کیا اس ملک کے لئے ؟؟

میرے سامنے پڑی اس تصویر میں چار اجزا نمایاں ہیں : ٹرین، پلیٹ فارم، ٹرین میں بیٹھی اور پلیٹ فارم پر کھڑی خواتین اور جدائی ۔منظر کچھ یوں ہے کہ ٹرین پلیٹ فارم پر کھڑی ہے جس نے چند ہی ساعتوں میں منز ل کی جانب بھاگنا ہے ٹرین کے اندر بیٹھی خواتین اور ٹرین سے باہر کھڑی خواتین فرطِ جذبات سے رو رہی ہیں کیونکہ ان خواتین نے چند ہی لمحوں میں ایک دوسرے سے جدا ہو جانا ہے انکی آنکھوں سے جدائی چھلک رہی ہے جو آنسوﺅں کی صورت میں ٹپک رہی ہے ۔یہ تصویر اس ہندو خاندان کی ہے جو چند دن پہلے اپنی جائے پیدائش پاکستان کو ہمیشہ کےلئے چھوڑ کر بھارت آباد ہوا۔ٹرین میں بیٹھی اور سفر کےلئے روانہ ہونے والی خواتین کا زاروقطار رونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ پاکستان چھوڑنے پر خوش نہیں کیونکہ اگر یہ خوشی خوشی پاکستان چھوڑتی تو ان کے چہرے خوشی سے تلملا رہے ہوتے مگر ایسا نہیں ہے ان کے ہاتھ باہر کھڑی خواتین کے ہاتھوں میں پھنسے ہیں ، لبوں سے سسکیوں کی آواز تصویر میں سے بھی امڈ کر باہر آرہی ہے ، آنکھیں پاکستان کے آخری مناظر دیکھ کر اشکبار ہیں ۔مانا کہ یہ ہندو خاندان ہے مگر اس خاندان نے بھی پاکستان کے روشن مستقبل کےلئے اپنا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ڈالا ہوگا ،انہوں نے بھی پاکستان اور انڈیا کے کرکٹ میچ کےلئے پاکستان کی جیت کےلئے لب ہلائے ہوں گے ، انہوں نے بھی اس سال 14اگست کےلئے کچھ نہ کچھ پلاننگ کی ہوگی ، ان کے بچوں نے سکولوں میں ” پاک سر زمین شاد باد“ بھی گایا ہوگا، یہ بھی پاکستان کے روشن مستقبل کےلئے عمران خان ، نوازشریف ، آصف علی زرداری ، منور حسن میں سے کسی ایک کے حامی ہوں گے،یہ نیٹو حملوں کے خلاف بھی ہوں گے اور انہوں نے امریکہ سے دشمنی صرف اور صرف پاکستان کےلئے پال رکھی ہوگی ، یہ بھی پاکستان کے بدترین حالات سے نالاں ہوگے ، یہ بھی پاکستان کے نام پر جوش و جذبات کا مظاہر ہ کرتے ہوں گے ، یہ بھی اس دھرتی کے محافظ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوں گے مگر یہ محب وطن پاکستانی ہندو بھی پاکستان کوچھوڑ گئے۔

انہوں نے ملک کیوں چھوڑا ؟؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر کسی کے ذہن میں ایک خلش بن کر ابھرتا ہے عوام حکمرانوں سے اس کا جواب پانے کی خاطر اخبارا ت ٹٹولتی ہے ٹی وی چینلز چھانتی ہے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کو سنتی ہے مگر ہر کوئی اپنی مرضی کا جواب دیتا ہے ظاہری حالات و واقعات سے دلائل دیتا کوئی حکمرانوں کی نااہلیوں کو چھپانے کےلئے بے ڈھنگ دلائل دیکرحکمرانوں کا ساتھ دیتا ہے تو کوئی حکمرانوں کی ان نااہلیوں پر بھی اپوزیشن کی چالاکیوں کا آلہ کار بنتا ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ بدنام پاکستان ہی ہوتا رہا اور ہو رہا ہے ۔ہمارے وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ یہ خاندان مذہبی فرائض کی ادائیگی کےلئے بھارت روانہ ہوئے ۔شاید کے وزیر داخلہ احساسات کے جذبے سے عاری ہیں شاید کے وزیر داخلہ جدائی کی زبان جاننے سے قاصر ہیں شاید کے وزیر داخلہ حضرت آدم ؑ کے سینکڑوں سال جدائی میں رونے سے واقف نہیں شاید کہ وزیر داخلہ اس جذبے سے بھی آشنا نہیں کہ جس جذبے میں ڈوب کر حضرت یعقوب ؑ اپنے بیٹے حضرت یوسف ؑ کی جدائی میں 32سال تک روتے رہے اور اپنی آنکھوں کی بینائی سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔کاش کے وزیر داخلہ کوکوئی ان آنسوﺅں کا احساس دلوا سکتا کہ جو جدائی میں ٹپکتے ہیں جو آنکھوں سے چھلکتے ہیں ،کاش کے وزیر داخلہ کو کوئی ےہ بتا سکتا کہ مذہبی فرائض کی انجام دہی کےلئے رویا جاتا تو لاکھوں مسلمان حج کی ادائیگی کےلئے روانہ ہونے سے قبل اپنے آبائی وطن سے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے روانہ ہوتے ، سکھ پاکستان میں مذہبی فرائض کی انجام دہی کےلئے آنے سے قبل انڈیا سے زاروقطار رو کر آتے ۔مگر ایسا کبھی نہیں ہوا نہ کسی ملک میں نہ کسی صوبہ میں اور نہ کسی شہر میں ۔

