وہی خدا ہے

اللہ تعالٰی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس کو زمین میں اپنا نائب (خلیفہ) بنایا۔انسان اور حیوان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور عقل و شعور دیا اور تمام کائنات کو انسان کے لیے مسخر کردیا۔ اور اللہ ہی کے دیے ہوئے اختیارات اور صلاحیتوں کی بنیاد پر انسان آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے کائنات کی تسخیر میں مصروف عمل ہے۔ انسان نے چاند ہر قدم رکھ دیا، مریخ تک رسائی ممکن ہوتی جارہی ہے۔ لاعلاج بیماریوں کا علاج دریافت کیا جارہا ہے، سمندر کی تہوں میں جھانک رہا ہے۔ حتیٰ کہ انسان نے مصنوعی طور پر یعنی کلوننگ کے ذریعے اب انسان اور جانور تخلیق کر رہا ہے۔ یہ سب اللہ کی ہی دی ہوئی صلاحیت اور علم کے ذریعے ہی ممکن ہوا لیکن انسان سمجھتا ہے کہ سب کچھ میرے زور بازو ہی سے ممکن ہوا ہے اور میں خود مختار ہوں، انسان کی اسی روش پر اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں سورت انفطار کی آیت ٨-٦ میں فرماتا ہے ترجمہ :(اے انسان کس چیز نے تجھے اپنے اس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھے پیدا کیا تجھے نک سک سے درست کیا تجھےمتناسب بنایا اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا۔) اسی لیے اللہ وقتاً فوقتاً انسان کو مختلف طریقوں سے اس کی بے بسی کا احساس دلاتا رہتا ہے کبھی زلزلہ کی صورت، کہیں سونامی کی صورت میں کہ انسان کی ساری سائنس دھری رہ جاتی ہے۔ یہ اس لیے تاکہ انسان اپنے رب کو پہچان لے لیکن انسان سمجھ نہیں پاتا ہے اور بیشتر سائنس دان بشمول مغربی سائنسدان یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ مذہب الگ چیز ہے اور سائنس الگ چیز ہے اور سائنس کی ہر چیز کی بنیاد ٹھوس حقائق پر مبنی ہوتی ہے، حالانکہ سائنس کی کوئی بھی چیز حتمی نہیں ہےاگرچہ کئی سائنسدان اس بات قرآن مجید کی عظمت کا اعتراف کر چکے ہیں لیکن اب بھی بیشتر سائنس دان اس کا اعتراف نہیں کرتے ہیں سائنس کا تو یہ حال ہے کہ اگر آج ایک نظریہ پیش کرتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد اس کے بالکل برعکس نظریہ آجاتا ہے۔آج کا انسان جو کائنات کی تسخیر کا دعویٰ کرتا ہے درحقیقت وہ ابھی اس زمین کی تمام مخلوقات تک ہی نہیں پہنچ پایا ہے۔۔ہم اس حوالے سے کچھ رپورٹس کا ذکر کریں گے یہ تمام رپورٹس زمین پر نئے جانداروں کی دریافت سے متعلق ہیں۔ پہلی رپورٹ اکتوبر دو ہزار چار کی ہے

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ انہوں نے جمہو ریہ کونگو میں بن مانس کی ایک نئی نسل دریافت کی ہے۔ اس جانور کی صفات بن مانس اور گوریلے سے ملتی جلتی ہیں۔ جب یہ جانور کھڑا ہوتا ہے تو اس کا قد تقریباً دو میٹر لمبا ہوتا ہے اور یہ گوریلے کی طرح درختوں پہ نہیں بلکہ زمین پر رہتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ دریافت نئی ہوئی تو یہ پچھلے دس سالوں کی ایک انوکھی دریافت ہو گی۔

مقامی گاؤں کے لوگوں کے مطابق یہ بن مانس گھنے جنگلوں میں رہتا ہے اور شیر کو بھی مار سکتا ہے۔ لیکن یہ پر اسرار بن مانس دوسرے بن مانسوں سے سینکڑوں میل دور رہتے ہیں اور ان کی خوراک چمپانزیوں سے ملتی جلتی ہے۔ اس دریافت نے سائنسدانوں کو حیران کر دیا ہے۔

