اِعتِکاف توڑنے کی سات ٧ جائز
صورَتیں
ان تمام صُورتوں میں اِعتِکاف فاسِد ہوجائے گااوراس کی قَضاء بھی لازِم
ہوگی لیکن گناہ نہ ہوگا۔
مدینہ١:اِعتِکاف کے دَوران کوئی ایسی بیماری پیداہوگئی جس کا علاج مسجِدسے
باہَرنکلے بِغیرنہیں ہوسکتا تواِع:تِکاف توڑناجائز ہے۔
(رَدُّالْمُحْتَار،ج٣،ص٤٣٨)
مدینہ٢:کوئی آدَمی ڈُوب رہاہویاآگ میںجل رہاہوتو اِع:تِکاف توڑ کر ڈوبتے
ہوئے کوبچائیں اورجلتے ہوئے کی آگ بُجھائیں۔ (رَدّالْمُحْتَار،ج٣،ص٤٣٨)
مدینہ٣: جِہاد کےلئے اِعلانِ عام کردیاجائے(یعنی جِہاد فرضِ عَین ہوجائے)
تو اِعتِکاف کوتوڑکر جِہاد میں شرکت کریں۔
(رَدّالْمُحْتَار،ج٣،ص٤٣٨)
مدینہ٤: اگرجَنازہ آجائے، کوئی اورنَماز پڑھنے والانہیں ہے تو اِعتِکاف توڑ
کر (اِحاطہئ مسجِدسے باہَرنکل کربھی) نَمازِ جَنازہ پڑھ سکتے ہیں۔(رَدّالْمُحْتَار،ج٣،ص٤٣٨)
مدینہ٥:کوئی شخص زبردستی نکال کر باہَر لے جائے مَثَلًاحَکُومَت کی طرف سے
گَرِفتاری کاوَارَنٹ آجائے توبھی اِعتِکاف توڑنا جائزہے جب کہ فوراً دوسری
مسجِدمیں جاناممکن نہ ہو۔ (رَدّالْمُحْتَار،ج٣،ص٤٣٨)
مدینہ٦:اگراپنے عزیز،مَحرَم یا زَوجہ کاانتِقال ہوجائے تونَمازِجنازہ کیلئے
اِعتِکاف توڑسکتے ہیں۔(مگر قضاء کرناواجِب ہوجائے گا)(حاشیۃالطحطاوی علی
المراقی،ص٧٠٣)
مدینہ٧:آپ اگر کسی مُعاملہ میں گواہ ہوں اورآپ کی گواہی پر فیصلہ موقُوف ہو
تو آپ کیلئے یہ جائزہے کہ اِع:تِکاف توڑکرگواہی دینے کیلئے جائیںاور حق دار
کے حق کوضائِع ہونے سے بچائیں۔ (رَدّالْمُحْتَار،ج٣،ص٤٣٨)
حاجت روائی اور ایک دن کے اعتکاف کی فضیلت
مُحَدِّثین کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے محبوبِ ربِّ ذُوالجلال
عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ظاہِری انتِقالِ
پُرملال کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد کی ایک نہایت ہی رقّت انگیز حکایت نَقل کی
ہے،چُنانچِہ منقول ہے، حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ ابنِ عبّاس رضی اللہ تعالیٰ
عنہما مسجِد ِنَبَوِیِّ الشَّریف علٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی
پُرنوراوررَحمت سے مَعمُور فَضاؤں میں مُعتکِفتھے۔ایک نہایت ہی غمگین شخص
آپ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمتِ بابَرکت میںحاضِرہوا۔آپ ر ضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے ہمدردی کے ساتھ وَجہِ غم دریافت کی۔اُس نے عرض کی،''اے رسولُ
اللّٰہعَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چچاجان ر ضی
اللہ تعالیٰ عنہ کے لختِ جگرر ضی اللہ تعالیٰ عنہ ! فُلاں کا میرے ذمّہ کچھ
حق ہے۔'' ۔ پھرسرکارِنامدارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مزارِ
پُرانوار کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا،''اس روضہئ انورکے اندرتشریف فرما
نبیئ رحمت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حُرمَت(یعنی عزّت)کی
قسم! میںاُس کاحق اداکرنے کی اِستِطاعَت(یعنی طاقت ) نہیں رکھتا۔''حضرتِ
سیِّدُناعبداﷲابنِ عبّاس ر ضی اللہ تعالیٰ عنہمانے فرمایا، ''کیا میں
تُمہاری سفارش کروں؟''اُس نے عرض کی،''جس طرح آ پ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ
بہتر سمجھیں ۔ چُنانچِہ ابنِ عبّاس ر ضی اللہ تعالیٰ عنہمایہ سن کر فوراً
مسجِد ِنَبَوِیِّ الشَّریف علٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے
