گزشتہ 65برس سے پاکستان اور
بھارت ایک دوسرے کے شدید حریف رہے، دونوں نے کئی جنگیں لڑیں اور ایک دوسرے
کو ہر محاذ پر نیچا دکھانے کے لئے کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔ خاص طور پر
بھارت نے ہر علاقائی اور عالمی فورم پر پاکستان کی شدید ترین مخالفت کی
کیونکہ 1947ءمیں تقسیم ہندوستان کے وقت بھارت نے پاکستان کو دل سے تسلیم
نہیں کیا اور آج تک وہ دل سے پاکستان کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔
اگرچہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ دوستانہ اور دیرپا تعلقات کے لئے متعدد بار
کوششیں کیں اور پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام
مسائل کو بات چیت سے حل کیا جائے لیکن بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی اور تنگ
نظری نے معاملے کو کبھی آگے بڑھنے نہیں دیا۔ حالیہ عرصے میں بھی بھارت نے
ممبئی حملوں کے بعد پاکستان کو شدید تنقید کا نہ صرف نشانہ بنایا بلکہ
عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے اور ایک دہشت گرد ملک قرار دینے میں
کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اگرچہ ممبئی حملوں کے بعد پاکستان نے بھارت کو
تحقیقات میں ہر ممکن حمایت و امداد کی یقین دہانی کرائی اور مدد بھی کی
لیکن اس کے باوجود بھارت نے پاکستان پر الزام تراشیوں کا سلسلہ بند نہ کیا۔
حال ہی میں بھارت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے فروغ اور خطے میں سلامتی کے
معاملات کے پیش نظر پاکستان پر سے تجارتی پابندیوں کو اٹھا لیا ہے۔ بھارت
نے پاکستانی تاجروں حتیٰ کہ تمام شہریوں کو بھارت میں دفاع، سپیس اور ایٹمی
توانائی کے شعبوں کے علاوہ تمام سیکٹرز میں سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دیدی
ہے۔ بھارت نے پابندی اس دعوے کے ساتھ اٹھائی ہے کہ بھارت اپنے پڑوسی ملک
پاکستان کے ساتھ بداعتماد کی بحالی چاہتا ہے اور دوستانہ تعلقات کا فروغ
چاہتا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین مسائل کے حل جن میں کشمیر، سیاچن، سرکریک
اور پانی کا مسئلہ حل کرنے کی طرف بھارت اس کو ایک مثبت قدم قرار دے رہا ہے۔
پاکستان کی تاجر برادری نے بھی اس کو ایک مثبت قدم قرار دے کر خوش آمدید
کہا ہے اور اُمید ظاہر کی ہے کہ بھارت اپنے سرمایہ کاروں کو بھی پاکستان
میں سرمایہ کاری کی اجازت دے گا۔ بھارت اور پاکستان امن کوششوں کی بہتری
کےلئے تجارتی سفارت کاری کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ حالات و واقعات دونوں
ممالک کے مابین بڑھتے ہوئے تعلقات کے مزید فروغ کی نوید دے رہے ہیں۔ اسی
طرح صدر آصف علی زرداری نے بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ کو پاکستان کے
دورے کی دعوت دی جس کو پہلے ہی قبول کرلیا گیا اس سے بھی تازہ اُمید بندھی
ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں بہتری آئیگی۔ بھارت اور پاکستان
دونوں بھارتی وزیر اعظم کے آئندہ دورہ پاکستان سے بہت سی اُمیدیں لگائے
ہوئے ہیں۔ اس بات کے قطع نظر کہ ان کے دورے سے سٹرٹیجک معاملات میں کوئی
پیش رفت آئی ہے۔ دونوں ممالک کے رہنماءآزادانہ فیصلے کرکے حقیقی معاملات کو
حل کرنا چاہئے۔
بھارتی میڈیا سخت گیر سیاستدانوں اور انتہاءپسند مذہبی تنظیموں کے زیر اثر
بھارتی وزیر اعظم کے پاکستانی صدر زرداری کی دعوت قبول کرنے کے فیصلے کے حق
میں کوئی خاطر خواہ رائے عامہ ہموار نہیں کرسکا ہے۔ ایک طرف تو بھارتی
دانشور پاکستان کے ساتھ امن عمل کو جلد از جلد بہتر کرنے کے لئے کوشاں ہیں
تو دوسری طرف وہ بھارتی وزیر اعظم کے دورہ پاکستان کی مخالفت بھی کررہے ہیں
جبکہ وہ پاکستانی تاجروں اور سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری بھی چاہتے ہیں
تاکہ بھارت میں پیسہ آئے۔ بھارتی ہندو ذہنیت کی دہری اور دو رُخی پالیسیاں
اور سوچ پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کو تباہ کردیتی ہیں۔ بھارت کبھی بھی
کھلے دل کے ساتھ پاکستان کے ساتھ مخلص ہو کر دوستانہ تعلقات کا فروغ نہیں
چاہتا۔ تنگ نظر ہندو ذہنیت نہیں چاہتی کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر
کیا جائے تاکہ پاکستان سرحدوں سے بے فکر ہو کر ترقی کی جانب سفر کرسکے۔
پاکستان کو بھی چاہئے کہ بھارت کی ان چالاکیوں پر نظر رکھیں جن کے تحت وہ
تجارتی مراعات کی آڑ میں اور سفارتکاری کے ذریعے دیگر اہم معاملات کو پس
پشت ڈالنا چاہتا ہے۔ بھارت چالاکی اور ہوشیاری سے یہاں کے کاروبار کو بھارت
میں منتقل کردینا چاہتا ہے۔ یہ اقدام کسی صورت پاکستان کے ساتھ مخلصی پر
مبنی نہیں ہے۔ پاکستان کو بھارت کے ساتھ کوئی بھی قدم بہت سوچ سمجھ کر
اٹھانا چاہئے کیونکہ ہندو ذہنیت بہت شاطر ہے اور وہ کبھی پاکستان ترقی
یافتہ اور خوشحال ملک نہیں دیکھنا چاہتی۔ |