صدقہ فطر واجب ہے
سرکارِمدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شَخص کو حُکم دیا
کہ جاکر مکّۂِ مُعَظّمہ کے گلی کُوچوں میں اِعْلان کر دو، ’’صَدَ قَہۂ
فِطْر واجِب ہے۔‘‘(جامع ترمذی، ج۲،ص۱۵۱،حدیث۶۷۴)
صدقہ فطر لغو باتوں کا کفارہ ہے
حضرتِ سَیِّدُنا اِبنِ عباّس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں، مَدَنی
سرکار، غریبوں کے غَمخوار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
صَدَقَہِۂ فِطْرمقرَّر فرمایا تاکہ فُضُول اور بَیہُودہ کلام سے روزوں کی
طَہارت (یعنی صفائی)ہوجائے۔نِیز مَسَاکِین کی خُورِش (یعنی خواراک)بھی
ہوجائے۔ (سنن ابی داود، ج۲،ص۱۵۸،حدیث۱۶۰۹)
روزہ معلق رہتا ہے
حضرتِ سَیِّدُنا اَنَس بِن مالِک رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کہتے ہیں
سرکارِنامدار، مدینے کے تاجدار،بِاِذْنِ پرَوَرْدگار ،دوعالَم کے مالِک
ومُختار، شَہَنْشاہِ اَبرار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے
ہیں،جب تک صَدَقَہۂ فِطْر ادا نہیں کیا جاتا ،بندے کا روزہ زَمین و آسمان
کے درمیان مُعلَّق (یعنی لٹکا ہوا ) رہتاہے۔(کنزالعُمّال
،ج۸،ص۲۵۳،حدیث۲۴۱۲۴)
’’ عید کی خوشیاں مبارَک ‘‘
کے 16 حُرُوف کی نسبت سے فِطْرہ کے ۱۶ مَدَنی پھول
مدینہ۱ صَدَقَہۂ فِطْر ان تمام مُسلمان مَرْد و عورت پر واجِب ہے جو
’’صاحِب نِصاب ‘‘ ہوں اور اُن کا نِصاب ’’حاجاتِ اَصْلِیَّہ (یعنی ضروریاتِ
زندگی سے)‘‘ فارغِ ہو۔(عالمگیری ،ج۱،ص۱۹۱)
مدینہ۲ جِس کے پاس ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باوَن تولہ چاندی یا ساڑھے
بَاوَن تولہ چاندی کی رقم یا اتنی مالیت کامالِ تجارت ہو(اور یہ سب حاجاتِ
اَصْلِیَّہ سے فارغِ ہوں)اُس کو صاحِبِ نِصاب کہا جاتا ہے ۔ ( صاحبِ نصاب
،’’غنی ‘‘، فقیر ‘‘حاجاتِ اصلیہ وغیرہ اصطلاحات کی تفصیلی معلومات فِقہِ
حنفی کی مشہور کتاب ’’بہار شریعت حصہ پنجم میں ملاحظہ فرمائیے )
مدینہ۳ صَدَقَہۂ فِطْر واجِب ہونے کیلئے ،’’عاقِل وبالِغ ‘‘ہونا شَرط
نہیں۔بلکہ بَچّہ یا مَجْنُون (یعنی پاگل ) بھی اگر صاحِبِ نِصاب ہوتو اُس
کے مال میں سے اُن کا وَلی (یعنی سَرپرست) ادا کرے۔(ردّالْمُحتار ،ج۳،ص۳۱۲)
’’صدقہۂ فطر ‘‘کے لئے مقدارِ نصاب تو وہی ہے جو زکوٰۃ کا ہے جیسا کہ مذکور
ہوا لیکن فرق یہ ہے کہ ’’صدقہۂ فطر ‘‘کے لئے مال کے نامی ( یعنی اس میں
بڑھنے کی صلاحیت ) ہونے اور سال گزرنے کی شرط نہیں اسی طرح جو چیزیں ضرورت