سائنسدان اب اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ آیا یہ نسل ایک نئی دریافت ہے یا نہیں۔ کچھ سائنسدانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ جانور بہت بڑے چمپانزی ہیں جن کو پہلے کبھی ماپا نہیں گیا اور ان کا اٹھنا بیٹھنا گوریلوں کی مانند ہے۔

کچھ کا خیال ہے کہ یہ جانور بن مانس اور گوریلے کے ملاپ سے پیدا ہوا ہوگا۔ اب تک سائنسدانوں کی معلومات محدود ہیں اور وہ مزید معلومات اکٹھی کرنے کے لیے جمہو ریہ کونگو کے جنگلوں میں جا رہے ہیں۔ اسی دوران اس بات کا بھی ڈر ہے کہ اگر ان بن مانسوں کو شکاریوں سے نہ بچایا گیا تو ہم ان کے بارے جاننے سے پہلے ان کو کھو بیٹھیں گے۔

دوسری رپورٹ دسمبر دو ہزار پانچ کی ہے

انڈونیشیا میں بورنیو کے گھنے جنگلات میں عالمی ماحولیاتی ادارے نے ایک نیا جانور دریافت کیا ہے جو بظاہر ممالیہ کی ایک نئی قسم ہے۔ سائنسی اصطلاح میں (mammal) یعنی ممالیہ ان جانوروں کو کہتے ہیں جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں۔ ماحولیات کے عالمی ادارے ’ورلڈ وائڈ فنڈ‘ نے اس جانور کی دو تصاویر حاصل کی ہیں۔ یہ ایک پالتو بلی سے بڑا ہے، اس کا رنگ گہرا سرخ ہے اور اس کی لمبی اور مضبوط دم ہے۔
ادارے کے مطابق مقامی لوگوں نے اس جانور کو پہلے کبھی نہیں دیکھا ہے اور محققین کا کہنا ہے کہ یہ ایک نیا جانور ہے۔ان تصاویر کی ہلکی سی مشابہت لیمر کے ساتھ ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ بورینو کے جنگلات میں لیمر یقیناً موجود نہیں ہیں اور یہ صرف مڈغاسکر کے جزیروں میں پائے جاتے ہیں۔

اس کی دم دیکھ کر صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ بہت مضبوط ہے اور درختوں کے اوپر بھی چڑھ جاتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے پہلے یہ نظروں سے اوجھل رہا ہے۔

جمہوریہ کانگو کے ایک دور دراز جنگل میں سائنسی مہم کے دوران جانوروں کی چار نئی اقسام منظر عام پر آئی ہیں۔ حیات کا بچاؤ کرنے والوں کے ہاتھ جو جانور لگے ہیں ان میں چمگادڑ، چوہے اور مینڈک کی نسل کے جانور شامل ہیں۔ مہم کی سربراہی کرنے والے ادارے وائلڈ لائف کنزرویشن سوسائٹی کے رکن ڈاکٹر اینڈریو پلمٹرے کا کہنا تھا کہ ’ اگر ہم اتنے مختصر عرصے میں چار نئی اقسام دریافت کر لیتے ہیں تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں مزید کیا کچھ مل سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’جنگل کا یہ علاقہ بقیہ کانگو سے شاید گزشتہ دس ہزار سال سے کٹا رہا ہے۔‘

مینڈک کی نسل کے جو دو نئے پھدکنے والے جانور ملے ہیں ان میں ایک چھوٹا سا نہایت چکمدار سبز مینڈک ہے جبکہ دوسرا جانور ایک سے دو سینٹی میٹر لمبا اور سیاہ رنگ کا ہے اور اس کا تعلق مینڈکوں کی ایسی نسل سے لگتا ہے جس کا دنیا کو پہلے سے علم نہیں ہے۔

