ہم پہلے تو یہ واضح کردیں کہ نہ
ہم کوئی مولوی ہیں اور نہ اُنکے مخالف ۔کیونکہ "مذہبی بحث میں نے کی ہی
نہیں "۔ اور وہ بھی صرف اسی لیے کہ" فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں"۔مگر آج
اپنے ایک پُرانے نوشتہ پر نظر پڑی تو دل بے اختیار لکھنے پر مائل ہوا۔
2010میں ایک ملعون نے کچھ کارٹون وغیرہ حضورﷺ کی شان میں گستاخی کی غرض سے
شائع کیے تھے۔ جس کا مسلمانوں نے کافی سختی سے نوٹس لیا تھا ۔اور آج دُنیا
میں ہماری جو حالت اور حیثیت ہے اُس کے حساب سے ہم مسلمان صرف نوٹس ہی لے
سکتے ہیں کچھ کر نہیں سکتے۔دُنیا کی تاریخ اُٹھا کر دیکھیں قوموں پر عروج و
زوال آتے رہتے ہیں۔لیکن آج میری غرض اُس ایک واقعہ کے بیان سے ہے جو شکست
خوردہ معاشرے کے نفسیات کی عکاسی کرتا ہے۔ہمارے ایک مولوی صاحب اللہ اُسے
سد ا سُکھی رکھے! ،نے اپنے جمعہ کے خطبے میں ایک لمبی تقریر صرف ٹیلی نار
سِم کی ردمیں کردی ۔ اور موصوف نے لوگوں سے بھری مسجد میں ہاتھ اُٹھوا کر
قسم لی کہ آئندہ ٹیلی نار کی سروس استعمال نہیں کریں گے۔اُنکا جذبہئِ ایمان
اپنی جگہ مگر مسجد میں قسم کھانے والے آج بھی ٹیلی نار سے استفادہ کر رہے
ہیں۔ مُجھے بار بار یہ خیال آرہا تھا کہ دُنیا کا سب سے آسان کا م کسی چیز
کا رد کرنا ہے اور مشکل ترین کام کسی قوم کی اصلاح ہے۔ رد کے لئے صرف ایک"
نہیں" کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ نہیں!۔ لیکن اگر ہم کھلے دل سے سوچیں کہ رد
کے ساتھ ساتھ ایک متبادل کی بھی ضرورت پڑتی ہے اور یہ اکیسویں صدی ہے اس
میں آپ انسانوں کو غاروں کی طرف واپس لے جانے کی جتنی بھی کوشش کریں بے کار
ہوگی ۔اس لئے آئے روز رد ہوتے ہیں کفر کے فتوے لگتے ہیں اور اسے ایک دل لگی
سمجھا جاتا ہے۔ میرا دل کافی مچل رہا تھا کہ مولوی صاحب سے بھر ی مسجد میں
سوال کروں ،کہ مولوی صاحب اگر ردپر آئیں تو ہم سب سر سے پیر تک اسی رد کی
زد میں آتے ہیں ۔ ناروے اور ٹیلی نار پہ کیا موقوف۔ کفرتو مسلمانوں کے لئے
واحدملت ہے ۔ پھر رد کریں اُس کپڑے کا جسے سنت سمجھ کر آپ پگڑی باندھتے ہیں
، اُس جوتے کا جسے "جاگر"کہہ کر ٹھلتے ہیں،اُس تسبیح کا جسے تبرک سمجھ کر
دن رات پھراتے ہیں ۔اُس جائے نماز کا جس پر پانچ وقت کھڑے ہوکر سجدہ کرتے
ہیں۔اور جو کپڑا آپ نے بغیر کالر کے سلواکر پہنا ہے اُس کپڑے کے لئے مشینیں
کہاں سے منگوائی گئیں؟ ۔ اور کیا موبی لنگ اور زونگ کی کمپنیاں حسن بصری ؒچلاتے
ہیں؟۔اگر رد کرنا ہے تو سارے نظام کا کریں پھر بینکوں کے سودی نظام کا بھی
رد کریں !۔ اگر رد کرنا ہے تو زرعی ٹریکٹروں کا بھی رد کریں۔اگر رد کرنا ہے
تو اُن تنخواہوں کا رد کریں ،جس کے جی پی فنڈ زمیں ہر سال سود در سود رقم
جمع ہوتی ہے۔ اس رزق کا بھی رد کریں جو آپ کی پرواز میں کوتاہی
لارہاہے(یعنی ان ہی حرام کھانے والوں کے گھروں سے آتا ہے)۔اور ہر ایک رد کے
ساتھ ایک ایک متبادل بھی مہیا کریں ،کوئی اسلامی سِم بنائیں ، جس سے ہم
مسلمان آپس میں بات کر سکیں۔ کوئی اسلامی موبائل فون بنائیں تاکہ ہم ن
Nokia اور Samsang والوںکے در پر نہ جائیں۔
حالت تو ہماری یہ ہے کہ اگر ان ہی قابِلِ رد لوگوں نے ٹائلٹ پیپر نہ بنایا
ہوتا تو کراچی اور لاہور میں مٹی کا ڈھیلا ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہماری عقل
