو روزہ تو توڑ سکتا ہے
مگر صَبْر کیا تَو اَجْر ملے گا۔(مجبوری کی تعریف ماقبل گُزر چکی ہے ۔)
(رَدُّالْمُحتَار، ج٣،ص٤٠٢)
مدینہ٨:سانپ نے ڈَس لیا اور جان خَطْرے میں پڑگئی تَو روزہ توڑدے ۔
(رَدُّالْمُحتَار، ج٣،ص٤٠٢)
مدینہ٩:جن لوگوں نے اِن مجبوریوں کے سَبَب روزہ توڑااُن پر فَرض ہے کہ اُن
روزوں کی قَضَاء رکھیں اور اِن قَضاء روزوں میں ترتیب فَرْض نہیں ۔ لہٰذا
اگر اُن روزوںکی قضا کرنے سے قَب:ل نَفْل روزے رکھے تَو یہ نَفْلی روزے
ہوگئے، مگر حُکم یہ ہے کہ عُذْر جانے کے بعدآئندہ رَمَضانُ الْمُبارَک کے
آنے سے پہلے پہلے قَضاء رکھ لیں۔حدیثِ پاک میں فرمایا، ''جس پر گُزَشْتہ
رَمَضانُ الْمُبارَک کی قَضاء باقی ہے اور وہ نہ رکھے ، اُس کے اِس رَمضانُ
الْمبارَک کے روزے قَبول نہ ہوں گے ، '' (مجمع الزوائد ،ج٣،ص٤١٥)
اگر وَقت گزرتا گیا اور قَضاء روزے نہ رکھے یہاں تک کہ دُوسرا رَمَضان شریف
آگیا تَو اب قَضاء روزے رکھنے کی بجائے پہلے اِسی رَمَضانُ الْمُبارَک کے
روزے رکھ لیجئے۔ قَضا ء بعد میں رکھ لیجئے۔بلکہ اگر غیرِ مَریض و مُسافِر
نے قَضاء کی نِیَّت کی جب بھی قَضاء نہیں بلکہ اِسی رَمَضان شریف کے روزے
ہیں۔ (دُرِّ مُختار، ج٣، ص٤٠٥)
مدینہ١٠:حَمَل والی یا دُودھ پِلانے والی عورت کو اگر اپنی یا بچّہ کی جان
جانے کا صحیح اَندیشہ ہے تو اجازت ہے کہ اِسوقت روزہ نہ رکھے۔خواہ دُودھ
پِلانے والی بچّہ کی ماں ہو یا د ائی،اگر چِہ رَمَضانُ الْمُبارَک میں
دُودھ پِلانے کی نوکَری اِختیار کی ہو۔
(دُرِّمُختار ، ردُّ الْمُحتار، ج٣،ص٤٠٣)
مدینہ١١:بُھوک اور پِیاس ایسی ہوکہ ہَلاک کا خوفِ صحیح ہو یانُقصانِ عَقْل
کا اندیشہ ہو تَوروزہ نہ رکھیں۔
(دُرِّمُختار ،ردُّ الْمُحتار، ج٣،ص٤٠٢)
مدینہ١٢:مَریض کو مَرض بڑھ جانے یادیر میں اچھّا ہونے یا تَنْدُ رُست کو
بیمار ہو جانے کا گُمانِ غالِب ہوتَو اِجازت ہے کہ اُس دِن روزہ نہ رکھے۔
(بلکہ بعد میں قَضا کرلے)(دُرِّمُختار، ج٣،ص٤٠٣)
مدینہ١٣:اِن صُورتوں میں غالِب گُمان کی قَید ہے، مَحض وَہم ناکافی ہے ۔
غالِب گُمان کی تین صُورَتیں ہیں۔
(ا)پہلی صُورت یہ ہے کہ اس کی ظاہِری نِشانی پائی جاتی ہے۔
(٢)دُوسری یہ کہ اِس شَخْص کا ذاتی تَجرِبہ ہے ۔
