تمہارا تو گدھا بھی قیمتی ہے اور میرے بچے بے قیمت؟

ڈھائی کروڑ روپئے کی رقم لیاری متاثرین کو چھپا کر ادا کی گئی اور فی کس ہلاک شدگان کا معاوضہ پانچ لاکھ روپئے اور ایک گدھے کی ہلاکت کا معاوضہ تیس ہزار سے لیکر چالیس ہزار روپئے ادا کیا گیا ۔یہ وہ انڈر گراﺅنڈ بریکنگ نیوز ہے جس کا پردہ فاش روزنامہ امت نے 10 اگست بروز جمعةالمبارک کی اشاعت میں کیا اور پیپلز پارٹی کی دوغلی سیاست کا پردہ بھی فاش کر دیا یہ وہی پیپلز پارٹی ہے جو گینگ وار ،اغواءبرائے تاوان اور اور بھتہ خوری کے خلاف بھر پور آپریشن چوہدری اسلم کی سربراہی میں کرنے کا اعلان کرتی ہے اور پولیس کے جوانوں کی المناک شہادت اور کئی پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کے باوجود اس آپریشن کو عین اس وقت ختم کردیا جاتا ہے جب وہ اپنی کامیابی کے بالکل قریب پہنچ چکا ہوتا ہے اب اس میں پیپلز پارٹی حکومت کی منطق کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی اب یہ ایک کھلا راز بن کر اخبارت اور نیوز چینلز کی کی سرخیوں میں بھی آچکا ہے کہ یہ صرف اور صرف لیاری پر قبضے کی اور گینگ مافیا پر اپنا ذاتی کنٹرول کرنے کی جنگ تھی جس کے نتائج حسبِ منشاءنہ نکل سکے اور پیپلز پارٹی کی دیرینہ سیٹ بھی جس پر بے نظیر بھٹو بھی جیتتی آئی ہیں خطرے میں دیکھتے ہوئے مصالحتی کردار اپنا کر مرنے والوں کے لواحقین کو رات کے اندھیرے میں منانے کی کوششیں کی جا رہی ہےں اور لگتا ہے کہ کچھ معاملات بنے بھی ہیں اور اگر کوئی کسر رہ بھی گئی ہے تو ملکی خزانہ تو ہے ہی رقم کی اندھا دھند تقسیم اور بندر بانٹ کے لئے ۔
محبِ وطن قوتوں کو دکھ ہے تواس بات کا کہ شہر کراچی میں آئے دن انہیں لوگوں کی(امن کمیٹی کے نام پر) پرچی اور بھتہ کے خلاف تاجروں اور عام شہریوں کااحتجاج کیا حکومت اور پیپلز پارٹی کو نظر نہیں آرہا؟ اور کیا آئے دن معصوم اور بے گناہ نوجوانوں پر مشتمل ان نوجوانوں کو جو صبح روزی روٹی کی تلاش میں اپنے گھروں سے نکل کر ان متاثرہ علاقوں سے گزرتے ہیں اور اغواءہوجاتے ہیں اور کئی گھنٹوں کے بعد ان کی انسانیت سوز درندگی کامظاہرہ کرتی ہوئی کٹی پھٹی لاشیں کسی بھی کونے سے بر آمد ہو جاتی ہےں اور اس کے باوجود کہ ان معصوم نوجوانوں کا تعلق کسی سیاسی پارٹی یا گروہ سے نہیں ہے پھر بھی اردو بولنے کے گناہ کی پاداش میںقتل کر دیا جانا حکومتی مشینری دیکھنا ہی نہیں چاہتی اور ان لوگوں کو جو اس سب کے ذمہ دار ہیں مزید مضبوط کرنا چاہتی ہے صرف اس لئے کہ پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک سلامت رہ سکے اب یہ معیار رہ گیا ہے حکومت کرنے کا تو پھر عام آدمی کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔ ہمیں وہ وقت آج تک نہیں بھولا جب ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے اپنے آخری خطاب میں کہا تھا کہ” اب تو اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے “ اس وقت ہم اور ہم جیسے محبِ وطن لوگوں نے اس جملے کو منفی انداز میں محسوس کیا تھا مگر آج اندازہ ہورہا ہے کہ سابق صدر کتنے دور اندیش واقع ہوئے ہیں کہ قبل از وقت ہی بتا گئے کہ جن لوگوں کو تم خود پر مسلط کرنے لگے ہو یہ نااہل ہونے کے ساتھ ساتھ اس ملک کے ساتھ وہ کریں گے جو دشمن ملک کی فوجیں بھی مفتوحہ علاقوں میں کرنے سے کتراتی ہیں جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ لیاری کے گدھوں کی قیمت بھی اردو بولنے والے آدمی سے زیادہ ہے جن کو مولانا عبدالستار ایدھی بھی گدھے کے بدلے گدھے دے کر نواز رہے ہیں تو وہیں لیاری کے” معصوم“ پیپلز پارٹی سے بھی فی کس تیس سے چالیس ہزار روپئے رات کے اندھیرے میں وصول کرتے نظر آتے ہیں اور اس کے بعدیہی” معصوم“ صدرِ محترم کی بہن بی بی فریال تالپر کے پاس بھی فریاد لے کر پہنچ جاتے ہیں اور نوازے جاتے ہیں کیونکہ وہ مقدس گدھے تھے ۔

اب اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ کراچی میں گدھے زیادہ قیمتی ہیں یا انسانی جان ،مگریہ انتہائی متعصبانہ فیصلہ تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے تعصب کی انتہاءکر تے ہوئے کر دیا ہے۔اب بھی اگر کوئی کمی رہ گئی ہو تو اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں ان انسانی ہلاکتوں پرپیپلز پارٹی کا کوئی ایک وزیر باتدبیر کسی ایک مرنے والے کے گھر تعزیت پر نہ پہنچا اور نہ ہی یہ جاننے کی کوئی سنجیدہ یا غیر سنجیدہ کوشش کی کہ ان متاثرین کے گھر میں جن کے مرد دن دھاڑے اغواءکر کے بے ہیمانہ تشدد کر کے مار دئے گئے ان خاندانوں کا کیا حال ہے کیا ان کے گھر چولہا جل رہا ہے یا نوبت فاقہ کشی پر پہنچ گئی ہے ؟ کیا ان کے گھرپر عید کی آمد محسوس کی جارہی ہے ؟ کیا ان معصوم یتیم بچوں کے سر پر کسی نے دستِ شفقت رکھتے ہوئے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ان معصوم اور یتیم بچوں کے عید کے کپڑے ،جوتے لے لئے گئے یا وہ اب زندگی بھر ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم رہیں گے کیوں کہ وہ لیاری کے گدھے نہیں ہیں جن کے مالکان کو دن کے اجالے سے لیکر رات کے اندھیرے تک میں خفیہ اور علیٰ الاعلان نوازا جا رہا ہے اور یہ کمسن اور یتیم بچے منہہ تک رہے ہیں کہ کوئی ان کو بھی عید کی خریداری کرادے کیا ان کا باپ زندہ ہوتا تو ان بچوں کو یہ دن دیکھنا پڑتا ؟نہیں قطعی نہیں دیکھنا پڑتا اب اب دیکھنا پڑ رہا ہے کیونکہ وہ کراچی سے تعلق رکھنے والے اردو بولنے والے ہیں لیاری کے گدھے نہیں۔۔۔۔
MUKHTAR ASIM
About the Author: MUKHTAR ASIM Read More Articles by MUKHTAR ASIM: 12 Articles with 9188 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.