ٹھکانے آجاتی۔ہمیں معلوم ہے کہ ہم ایک ایسے سسٹم میں جکڑے ہوئے ہیں جو تعفن
زدہ ہے۔ ہم ایک غلیظ اور تاریک کوٹھڑی میں کھڑے ہیںجس میں ہم آہستہ آہستہ
دہنس رہے ہیں اگر کوئی ایک پیر نکالنے کی کوشش کرے تو دوسرا گھٹنے تک دہنس
جاتا ہے۔ہم خود بھی اس سودی اور سرمایہ دارانہ سسٹم سے نکلنا چاہتے ہیں ۔لیکن
کوئی اللہ کا بندہ کوئی مُلااُٹھے اور ایک نیا سسٹم دے ۔کتابوں میں نہیں
زمین پر۔۔پچھلے تین سو سالوں سے میرے علم کے مطابق کسی بھی مُلا نے رد کے
سوا کوئی دوسرا کام نہیں کیا۔ہماری حیثیت اُس فوج کی طرح ہے جو اندھی ہوگئی
ہو اور اُسکی سمت بھی گم ہوگئی۔ ہم فلسفہ اور منطق کو آج تک رٹ رہے
ہیں۔کیونکہ کسی زمانے میں مسلمانوں نے غیر مسلموں کو جوابات دینے کے لئے یہ
علم Adopt کیا تھا۔آج ہم اُسی مورچے پر فائر کررہے ہیں لیکن ہمارے دُشمن
ایک اور مورچے میں گُھس گئے ہیں۔وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے مورچے میں بیٹھ
گئے ہیںاور اُسی کا سہارا لیکر ہمارے گھروں میں گھس آئے ہیں۔ مسجد حرام تک
موبائل پہنچا دیا ۔ افغانستان اور عرا ق کی حکومتوںکو حرف غلط کی طرح بیک
جنبشِ قلم مٹا دیا ۔ اور ہم درجنوں بچوں کو منطق اور فلسفہ رٹوا رہے ہیں۔کہ
شاید کوئی اعترض کرے تو ہم جواب دیں گے۔ اب کافر زبان سے اعتراض نہیں کرتے
، اب وہ دُنیا کے سامنے ہمیں حقیر اور ذلیل ثابت کر رہے ہیں ، باتوں سے
نہیں عمل سے۔۔۔اور کوئی مولوی مجھے یہ بتا دے کہ جتنے بچے ان سینکڑوں سالوں
میں منظق اور فلسفے نے تیار کیے اُن میں سے کتنے فیصد نے غیر مسلموں سے
ملاقات کی اور اُن کو اپنی منطق سے قائل کیا؟ ۔
لیکن مرتا کیا نہ کرتا، ہم بھی اپنی باتیں اپنے دل میں لیکر اپنے گھر لوٹ
آئے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ ہم مسلمان اختلافِ رائے پر گردن اُڑا دیتے ہیں۔
اگرعامی(ہم جیسے لوگ) بات کتنی بھی سچی کریں، لیکن سُنی مولوی صاحب کی جائے
گی ۔ کیونکہ وہ اعلٰی ہیں اور ہم ادنٰی عوام۔۔ہم پہ جنبش لب کی وجہ سے کفر
کے فتوے لگتے اور زندیق ثابت ہوجاتے۔کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر ڈاکٹر
قدیر صاحب اور ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے منطق پڑھا ہوتا تو کیا کرتے؟۔۔۔آپ
سے بھی یہ ایک سوال ہے؟ ۔۔میری تو یہ رائے ہے ،کہ وہ بھی آٹھ دس ہزار کی
ماہوار تنخواہ لیکر ابھی تک رد ہی میںمشغول ہوتے۔یا جنازے میں بٹنے والے
بتاشے اور نوٹوں کو کن اکھیوں سے دیکھتے۔
خُدا نہ کرے کہ ہم مولوی صاحب کے بد خواہ ہیں لیکن سچ تو یہی ہے کہ نہ
مولوی صاحب نے اور نہ اُس کے مکتب سے نکلنے والوں نے کوئی کمیونیکیشن سسٹم
دیا نہ جیٹ بنائے، اور نہ ریڈار۔۔ کیا حضورﷺ ایسے مسلمان چاہتے تھے؟ یا وہ
مسلمان جو جہانگیر ہو، جو اللہ کا خلیفہ ہو ۔جو داہنے ہاتھ سے فیصلہ کرنے
والا ہو،اور جسکا فلسفہ ہر ملکِ ملکِ مااست ہو۔۔۔ وہ غیور ہوں اور کسی کے
ٹکڑوں پر پلنے والے نہ ہوں۔۔اگر کوئی ایسا سسٹم مولانا صاحب کی دسترس میں
ہو تو ہم آج ہی سے اپنی سم اور موبائل توڑ کر اسلامی کمیونیکیشن اپنا لیں
گے۔۔ اور اگر جواب وہی صبر، تساہل ،سرجھکا کر جینا ، اور امام مہدیؒ کا
انتظار ہے تو ہم اُس وقت تک اضطرار کے قائل ہیں اور سب غیر مسلموں کی
اشیاءبلا امتیاز اضطراری کیفیت میں استعمال کرتے رہیں گے۔۔۔۔ |