باہَرنکل آئے۔یہ دیکھ کروہ شخص مُتَعَجِّب ہوکر عرض گزارہوا ، ''عالی
جاہ!کیاآپ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ اِعتِکاف بھول گئے ؟ ''
جواباًارشادفرمایا،'' نا،اعتِکاف نہیں بھولا ۔ '' پِھر مَدَنی تاجدارصلَّی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مزارِ نور بار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے
اَشکبَا ر ہو گئے، کیونکہ سرکارِنامدارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کوجُدا ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا ، سرکارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی یادنے بے قرار کردیا، آنکھوںسے ٹَپ ٹَپ آنسوگرنے لگے۔
آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی ہے
اس پہ دیوانگی چھا گئی ہے
یاد آقا کی تڑپا رہی ہے
یاد آئے ہیں شاہِ مدینہ
سرکارِعالی وقارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مزارِپُراَنوارکی
طرف اشارہ کرتے ہوئے روتے ہوئے فرمانے لگے،''کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزراکہ
میںنے اِس مزار شریف میںآرام فرمانے والے محبوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم سے خوداپنے کانوں سے سناہے کہ فرمارہے تھے ، ''جواپنے کسی
بھائی کی حَاجَت روائی کے لئے چلے اور اسکو پوراکردے تویہ دس سال کے
اِعتِکاف سے افضل ہے اور جو رضائے الہی عَزَّوَجَلَّکیلئے ایک دن
کااِعتِکاف کرتاہے تواللّٰہعَزَّوَجَلَّ اُس کے اور جہنَّم کے درمِیان تین
خَندَقیں(گڑھے) حائل فرما دے گاجن کا فاصِلہ مشرِق ومغرِب کے درمِیانی
فاصِلہ سے بھی زیادہ ہوگا۔''( شُعَبُ الْایمان،ج٣،ص ٤٢٤، حدیث٥ ٦ ٣٩)
محترم قارئین کرام! سبحٰنَ اللّٰہ!عَزَّوَجَل جب ایک دن کے اعتِکاف کی اتنی
فضلیت ہے توپھر''دس ١٠ سال کے اِع:تِکاف سے بھی افضل ''کی بَرَکتوں کاکون
اندازہ کرسکتاہے؟اِس حِکایت سے اپنے اسلامی بھائیوںکی حَاجَت رَوَائی
اورمُشکِل کُشائی کی فضیلت بھی معلوم ہوئی۔مسلمانوں کی دِلجوئی کی
اَھمِّیَّت بَہُت زیادہ ہے چُنانچِہ حدیثِ پا ک میں ہے:فرائض کے بعد سب
اعمال میں اللّٰہ عزوجل کو زِیادہ پیارا مسلمان کا دل خوش کرنا ہے۔''
( المعجمُ الکبیر ،ج١١، ص ٥٩، حدیث ١١٠٧٩ )
واقِعی اگرا س گئے گزرے دَور میںہم سب ایک دوسرے کی غمخواری وغمگُساری
میںلگ جائیں تو آناً فاناً دُنیا کا نقشہ ہی بدل کررَہ جائے۔لیکن آہ!اب تو
بھائی بھائی کے ساتھ ٹکرا رہا ہے،آج مسلمان کی عزّت وآبرواوراُس کے جان
ومال مسلمان ہی کے ہاتھوں پامال ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ
ہمیںنفرتیںمٹانے اور مَحَبَّتیں بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔
اِعتِکاف میں جائزکاموں کی اجازت پرمُشتَمِل 8 مَدَنی پھول
مدینہ١: کھانا،پینا،سونا(مگرمسجِدکی دَری پرکھانے اور سونے کے بجائے اپنی
چادَر یاچَٹائی پر کھائیں ، سوئیں )
مدینہ٢: ضَرورۃًدُن:یوِی بات چیت کرنا۔(مگرآہستگی کے ساتھ اورفالتوباتیں ہر
گز مت کیجئے) ۔
مدینہ٣:مسجِدمیں کپڑے تبدیل کرنا،عِطرلگانا ،سریاداڑھی میں تَیل ڈالنا۔
مدینہ٤: داڑھی کاخط بنوانا،زُلفیں تَراشنا،کنگھی کرنا،مگران سب کاموںمیں یہ
اِحتِیاط ضَروری ہے کہ کوئی بال مسجِد میں نہ گرے، تَیل یا کھانے وغیرہ سے
مسجِدکی صَفیں اور دیواریں وغیرہ آلُودہ نہ ہوں۔اس کی آسان صورت یہ ہے کہ
یہ کام وُضو خانہ یا فِنائے مسجِدمیں اپنی چادربچھاکر کریں ۔