مہم میں شامل سائنسدانوں کا خیال ہے انہیں اس دوران شاید پودوں کی بھی نئی اقسام ملی ہوں۔ انہوں نے جو پودے اکھٹے کیے ہیں وہ ان میں دس فی صد کی ابھی تک شناخت نہیں کر سکے ہیں۔ اب ان نمونوں کا باقاعدہ مشاہدہ کیا جائے۔سروے کے دوران یہ بھی سامنے آیا ہے کہ پرندوں، رینگنے اور پانی اور خشکی پر یکساں طور پر رہنے والے جانوروں کی کئی اقسام ان جنگلوں میں رہ رہی تھیں۔

مہم کے دوران سائنسدانوں نے چیمپینزی، بھینس، ہاتھی، چیتے اور بندر کی کئی اقسام سمیت دودھ پلانے والے جانوروں کی کئی اقسام بھی دیکھیں، تاہم ان اقسام کے جانوروں کی تعداد توقع سے کم تھی۔

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہاں اتنے جانوروں اور پودوں کے بچے رہنے کی وجوہات اس علاقے کا باقی دنیا سے کٹا رہنا اور انسانی آبادی کا نہ ہونا ہیں۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے بحراوقیانوس میں نئی نوع کی آبی حیات کا خزانہ دریافت کیا ہے جن میں ایک سرخ رنگ کا چمکیلا طعمہ ماہی بھی ہے۔ سائنسدان دو ماہ سے بحر اوقیانوس کے وسط میں پہاڑی چوٹی کے قریب تحقیق کر رہے تھے۔ اس تحقیقی مہم کی سربراہی ناروے کے سائنسدان کر رہے ہیں اور یہ انٹرنیشنل سینسس آف میرین لائف کا حصہ ہے۔اس مہم میں چار ہزار میل کا سفر کیا اور انتہائی جدید آلات کا استعمال کیا گیا۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی مہم ہے اور اس میں مچھلی کی تین سو اور طعمہ ماہی اور اکٹوپس کی پچاس نئی نسلیں دریافت کی گئی ہیں۔

نئی نسل کی ایک مچھلی جو سائنسدانوں نے پکڑی ہے وہ بنسی باز مچھلی کی طرح کی ہے جو اپنے منہ اور سر پر تاروں کی حرکت سے دوسری چھوٹی مچھلیوں کا شکار کرتی ہے۔

اب ان تمام رپورٹس کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ انسان جو کہ اس وقت سمندروں کا سینہ چیر کر اس کے اسرار کی کھوج لگارہا، پہاڑوں کی چوٹیاں سر کر رہا ہے، آسمانوں کی تسخیر کر چکا ہے نئی نئی دنیاؤں کی دریافت کر رہا ہے لیکن وہ اسی زمین پر موجود اللہ کی تخلیقات کو ہی نہیں کھوج سکا ہے۔اللہ تعالٰی نے اس دنیا میں کروڑہا مخلوقات اور انواع و اقسام کے پھل اور پودے پیدا کیے ہیں ایک صاحب نے اپنا واقعہ بتایا کہ ایک دفعہ وہ اپنے ایک دوست کے گاؤں اس سے ملنے گئے اس دوست کے آموں کے باغات تھے اس نے بتایا کہ صرف ایک پھل آم کی صرف میرے پاس ہی دو سو اقسام ہیں اللہ جانے اور دنیا میں کتنی ہونگی۔ دراصل یہ سب چیزیں انسان کو یہ احساس دلاتی ہیں کہ سائنس دراصل اللہ کے عطا کردہ علم کی ایک چھوٹی سی شاخ ہے یہ خود خدا نہیں ہے سائنس کو خدا سمجنھے والوں کو اور اللہ کو ہستی کو انکار کرنے والے مغربی سائنسدانوں کو سوچنا چاہیے کہ اللہ ایسے ہی اپنے وجود کا احساس دلاتا ہے بقول مظفر وارثی ع کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا وہی خدا ہے-دکھائی بھی جو نہ دے، نظر بھی جو آرہا ہے وہی خدا ہے۔ اور وہ جو علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ع یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شائد -کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1454037 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More