(٣) تیسری یہ کہ کسی مُسلمان حاذِق (یعنی تَجربہ کار اوراپنے فَنِّ طِب میں
ماہِر) طَبِیبِ مَستُور یعنی غیرِ فاسِق نے اِس کی خبردی ہو ۔اور اگر نہ
کوئی عَلامَت ہو،نہ تَجرِبہ ،نہ اِس قسم کے طَبِیب نے اُسے بتایا بلکہ کسی
کافِر یافاسِق طَبِیب( مَثَلاً داڑھی مُنڈے ڈاکٹر) کے کہنے سے اِفْطار
کرلیا یعنی روزہ توڑ ڈالا تَو شرائط پائے جانے کی صورت میں قَضاء کے ساتھ
ساتھ کفّارہ بھی لازِم آئے گا۔ (ردُّ الْمُحتار ،ج٣،ص٤٠٤)
مدینہ١٤: حَیض یا نَفاس کی حالت میںنماز، روزہ حرام ہے اور ایسی حالت میں
نَماز و روزہ صحےح ہوتے ہی نہیں ۔نِےز تِلاوت قُراٰنِ پاک یا قُراٰنِ پاک
کی آیاتِ ِمُقَدَّسہ یا اُن کا تَرجَمہ چُھونا یہ سب بھی حرام ہے۔
(بہارشریعت ،حصہ٢،ص٨٨،٨٩)
مدینہ١٥:حَیض ونَفاس والی کے لئے اِخْتیار ہے کہ چُھپ کر کھائے یا ظاہِراً
۔روزہ دار کی طرح رہنا اُس پر ضَروری نہیں۔
(الجَوْہَرۃالنیرۃ ،ج١،ص١٨٦)
مدینہ١٦:مگر چُھپ کرکھانا بہتر ہے خُصُوصاً حَےض والی کے لئے ۔(بہار
شریعت،حصہ ٥،ص١٣٥)
مدینہ١٧: ''شیخِ فانی ''یعنی وہ مُعَمَّر بُزُرگ جِن کی عُمر اتنی بڑھ چُکی
ہے کہ اب وہ بے چارے روزبروز کمزور ہی ہوتے چلے جائیں گے۔ جب وہ بِالکل ہی
روزہ رکھنے سے عاجِز ہوجائیں۔یعنی نہ اب رکھ سکتے ہیں نہ آئِندہ روزے کی
طاقت آنے کی اُمّیدہے ۔اُنہیں اب روزہ نہ رکھنے کی اِجازت ہے ۔لہٰذا ہر
روزہ کے بدلہ میں( بطور ِ فِدیہ)ایک صَدَقہئ فِطْر ( صدقہ فطر کی مِقدار
سوا دو سیر یعنی تقریباً دو کلو پچاس گرام گیہوں یا اُس کاآٹا یا اُن گیہوں
کی رقم ہے۔)کی مِقدار مِسْکین کو دَیدیں ۔ (دُرِّمُختار، ج٣،ص٤١٠)
مدینہ١٨: اگر ایسا بوڑھا گرمیوں میں روزے نہیں رکھ سکتا تو نہ رکھے مگر اِس
کے بدلے سردیوں میں رکھنا فرض ہے۔
(ردُّ الْمُحتار،ج٣،ص٤٧٢)
مدینہ١٩:اگر فِدْیہ دینے کے بعد روزہ رکھنے کی طاقت آگئی تَو دیا ہوا
فِدْیہ صَدقہئ نَفْل ہو گیا۔اُن روزوں کی قَضاء رکھیں۔
(عَالمگیری ،ج١،ص٢٠٧)
مدینہ٢٠:یہ اِختیار ہے کہ شُروعِ رَمَضان ہی میں پُورے رَمَضان کا ایک دَم
فِدیہ دے دیں یا آخِر میںدیں۔
(عالمگیری ،ج١،ص٢٠٧)
مدینہ٢١:فِدیہ دینے میں یہ ضَروری نہیں کہ جِتنے فِدیے ہوں اُتنے ہی
مَساکِین کو الگ الگ دیں۔بلکہ ایک ہی مِسکین کو کئی دِن کے بھی دیئے جاسکتے