مدینہ٥:مسجِدمیں بِلااُجرت کسی مریض کا مُعایَنَہ کرنا،دوا بتانابلکہ نُسخہ
لکھ کردینا ۔
مدینہ٦:مسجِد میں بِلا اُجرت قرآنِ مجیدیاعِلمِ دین پڑھنا، پڑھانا یا
سنّتیں اور دُعائیں سیکھنا ، سکھانا ۔
مدینہ٧: اپنی یااَہل وعِیال کی ضَرورت کیلئے مسجِدمیں خریدوفروخت مُعْتکِف
کیلئے جائز ہے ۔ مگرتِجارت کی کوئی چیزمسجِد میں نہیں لاسکتے۔ہاں اگر تھوڑی
سی چیزہے کہ مسجِد میں جگہ نہ گھِرے تولاسکتے ہیں۔خرید و فروخت صِرْف
ضَرورت کیلئے ہواور مال کمانا مقصود ہوتوجائزنہیں، چاہے وہ مال مسجِد کے
باہَرہی کیوں نہ ہو۔(دُرِّمُخْتَار،ج٣،ص٤٤٠)
مدینہ٨: کپڑے،برتن وغیرہ مسجِدکے اندردھوناجائزہے۔بشرطیکہ مسجِدکی دری
یافرش پراس کاکوئی چھینٹانہ پڑے۔اس کی صورت یہ ہے کہ کسی بڑے برتن وغیرہ
میں دھوئیں ۔
ان باتوں کے علاوہ دیگرتمام وہ کام جواعتِکاف کیلئے مُفسِدومَمنوع نہیں
اورفی نَفسہٖ جائز بھی ہیں اوران کے کرنے سے مسجدکی کسی طرح سے بے حُرمتی
بھی نہیںہوتی وہ سب کے سب کام مُعْتکِف کیلئے جائزہیں،لیکن بے جا چیزوں سے
بچیں۔ اب مُعْتکِف کوچندکا م کرنے کی اجازت سے متعلّق دو احادیثِ مبارکہ
پیش کیجاتی ہیں۔
مُعتَکِف مسجِد سے سَر نکا ل سکتا ہے
مدینہ١: اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہا رِوایَت فرماتی ہیں،'' جب سرکارِ دو عالم،نُورِ مُجَسَّم ،
شاہِ بنی آدم ، رسول مُحتَشَم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اعتِکاف میں ہوتے(تومسجِدہی میں سے)اپنا سرِ ا قدس میرے ( حُجرہ کی)طرف
نکال دیتے اور میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سرِاقدس میں
کنگھی کردیتی تھی اورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم گھرمیں
قَضائے حاجت کے سِواکسی اورکام کیلئے تشریف نہ لاتے تھے ۔ ' '
(صحےح بخاری ،ج١،ص٦٦٥،حدیث٢٠٢٩)
باہر نکلے تو چلتے چلتے عیادت کر سکتا ہے
مدینہ٢: اُمّ الْمُؤمِنِینحضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہا رِوایَت فرماتی ہیں، '' سرکارِمدینہ منوّرہ،سردارِمکّہ مکرّمہ
صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اعتِکاف کی حالت میں مریض کے پاس سے
گزرتے تو بِغیر ٹھہرے اورراستے سے بِغیرہَٹے گُزرتے ہوئے (چلتے چلتے)اُس
کاحال پوچھ لیتے تھے۔''
(سنن ابی داود،ج٢،ص٤٩٢،حدیث٢٤٧٢)
محترم قارئین کرام! !اس حدیثِ مبارَک سے یہ معلوم ہوا کہ شہنشاہِ نُبُوَّت
صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کسی شَرعی یاطَبعی حاجت کیلئے
مسجِدسے باہَر تشریف لاتے اورسرکار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کاگزرکسی بیمارکے پاس سے ہوتا توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نہ تواُس کی عِیادت کیلئے اپنے راستے سے ہٹتے اورنہ مریض کے پاس
ٹھہرتے،بلکہ چلتے چلتے اُس کی مِزاج پُرسی فرمالیتے۔ کوئیمُعْتَکِف اسلامی
بھائی جب کسی شَرعی عُذرسے اِحاطہء مسجِدسے باہَرنکلے تو اُسے ضَرورت سے
زائد ایک لمحہ بھی نہ ٹھہرناچاہئے۔ہاںراستے میں چلتے چلتے کسی کو سلام کر
لیا، کسی سے کوئی بات کرلی یاچلتے چلتے بیمارپُرسی کرلی توجائزہے۔لیکن اِس
غَرَض سے راستے میں رُک گئے یاراستہ تبدیل کیاتواِعْتِکاف ٹوٹ جائے گا۔
فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
یا اللہ عزوجل ماہ رمضان کے طفیل برما کے مسلمانوں
کی جان و مال ،عزت آبرو کی حفاظت فرما۔اٰمین
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے |