مہذب قومیں اور معاشرے وہ کہلاتے
ہیں جن کا طر ہ امتیازتحمل ،برداشت ،رواداری اور اخلاقی حسن وجمال سے مزین
ہو ۔اقدار اور اخلاق انسانی کمالات میں سے وہ اعلی ٰترین وصف ہیں جن کے
ذریعہ کائنات کو تسخیر کیا گیا اور کیا جاسکتاہے۔تاریخ ِانسانی شاہد ہے کہ
ہر شئی کو عروج و زوال اخلاقی معیار کی بلندی اور پستی سے ملا۔وہ انسان
ہمیشہ سرخروہوئے جن کے قلوب اس قیمتی زیو ر سے آراستہ رہے ،وہ تحریکیں اور
وہ کاروان ضر ور اپنی منزل تک پہنچے جن کے دستو ر میں یہ وصف جلی حروف میں
لکھاگیا اور وہ اس پر کاربند بھی رہے۔دنیا میں بڑے بڑے کارناموں اور
تبدیلیوں کا پیش خیمہ یہی حسن اخلاق بنا،کفر و شرک کے اندھیروںنے روشنی اسی
چراغ سے پائی ،وحشی اور بھیڑیے نما انسا نوں کو ہمدردی اور غم خواری کا درس
اس مکتب سے ملا ،بے حس اور بے زبان معبودان ِباطلہ کے پجاریوں کو معبود بر
حق کا پرستشی اسی حسن اخلاق نے بنایا،مندروںاو ر گرجا گروں میں میں بھٹکنے
والے کروڑوں انسانو ں کو راہِ حق اسی رہبر نے نے دکھائی ،میکدوں او رمے
خانوں میں ابلیسی جام پینے والوں کو خدائی جام اسی چشمے نے پلائے ۔الغرض
اخلاق حسنہ ایک ایسی تلوار ہے جس نے کفروشرک کاسرقلم کیا ِ،خداکے عَلم کو
تاقیامت بلند کیا ،اسلام جیسی عظیم دولت کو کائنات میں عام کیا ، امیروں
اور غریبوں میں مساوات قائم کیں، اتحاد و اتفاق کی وہ مثالیں چھوڑیں جن کے
نقوش تاریخ کے اور اق میں ہمیشہ چمکتے رہیں گے ۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے جب تک مسلمان اس نبوی صفت سے وابستہ رہے تو دنیاکی امامت
کے حقدار رہے اوربڑی بڑی طاقتیں ان کے سامنے سر نگوں رہیں ،ا من وامان اور
محبت بھری ہوائیںچلتی رہیں،خوشحالی اور سلامتی مسلم معاشرے کی زینت
بنیں،اتحاد واتفاق کی وہ فضا ءقائم ہوئی کہ جس سے کفر پر ہمیشہ خوف طاری
رہتاتھااور وہ میلی آنکھ نکالنے کی جرات تک نہیںکر سکتا تھالیکن جب اس نعمت
سے بیزار ہوئے تو حالات یکسر تبدیل ہوگئے ،امامت غلامی میں بدل گئی ،فتح
شکست بن گئی محبت بھر ی ہوائیں نفرتوں میں تبدیل ہوگئیں،خوشحالی بد حالی کا
شکار ہوگئی، امن وامان فسادات کی نظر ہوگیااور اتحاد انتشار بن گیا۔جس کی
وجہ سے آج ذلت ، پستی اور ظلم وجبر کے پاٹ تلے زندگی گزرانا مسلمانوں کا
مقدر ٹھہر گیاہے ۔تعجب اور حیرت کا مقام ہے !کہ وہ قوم جن سے قوموں نے
آبیاری پاکر ترقی کی منازل طے کرنا سیکھیں،جن کے روشن اصولوں اور علم سے
بنجر ویرانوں اور کھلیانوں میں بہاریں آئیں آج وہی قوم ماری ماری زندگی کی
بھیک مانگ رہی ہے ،ترقی کرنا تو کجا بنیادی حقوق سے بھی محروم ہے ۔یہ ہماری
بد قسمتی نہیں تو اور کیا ہے !دنیا ہمارے اصولوں کو اپناکر اور ہمارے ہی
وسائل سے ہم پر حکمرانی کر رہی ہے اور ہم آج بھی ان کے در پرجھولی پھیلائی
ہاتھ باندھے کھڑے ہیں ۔
بحثیت امت مسلمہ ہماری حالت اور رویہ پر دنیاتو ہنستی ہی ہے زمین وآسمان
بھی یقینا تر س کھاتے ہو نگے،پاکستان جو صرف ایک خاص نظریہ اور سوچ لے کر
وجود میں آیا جسے اسلامی ایٹمی طاقت ہونے کا اعزاز حاصل ہے جسے ہر وہ سہولت
