بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی
نے کہا ہے کہ سیا چن بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ۔پاکستان کے غیر قانونی طور پر
زیر قبضہ ریاست کشمیر کے علاقے کو واپس لینا باقی ہے۔وزیر دفاع نے بھارتی
پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا کی کمیٹی کو پاکستان کے ساتھ دیرینہ
تصفیہ طلب باہمی تنازعات پرامن طور پر شملہ سمجھوتے اور اعلان لاہور کی
روشنی میں حل کرنے کے بارے میںبتایا ۔کانگریسی رکن اسمبلی منیش تیواری کے
تحریری سوال کے جواب میں وزیر دفاع انتھونی نے لوک سبھا کو بتایا کہ حکومت
کی اصولی اور مسلسل طور پر یہ پالیسی ہے کہ تما م ریاست جموں و کشمیرانڈین
یونین کااٹوٹ انگ ہے۔انتھونی نے کہا کہ ریاست کشمیر کے ایک حصے پر پاکستان
کا غیر قانونی اور زبر دستی کا قبضہ ہے اور پاکستان کے زیر قبضہ ریاست
کشمیر کے علاقے کو پاکستان سے خالی کرانے کا ” اشو“ ابھی باقی ہے۔انتھونی
نے کہا کہ ریاست کشمیر میں دونوں ملکوں کی سیز فائر لائین (CFL)کی تشریح
کراچی ایگریمنٹ1949ءاور شملہ معاہدہ 1972ءکی روشنی میں کی جاتی ہے۔انتھونی
نے کہا کہ سیز فائر لائین کے پوائنٹNJ9842سے سیاچن کے متوازی قراقرم رینج
تک جاتی ہے،سیاچن کے سامنے سالتورو رینج انٹر نیشنل لاءکے مطابق دونوں
ملکوں کی فارمیشن ہے۔انتھونی نے مزید کہا کہ عالمی سطح پر ریاست کشمیر کے
غلط نقشوں کا معاملہ انڈین مشن کے ذریعے اٹھایا گیا ہے،گلط نقشوں کا معاملہ
بھارت امریکہ کے سامنے1983ءسے اٹھاتا آ رہا ہے اور حکومت پاکستان کو بھی
ملٹری اور سفارتی ذرائع سے اس بارے میں بتایا گیا ہے۔
ریاست جموں وکشمیرکے واضح اکثریتی مسلمانوں نے ظالم ڈوگرہ راج کے خلاف اپنے
حقوق کے لئے1930ءسے سیاسی جدوجہد کی لام بندی اور ابتداءکی۔آج تقسیم برصغیر
کے ساڑھے چھ عشرے گزرنے اوراس دوران کئی حقائق و راز بے نقاب ہونے کے بعد
یہ حقیقت بے نقاب ہوتی جارہی ہے کہ برطانوی حکومت نے کس طرح جموں، وادی
کشمیر ،لداخ کو بھارتی قبضے میں دینے کی راہ ہموار کی۔تحقیق کاروں کے لئے
یہ ایک بڑا موضوع ہے کہ برطانوی حکومت ہی 1947-48ءکی جنگ کشمیر کی رائٹر
اور ڈائیریکٹر تھی اور اس کا مقصد ریاست کشمیر کے کوہستانی علاقے پاکستان
کو اور باقی علاقے بھارت کو دینا مقصود تھا ،اس کے لئے برطانیہ نے دونوں
طرف سے اپنی چالیں چلیںاور ٹارگٹ حاصل کیا۔اسی منصوبے میں پیش رفت کے طور
پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ” انڈس واٹر ٹریٹی“ کے نام پر دریاﺅں کی
تقسیم کا ”ناقابل تنسیخ“ معاہدہ کیا گیا۔کیا ظلم ہے کہ عالمی برادری مسئلہ
کشمیر کے مستقل حل کو ٹالتے ہوئے ریاست کشمیر کے قیمتی ترین آبی وسائل کی
دونوں ملکوں کے درمیان مستقل طور پر” بندر بانٹ“ کراتی ہے اور ریاست کشمیر
کے مظلوم عوام کے مصائب کو 65سال سے مسلسل نظر انداز کرتی چلی آ رہی ہے۔
کشمیر میں اقوام متحدہ کی طرف سے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی کرائی گئی
اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم پر
مبنی سیز فائر لائین قائم کی گئی۔1971ءکی جنگ کے بعد شملہ سمجھوتے میںسیز
فائر لائین کو لائین آف کنٹرول کا نام دیا گیا۔یہ لائین گلگت بلتستان کے
برف پوش ،دشوار گزار علاقے کے وجہ سے پوائنٹNJ9842تک ہی قائم کی
گئی۔1984ءمیں بھارت نے فوجی مہم جوئی کے ذریعے پیش قدمی کرتے ہوئے سیاچن
گلیشئر پر قبضہ کر لیا۔پاکستانی فوج نے ساچن گلیشئر کے سامنے مورچے لگا کر
اس پیش قدمی کو روکا۔ جنرل ضیاءالحق حکومت نے سیاچن گلیشئر تک کا علاقہ
بھارتی قبضے سے چھڑانے کی جرات نہ کر نے کی پالیسی اپنائی ۔اس علاقے میں
بھارتی فوج کی پیش قدمی اور قبضے سے یہ مستقل خطرہ پیدا ہو گیا کہ بھارت
ضرورت پڑنے پر پاکستان اور چین کے درمیان زمینی رابطہ منقطع کرنے کی فوجی
مہم جوئی کر سکتا ہے۔سیاچن تنازعہ پر پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات
کے کئی دور ہوئے ۔پاکستان کا موقف یہ ہے کہ پوائنٹNJ9842سے آگے لائین سیدھی
خنجراب پاس تک جاتی ہے جبکہ بھارت کا کہنا ہے کہ سیاچن گلیشئر پر اس کا
قبضہ ہے اور پوائنٹ NJ9842سے لائین سیاچن گلیشئر کے متوازی قائم کی
جائے۔کئی بار دونوں ملکوں کے درمیان سیاچن پر معاہدہ ہوتے ہوتے رہ
گیا۔پاکستان نے نرمی دکھاتے ہوئے سیاچن کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کی
تجویز پیش کی جبکہ بھارت سیاچن سے اپنی فوج نکالنے کی یہ شرط عائید کرتا ہے
کہ جہاں بھارتی فوج سیاچن کے اگلے مورچوں پر موجود ہے، وہاںلائین قائم کرتے
ہوئے نشانات لگائے جائیں جو پاکستان کو منظور نہیں۔ بھارتی زیر قبضہ سیاچن
گلیشئر 70کلومیٹر طویل ہے۔چین کی سرحد اس کے 80کلومیٹر عقب میں ہے۔بھارتی
فوج تما م سیاچن گلیشئر،پوائنٹNJ9842 سے ملحقہ علاقے لاگونگما اور لیوگما
پر قابض ہے۔ لاگونگما اور لیوگما کے سامنے پاکستانی فوج
گیونگ،چومک،بیلافونڈ،شرپی کانگ،کندس اور بالتورو میں مورچہ زن ہے۔بیلا فونڈ
کے علاقے گیاری میں گزشتہ دنوں پاکستانی فوج کا ایک اہم فوجی کیمپ ایک بڑے
گلیشئر کی زد میں آیا تھا ۔اس طرح بھارتی فوج پوائنٹ NJ9842کے سامنے
لاگونگما اور لیوگما سے سیاچن کے آخر تک کے علاقے پر قابض ہے۔بھارتی فوج کے
اہم فوجی بیس کمار اورسیاچن بیس ہیں جبکہ پاکستان کے اہم فوجی بیس علی
برنگسا،گیاری اور گوما میں قائم ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے 14اگست کو ”یوم آزادی“ کے موقع پر
اپنے خطاب میں کہا کہ ”ہمیں امید ہے کہ انڈیا اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا
احترام کرے گا اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے حوالے سے تاخیری حربے
استعمال نہیں کرے گا۔کشمیریوں کے لئے پاکستان کی سیاسی،سفارتی اور اخلاقی
حمایت جاری رہے گی۔“انہوں نے کہا کہ پاکستان امن اور خطے کے مفاد میں بھارت
کے ساتھ تعلقات چاہتا ہے۔
باوجود اس کے کہ بھارت کو دنیا میں پذیرائی حاصل ہے ،ریاست کشمیر پر بھارتی
قبضے کے خلاف کشمیریوں کی جدوجہد کئی نسلوں سے جاری و ساری ہے۔بھارت کے ظلم
،زیادتی،ناانصافی،جبر و تشدد سے ہر چند سال بعدنہتے کشمیری پوری قوت سے
بھارت کے خلا ف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔یہ کشمیریوں کا اپنا دیرینہ جذبہ آزادی
ہے جو انہیں ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار کرتا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں اب
بھی نام نہاد امن ظلم و جبر،گرفتاریوں،قید سے، بندوق کی نوک پر مصنوعی طور
پر قائم ہے ۔اب بھارت خود کشمیری حریت پسندوں کی ایک نئی بھاری بھرکم کھیپ
تیار کر رہا ہے جو سات آٹھ سال سے لیکر پندرہ سولہ سال کے بچوں اور لڑکوں
پر مشتمل ہے۔یہ وہ کشمیری بچے ہیں جنہیں بھارت مخالف مظاہروں کی پاداش میں
بھارتی فورسز کے تشدد،ہلاکتوں،گرفتاریوں اور قید کا سامنا ہے۔میرے والد
گرامی خواجہ عبدالصمد وانی(مرحوم) کو 14سال کی عمر میںجدوجہد آزادی کی
پاداش میں بدترین تشدد،قید اور سخت پابندیوں کا نشانہ بننا پڑا۔اور اس سے
یہ ہوا کہ خواجہ عبدالصمد وانی اپنی وفات تک کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے
لئے ایک روشن ستارے کی طرح کام کرتے رہے اور کشمیریوں کے جذبہ و جدوجہد
آزادی کو آئندہ نسلوں میں بھی جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔اب بھارت
جن کشمیریوں پر ظلم ڈھا رہا ہے ان میں سے ہر اک تحریک آزادی کاروشن ستارہ
بنے گا۔کشمیریوں کی کامیابی جدوجہد کا جاری و ساری رہنا ہے جس میں کشمیری
کامیاب ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ڈھانچہ اتنا مضبوط نہیں ہے جتنا برٹش
گورنمنٹ کا برصغیر میں تھا۔یوںمقبوضہ کشمیر میں بھارتی انتظامات ریاست
کشمیر کو بھارت کے ساتھ رکھنے کے ضامن نہیں بن سکتے۔
پاکستان کی آمر و غاصب حکومتوں اور ان حکومتوں کے تسلسل میں قائم حکومتوں
کی پالیسی نے مسئلہ کشمیر پر پسپائی کی ہی پالیسی اپنائی ہے اور پاکستان
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنی ذمہ داروں سے پیچھے ہٹ چکا ہے۔باقی ماندہ
پاکستان میں ہی مگن رہنے کی ناقص پالیسی کی وجہ سے ہی بھارت ”کتر کتر“ کر
ریاست کشمیر کے مزید علاقے ہتھیاتا چلا آ رہا ہے۔اب پاکستان کے پالیسی
سازوں سے کون پوچھے کہ ان کی پالیسیوں نے پاکستان کو گراوٹ کی پاتال کے کس
حصے میں پہنچا دیا ہے۔ |