ہیں۔(دُرِّمُختار ،ج٣،ص٤١٠)
مدینہ٢٢:نَفْل روزہ قَصْداً شُروع کرنے والے پر اب پُورا کرنا واجِب ہوجاتا
ہے کہ توڑ دیا تَو قَضا ء واجِب ہوگی۔
( رَدُّالْمُحتَار، ج٣،ص٤١١)
مدینہ٢٣:اگر آپ نے یہ گُمان کرکے روزہ رکھا کہ میرے ذِمّہ کوئی روزہ ہے مگر
روزہ شُروع کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ مجھ پر کسی قِسْم کاکوئی روزہ نہیںہے،
اب اگر فوراً توڑ دیا تَو کُچھ نہیں اور یہ معلوم کرنے کے بعد اگر فَوراًنہ
توڑا،تَو اب نہیں توڑسکتے ،اگر توڑیں گے تَو قَضاء واجِب ہوگی۔
(دُرِّمُختار، ج٣،ص٤١١)
مدینہ٢٤:نَفل روزہ قَصْداً نہیں توڑا بلکہ بِلا اِختیار ٹوٹ گیا۔مَثَلاً
دَورانِ روزہ عورت کوحَیْض آگیا،جب بھی قَضا ء واجِب ہے۔
(دُرِّمُختار، ج٣،ص٤١٢)
مدینہ٢٥: عیدُ الفِطریا بَقََرعید کے چار دِن یعنی ١٠،١١،١٢،١٣ ذُوالحجّۃُ
الْحرام میں سے کسی بھی دِن کا روزئہ نَفْل رکھا تَو (چُونکہ اِن پانچ
دِنوں میں روزہ رکھنا حرام ہے لہٰذا ) اِس روزہ کا پورا کرنا واجِب نہیں
۔نہ اِس کے توڑنے پر قضاء واجِب ،بلکہ اِس کا توڑدینا ہی واجِب ہے ۔اور اگر
اِن دِنوں میں روزہ رکھنے کی مَنَّت مانی تَو مَنَّت پُوری کرنی واجِب ہے
مگر اِن دِنوں میں نہیں،بلکہ اور دِنوں میں۔
(ردُّ الْمحْتار، ج٣،ص٤١٢)
مدینہ٢٦:نَفل روزہ بِلاعُذْر توڑ دینا ناجائز ہے۔مِہمان کے ساتھ اگر
مَیزبان نہ کھائے گا تَو اُسے ناگوار ہوگا یا مِہمان اگر کھانا نہ کھائے گا
تَو میزبان کو اَذِیَّت ہوگی تَو نَفل روزہ توڑدینے کیلئے یہ عُذر
ہے۔(سُبحٰنَ اللّٰہ شریعت کو احتِرامِ مسلم کا کس قَدَر لحاظ ہے) بَشَرطیکہ
یہ بَھروسہ ہو کہ اِس کی قَضاء رکھ لے گا اور ضَحْوَہئ کُبرٰیسے پہلے توڑدے
بعد کو نہیں۔(عالمگیری ،ج١،ص٢٠٨)
مدینہ٢٧:دعوت کے سبب ضَحْوَہئ کُبرٰیسے پہلے روزہ توڑ سکتا ہے جبکہ دعوت
کرنے والا مَحض اس کی موجودگی پر راضی نہ ہو اور اس کے نہ کھانے کے سبب
ناراض ہوبشرطیکہ یہ بھروسہ ہوکہ بعد میں رکھ لے گا،لہٰذا اب روزہ توڑ لے
اور اُس کی قضا رکھے ۔لیکن اگر دعوت کرنے والامَحض اس کی موجودگی پر راضی
ہو جائے اور نہ کھانے پر ناراض نہ ہو تو روزہ توڑنے کی اجازت نہیں ہے ۔
(فتاویٰ عالمگیری، ج١،ص٢٠٨ کوئٹہ)