میسر ہے جو کسی مملکت کے زندہ رہنے کیلئے ضروری ہونی چاہییں،لیکن ان سب
فطرتی خوبیوں اور صلاحیتوں کے باوجود آج جن حالات سے دوچار ہے وہ ناقابل
بیاں ہیں۔مملکت کے وہ ستون جن پر اسلامی جمہوریہ کے نام سے موسوم عمارت
ایستادہ ہے باہم دست و گریباں ہیں، وہ حکمران جو پوری قوم کی راہنمائی کے
لیے حلف اٹھا کر مسائل سے نجات دلانے اور پرسکون زندگی گزارنے کیلئے پرامن
ماحول فراہم کرنے کے وعدے کرتے ہیں طوفانِ بدتمیزی کے سیلاب میں ڈوبنااپنے
لیے باعث اعزاز اور فخرسمجھتے ہیں،سیاست چمکانے کے لیے ہرروز نت نئے مسائل
کی کھوج کرید میں اپنا قیمتی سرمایہ اور وقت توضائع کرتے ہی ہیں،تہذیب
اورثقافت کی بخیاں بھی اڑاتے ہیں۔کبھی ذاتیات پر مناظرے کی مجالس سجانے کی
دعوتیں دی جاتی ہیں تو کبھی فلاحی کاموں کو نشان عبرت بنانے کے لیے مباھلے
کے میدان سجانے میں سردھڑکی بازی لگائی جاتی ہیں ۔ایک دوسرے کو نیچادکھانے
کے لیے قوم کے” معزز افراد“ بھی اس آلودگی میں اپنا دامن تر کرنے کی بھونڈی
کوششیں کررہے ہیں ، کیاصدر ،کیا وزیر، کیا مشیر ، کیامخدوم کیاپختون
کیاچوہدری اور کیا خواجے سبھی ا س بہتی گنگامیں ہاتھ دھو کراپنااپنا”حق
“اداکررہے ہیں ۔سیاسی دکاندار اپنی دوکانداری کی خاطر نہ سوچتے ہیں اور نہ
تولتے ہیں بس بولتے ہیں اور بولتے ہیں۔ سیاسی بازیگروں کی تلوارسے تیز
زبانوں کے نشتر نہ صرف مخالفین کے قلب شق کرتے ہیں بلکہ اس قوم کی امیدوں
کے آخری ٹمٹماتے چراغوں تک کوگھائل کرتے ہیں، ان کے تیروں سے منصف محفوظ
ہیں نہ انصاف چاہنے والے ،مسجدیں محفوظ ہیں نہ مدرسے ،ہر جگہ راج ہے توصرف
ان” بارعب اور شیردل “بہادردکانداروں کا۔
المیہ ہے ہمارا!کہ ہم ان بازیگروں کی چالوں سے واقف بھی ہیں مگرخود بچتے
ہیں نہ معصوم اور بھولی قوم کو بچاتے ہیں ۔نتیجة ً یہ سیاسی دوکاندارمسلسل
ہماری قسمتوں کے سودے کرکے اپنے بلندوبالامحلات تعمیر کررہے ہیں ۔ہم باوجود
ان کی شہ رگ ہونے کے الگ سے تڑپ رہے ہیں اور و ہ پھر بھی اپنی زندگی کی
بہاروں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ان بازی گروں کی بے مروتی اورلاتعلقی کا
اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ عوام دو وقت کی روٹی،بجلی پانی اوربنیادی
اشیاءضروریہ کو ترس رہی ہے اور عوام کے یہ ” خیر خواہ ،ہمدرد“اپنے مخالف
دوکانداروںکو مات دینے کے لیے اسلام ،تہذیب ،ثقافت اوروراثت کی وہ دھجیاں
اڑارہے ہیں جسے دیکھ کر فلک بھی نوحہ کناں ہے۔ اگر ہم نے اپنی آزادی کی لاج
رکھنی ہے اور اسلاف کے خون سے آبیاری پانے والے اس چمن کو زندہ رکھنا ہے تو
ضرور ہمیں ان کا احتساب کرنا ہوگااور مسلسل دھوکے کھانے سے گریز کرنا
ہوگا،غفلت اورلاپرواہی کے کلچر کے نا سور کو جڑ سے اکھیڑنا ہوگا ،کیونکہ
پاک پیغمبر ﷺکا ارشاد ہے کہ ”مومن ایک سوراخ سے دوبارنہیں ڈساجاتا “اور ہم
تو کئی بار ڈسے جاچکے ہیں ۔اب بوقت ہے کہ ہم جاگ جائیں اورپیارے آقاﷺکے اس
فرمان مبارک پرعملاًکاربند ہوجائیں ! ورنہ ایک دن یہ ڈنگ لاعلاج ہوجائیں گے
اوردنیامیں ہمارا نام ونشان تک نہیں رہے گا۔خدارا!اِن بازیگروں سے ہوشیار
رہیں!!! |