جب اپنے ہی ملک کے حکمران اپنی ماﺅں بہنوں کا سودا ہوس کے پجاریوں کو کر دیں ، جب ایک اسلامی ملک میں اسلامی عبادت گاہ میں گولیاں اور بم برسائے جائیں ، جب دین کے محافظوں کو سر عام کفار کی ایماءپر قتل کیا جائے ، جب ریمنڈ ڈیوس جیسا سفاک قاتل اور جاسوس اپنے ہی ملک کے شاہینوں کو سربازار قتل کر کے بھی باعزت رہائی پا جائے ، جب حافظ قرآن نوجوانوں کو پولیس کی غیر موجودگی میں اذیت ناک موت دی جائے، جب سیکورٹی فورسز ہی اپنوں پر گولیاں برسا دیں ، جب قانون کے رکھوالے نوجوان کو گولیوں سے تڑپا تڑپا کر مار دیں ، جب اپنی ہی افواج سے غیور قبائلیوں کو مروایا جائے ، جب سر عام با اثر افراد باریش استاد کو کلمہ حق کہنے پر ٹانگوں سے معذور کر دیں ، جب وڈیرے اپنے زیر تسلط لوگوں کی خواتین کو برہنہ کر کے گلیوں میں گھمائیں ، جب پولیس ہی بااثر افراد کے کہنے پر روزہ دار شخص کے منہ میں پیشاب انڈیل دے ، جب عزت کے رکھوالے ہی خواتین کی عزت پاش پاش کرنے والے بن جائیں ، جب گھر کے اندر بیٹھی خواتین کی عزت بھی محفوظ نہ ہو ، اغوا ءبرائے تاوان کا راج ہو ، گلی گلی ڈاکو ہوں ، قتل و غار ت گری ایک عام سی بات ہو، کرپشن ، لوٹ کھسوٹ کا راج ہو ، جہاں عوامی رہنما عوام کے خدمت پر بھی نذرانے لیتے ہوں ، جب قومی ہیروز کو بدنام کرنے کےلئے تانے بنے جاتے ہوں ، جہاں چیف جسٹس کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا جائے ، جہاں سیاست کا نام دوسروں کی عزت اچھالنا ہو ، جہاں قانون پر عملدرآمد کر نا جرم ہو ، جہاں ایمانداری گناہ ہو ، جہاں ڈاکٹروں پر ڈنڈے برسائے جائیں ، جہاں کا روشن ترین شہر گولیوں سے گونجتا ہو ، جہاں سڑکیں خون سے دھوئی جائیں اور جہاں کا وزیر اعظم عالمی میڈیا کے سامنے کہے کہ ”جس پاکستانی نے پاکستان چھوڑنا ہے چھوڑ جائے کس نے روکا ہے“ تو کیا ان حالات میں کوئی غیر مسلم اور کوئی اقلیت قوم اس ملک میں ٹھہرے گی ؟یہاں کی اکثریت میں سے بھی بے شمار لوگ ملک کے انہی حالات سے دل برداشتہ ہو کر ملک بدر ہوچکے ہیں بس جس کا بس چل رہا ہے وہ ملک بدر ہو رہا ہے کیا اکثریت تو کیا اقلیت۔

اس سوہنی دھرتی کو بسانے اور سنوارنے کے لئے کیا کیا جتن کئے گئے کیسے کیسے قربانیاں دی گئیں اور کیسے عزم و استقلال کا مظاہر ہ کیا گیا کہ آنکھیں دنگ اور زبان خاموش ہو جاتی ہے ۔کل اسی ملک کےلئے ہندوستان چھوڑ کر آنے والے آج ملک کے بدترین حالات سے دل برداشتہ ہوکر دوسرے ممالک میں ہمیشہ کےلئے منتقل ہو رہے ہیں ۔کسی کو بھی ہوش نہیں حکمران لوٹ کھسوٹ میں مگن ہیں جبکہ عوام اپنے کام دھندوں میں پھنسے ہیں ہر کوئی اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے چکر میں ہے ہر کوئی اپنی دیوار پکی کرنے کے چکر میں ہے لیکن چھت دن بدن کچی اوردراڑوں سے غیر محفوظ ہوتا جارہی ہے ۔ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ 60سے زائد خاندان ہمیشہ کےلئے پاکستانی شہریت کو ٹھکرا کر ہمسائے ممالک میں آباد ہوئے کتنی شرم کی بات ہے کہ جس ملک کے جھنڈے میں بھی اقلیت کےلئے جگہ مختص ہے اس ملک کی زمین اقلیتوں کےلئے تنگ ہو چکی ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم قائد کے پاکستان کے بر خلاف پاکستان بنانے کے چکر میں ہیں اگر تو ایسا پاکستان بن گیا تو پھر جھنڈے کے سفید رنگ کے ساتھ ساتھ سبز رنگ بھی غائب ہو جائے گا ۔ملک کے موجودہ حالات کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ کاش کے ہم ملک کے معاملے میں خود غرض بن جاتے ، کاش کے ہم بار بار آزمائے ہوﺅں کو ملک کی بھاگ دوڑ نہ سنبھالنے دیتے، کاش کہ ہم ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر ملک کے مفاد کو اہمیت دیتے ، کاش کہ ہم اپنوں اور غیروں میں فرق کر سکتے کاش کہ ہم صرف اور صرف اپنے پیارے وطن کےلئے سب کچھ کرتے تو آج ملک کا کونہ کونہ ہمیں دیکھ کر یہ پوچھتا دکھائی نہ دیتاکہ کیا اس ملک کےلئے تمھارے آباﺅاجداد نے قربانیاں دی تھی؟؟
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 86120 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.