مدینہ٢٨: نَفْل روزہ زَوَال کے بعد ماں باپ کی ناراضگی کے سَبَب توڑسکتا
ہے۔ اوراِس میں عَصْر سے پہلے تک توڑ سکتا ہے بعدِ عَصْر نہیں۔
(دُرِّمُخْتار، رَدُّالْمُحتَار، ج٣،ص٤١٤)
مدینہ٢٩:عورت بِغیر شَوہَر کی اِجازت کے نَفْل اور مَنَّت وقَسم کے روزے نہ
رکھّے اور رکھ لئے تَو شَوہَر تُڑواسکتا ہے مگر توڑے گی تَو قَضا ء واجِب
ہوگی مگر اِس کی قَضاء میں بھی شوہَر کی اِجازت دَرْکار ہے۔یاشَوہَر اوراُس
کے دَرمیان جُدائی ہوجائے یعنی طلاقِ بائن ( طلاقِ بائِن اُس طلاق کو کہتے
ہیں جس سے بیوی نکاح سے باہَر ہو جاتی ہے ، اب شوہر رُجوع نہیں کر سکتا)دے
دے یا مرجائے ۔ہاں اگر روزہ رکھنے میں شَوہَر کا کچھ حَرَج نہ ہو،مَثَلاً
وہ سَفر میں ہے یا بیمارہے یا اِحرام میںہے تَو ان حالتوں میں بِغیر اِجازت
کے بھی قَضاء رکھ سکتی ہے بلکہ وہ مَنْع کرے جب بھی رکھ سکتی ہے۔البَتَّہ
اِن دنوں میں بھی شوہَر کی اِجازت کے بِغےر نَفل روزہ نہیں رکھ سکتی
۔(ردُّالْمحتار ،ج٣،ص٤١٥)
مدینہ٣٠:رَمَضانُ الْمُبارَک اور قَضائے رَمَضانُ الْمُبارَککیلئے شوہَر کی
اِجازت کی کچھ ضَرورت نہیں بلکہ اُس کی مُمانَعَت پر بھی رکھے۔
(دُرِّمُخْتار، رَدُّالْمُحتَار، ج٣،ص٤١٥)
مدینہ٣١:اگر آپ کسی کے ملازِم ہیں یا اُس کے یہاں مزدُوری پر کام کرتے
ہیںتَو اُس کی اِجازت کے بِغیر نَفل روزہ نہیں رکھ سکتے کیوں کہ روزہ کی
وجہ سے کام میں سُستی آئے گی۔ہاں۔اگر روزہ رکھنے کے باوُجُود آپ باقاعِدہ
کام کرسکتے ہیں،اُس کے کام میں کسی قِسْم کی کوتاہی نہیںہوتی،کام پُورا
ہوجاتا ہے۔تَواب نَفل روزہ کی اِجازت لینے کی ضَرورت نہیں۔(
رَدُّالْمُحتَار ،ج٣،ص٤١٦)
مدینہ ٣٢ : نَفْل روزہ کیلئے بیٹی کو باپ ، ماں کو بیٹے، بَہن کو بھائی سے
اِجازت لینے کی ضَرورت نہیں۔( رَدُّالْمُحتَار ،ج٣،ص٤١٦)
مدینہ٣٣:ماں باپ اگر بیٹے کو روزئہ نَفْل سے مَنْع کردیں اِس وجہ سے کہ
مَرض کا اندیشہ ہے تو ماں باپ کی اِطاعت کرے۔
( رَدُّالْمُحتَار، ج٣،ص٤١٦)
فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
یا اللہ عزوجل ماہ رمضان کے طفیل برما کے مسلمانوں
کی جان و مال ،عزت آبرو کی حفاظت فرما۔اٰمین
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے |