سرخ پوش "بھائی جان"کو سرخ سلام

"بھائی جان"کے نام سے معروف، ایک لسانی جماعت کے عہدیدار کی ہلاکت پر مجھ جیسے لاکھوںخدائی خدمتگاروں نے شدت سے محسوس کیا کہ اب کراچی مکمل طور پر ان دیکھے ہاتھوں" مقبوضہ "ہوچکا ہے۔سید امیر سردار خان ایک صوفی منش،خاک نشین،ہنس مکھ،خدائی خدمتگار سرخ پوش شخص نامعلوم دہشت گردوں کے ہاتھوں جہان فانی سے رخصت ہوگیا۔ہاتھ میں رومال اگر تھا تو اس کا رنگ بھی سرخ تھا، کپڑوں میں سرخ رنگ کی آمیزش نہ ہو تو وہ دوسرا لباس زیب تن نہیں کرتا تھا ،جس گاڑی میں سفر کرتا اس کا رنگ سرخ تھا، جس جگہ مہمان خانہ اس کی درودیوار سرخ،جس کمرے میں سوتا اس کا بستر سرخ،منہ میں پان کھاتا ہی اس لئے تھا کیونکہ اس کے نزدیک جو الفاظ اس کے منہ سے نکلیں وہ بھی سرخ ہونگے،یہاں تک کہ اس نے اپنے بالوں کا رنگ اور پہننے کی چپل تک سرخ رکھی تھی۔اس کا اوڑھنا بچھونا ،زندگی کا ایک ایک لمحہ سرخ پوش ہونے کی غمازی کرتا تھا ۔یہاں تک کہ جب جہان فانی سے روٹھ کر جا رہا تھا تو اس کے خون کے رنگ کی سرخی نے آسمان کو بھی سرخ کردیا۔

سائٹ ٹاﺅن کراچی کے یونین کونسل ۷ بنارس کے سابق یونین ناظم و کونسلر اور سوات سے تعلق رکھنے والے" سید امیر سردار" اپنی اعلٰی فطرت و ظرافت و بذلہ سنجی اور نڈر بے باکی و جرت کیوجہ سے ہر دل عزیز عام اورجس سے کوئی وعدہ کرلیتا تو گردن تو کاٹی جاسکتی تھی لیکن گردن موڑنے کا تصور "بھائی جان"کی ڈکشنری میں نہیں تھا۔دن رات کا کوئی ایسا لمحہ نہیں تھا جس میں بلا امتیاز خدمت کےلئے "بھائی جان" تیار کھڑا نہ ہوتا ہو۔اور اگر کوئی اس سے وعدہ خلافی کرلیتا تو بچوں کی طرح روٹھ جاتا لیکن کسی شفیق ہمدرد دوست کی طرح فوری مان بھی جاتا۔13اگست2012ئ کی شب، پختون گنجان آبادی خیبر چوک میں جہاں پیدل چلنے والے والے ایک دوسرے سے ٹکرائے بغیر نہیں رہ سکتے ، دہشت گرد آتے ہیں اور اپنی بیٹھک میں بیٹھے "بھائی جان" پر فائرنگ کر ڈالتے اور ان کے ساتھ ان کے تین رفقا ءپر جاں بحق ہوجاتے ہیں۔آخر ایسے صوفی منش سے کسی کی کیا دشمنی ہوسکتی تھی جو اپنی زندگی کا ہر لمحہ خدائی خدمت میں بسر کر رہا تھا۔یقینی طور ایسے شخص سے صرف ایک ایسے گروپ کو خطرہ تھا جیسے واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ ان کے مشن کی راہ میں کون کون رکاﺅٹ پیدا کرسکتا ہے۔سوات سے تعلق رکھنے والے نامی گرامی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کے پس پشت عناصر اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہے ہیں۔سائٹ کے علاقے میٹرول میں سوات کے اہم رہنما سید احمد خان کو بھی ایسی طرح ہلاک کیا گیا جس طرح "بھائی جان" کو۔ کراچی بار ایسوسی ایشن کے رکن اور سوات سے تعلق رکھنے والے میٹرول کے رہائشی ایک اور اہم شخصیت حنیف خان ایڈوکیٹ کے قاتلوں کا سراغ بھی نہیں مل سکا۔ پٹھان کالونی میںسوات قومی اتحاد کے چیئرمین شیر علی خان کو ان کے گھر کے سامنے ٹارگٹ کلنگ کرنا ،حساس ادارے کے اہلکاروں کو بنارس میںٹارگٹ کلنگ اور سوات سے ہی تعلق رکھنے والے پٹھان کالونی کے رہائشی پولیس آفسر کی ٹارگٹ کلنگ نے ابھی تک ارباب اختیارکو خمار آلود خواب غفلت سے بیدار نہیں کیا۔بنارس، پٹھان کالونی،فرئینٹر کالونی، میٹرول اور شاہی آباد ، سائٹ ٹاﺅن کے جڑواں علاقے ہیں اور یہاں 99فیصد آباد پختونوں کی اور 70فیصد سے زائد سوات سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ان علاقوں میں ذرائع کے مطابق جہادی تنظیموں کااہم اثر رسوخ ہے۔اطلاعات کے مطابق "بھائی جان"کی طرح 200سے زائد سواتیوں کو نامعلوم دہشت گردوں نے گھر کے سامنے ہدف بنا کر قتل کیا جس کا ارباب اختیار کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔اپنی گنجان آبادی اور خالص پختون آبادی کی بنا ءپر کراچی کے موجودہ حالات کے پس منظر میں اس بات کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ سواتیوں کی ٹارگٹ کلنگ سیاسی چپقلس کا نتیجہ یا کسی لسانی گینگ وار کا کاشاخانہ ہوسکتی ہے۔بنارس، پٹھان کالونی،فرئینٹر کالونی، میٹرول اور شاہی آباد ،کی آبادیاں مجموعی طور پرپانچ یونین کونسل پر مشتمل ہے اور یہاں سوائے مذہبی جماعتوں یا نیشلسٹ جماعتوں کے نمائندوں کو ہی ووٹ دئےے جاتے ہیں۔اگر دوسرے معنی میں لئے جائیں تو یہ علاقے مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے حریف و حلیف رائے کنندگان سے تعلق رکھنے والوں سے وابستہ ہیں۔ دوئم یہ تما م علاقے اس قدر گنجان آباد اور تنگ راستوں پر مشتمل ہیں کہ اکثر گلیوں میں تو جنازے بھی نہیں لے جائے جا سکتے۔لہذا اس صورتحال میں کسی بھی جرائم پیشہ عناصر یا کالعدم تنظیموںسے وابستہ کسی بھی معروف یا غیر معروف شخصیت کےلئے بہترین پناہ گاہوں تک قانون نافذکرنے والے اداروں یا حساس ایجنسیوں کی رسائی ممکن نہیں۔ ایسی طرح کراچی کے کچھ ایسے علاقے بھی محفوظ رہنے کےلئے مشہور ہیں جہاں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی ، ان میں سہراب گوٹھ، پختون آباد،کواری کالونی، اسلامیہ قصبہ کالونی، پیر آباد، طوری بنگش اور شیرپاﺅ کالونی کے علاقے ہیں۔ لیکن حالیہ کراچی کے موجودہ حالات کے پیش نظر واحد لیاری اور سائٹ ٹاﺅن کے متذکرہ علاقے ایسے ہیں جہاں سیکورٹی اداروں کی رٹ قائم نہیں ہے۔ان تمام حالات و واقعات سے کراچی کی تمام جماعتیں بخوبی واقف بھی نہیں ہیں ۔ متحدہ قومی موومنٹ کیجانب سے ابتدائی طور پر طالبائزیشن کے حوالے سے بار بار خدشات کےساتھ علاقوں میں حفاظتی کمیٹیوں کا تصور دیا گیا لیکن ایسے مذاق کا نشانہ بنا دیا گیا۔کراچی کے مضافاتی علاقوں اور خاص کر سواتیوں کےساتھ نامعلوم افراد کی دہشت گردی کی کاورائیاں بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ جیسے جانتے بوجھتے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔پختون آبادیوں میں جہادی تنظیموں کا عمل دخل جس قدر بڑھ چکا ہے اس سے اب کراچی کا ایک ناسمجھ بچہ بھی ناواقف نہیں رہا ہے۔اب بھی وقت ہے کہ کبوتر کی طرح آنکھ بند کرنے ک بجائے ہمیں خود حفاظتی اقدامات اٹھانے ہونگے۔ورنہ بھائی جان جیسے ہزاروں مخلصوں سے محرومی مقدر ہوگی اور پھرکراچی میں بے شمار خونی چوک دیکھنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ خاموش رہتے ہیں یا اپنے علاقوں کی حفاظت کےلئے اقدامات کرتے ہیں۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 264399 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.