سے زیادہ ہیں( مثلًا وہ گھریلو سامان جو روزانہ کام میں نہیں آتا )اور ان
کی قیمت نصاب کو پہچتی ہو تو ان اشیاء کی وجہ سے’’صدقہۂ فطر ‘‘ واجب ہے ۔
زکوٰۃ اور’’صدقہۂ فطر ‘‘ کے نصاب میں یہ فرق کیفیت کے اعتبار سے ہے ۔ (
وقار الفتاویٰ ،ج۲،ص ۳۸۵)
مدینہ ۴ مالِکِ نِصاب مَردپر اپنی طرف سے ،اپنے چھوٹے بچّوں کی طرف سے اور
اگر کوئی مَجْنُون (یعنی پاگل)اولاد ہے(چاہے پھر وہ پاگل اولاد بالِغ ہی
کیوں نہ ہو)تو اُس کی طرف سے بھی صَدَقَہۂ فِطْر واجِب ہے،ہاں اگر وہ بچّہ
یا مَجْنُونخود صاحِبِ نِصاب ہے تو پھراُ س کے مال میں سے فِطْرہ اداکردے۔
(عالمگیری، ج۱،ص۱۹۲)
مدینہ ۵ مَرد صاحِبِ نِصاب پر اپنی بیوی یا ماں باپ یا چھوٹے بھائی بہن اور
دیگر رِشتہ داروں کا فِطْرہ واجِب نہیں۔(عالمگیری، ج۱،ص۱۹۳)
مدینہ ۶ والدنہ ہو تو دادا جان والِد صاحِب کی جگہ ہیں۔یعنی اپنے فَقیر
ویتیم پوتے پوتیوں کی طرف سے اُن پہصَدَقَہۂ فِطْر دینا واجِب ہے۔
(درمختار، ردالْمحتار ،ج۲،ص۳۱۵)
مدینہ۷ ماں پراپنے چھوٹے بچّوں کی طرف سے صَدَقَہۂ فِطْر دینا واجِب نہیں۔
( رَدُّ الْمُحتار، ج۳،ص۳۱۵)
مدینہ ۸ باپ پر اپنی عاقِل بالِغ اولاد کا فِطْرہ واجِب نہیں۔(دُ رِّمُختار
مع رَدِّالْمُحتار، ج۳،ص۳۱۷)
مدینہ ۹کسی صحیح شَرعی مجبوری کے تحت روزے نہ رکھ سکایا مَعَاذَاللّٰہ
عَزَّوَجَلَّ کسی بد نصیب نے بِغیر مجبوری کے رَمَضانُ الْمُبارَک کے روزے
نہ رکھے اُس پر بھی صاحِب نِصاب ہونے کی صُورت میں صَدَقَہۂ فِطْر واجِب
ہے۔
(رَدّالْمُحتار، ج۳،ص۳۱۵)
مدینہ ۱۰ بیوی یا بالِغ اولاد جِن کا نَفَقَہ وغیرہ (یعنی روٹی کپڑے وغیرہ
کا خَرچ)جس شَحص کے ذِمّہ ہے وہ اگر اِن کی اجازت کے بِغیر ہی اِن کا
فِطْرہ ادا کردے تو ادا ہوجائے گا ۔ہاں اگر نَفَقَہ اُس کے ذِمّہ نہیں
ہے۔مَثَلاً بالِغ بیٹے نے شادی کرکے گھر الگ بَسالیا اور اپنا گُزارہ خودہی
کرلیتا ہے تو اب اپنے نَان نَفَقَہ(یعنی روٹی کپڑے وغیرہ)کا خود ہی ذِمّہ
دار ہوگیا ہے۔لہٰذا ایسی اولاد کی طرف سے بِغیر اجازت فِطْرہ دے دیا تو ادا
نہ ہوگا۔
مدینہ ۱۱ بیوی نے بِغیر حُکْمِ شوہر اگر شوہر کا فِطْرہ ادا کردیا تو ادا
نہ ہوگا۔ (بہار شریعت ،حصّہ پنجم ،ص۶۹)
مدینہ۱۲ عِیدُ ا لْفِطْرکی صُبحِ صادِق طُلوع ہوتے وَقْت جو صاحِب نِصاب
تھا اُسی پر صَدَقَہۂ فِطْر واجِب ہے ۔اگر صُبحِ صادِق کے بعد صاحِب نِصاب
ہوا تو اب واجِب نہیں۔ (عا لمگیری ،ج۱،ص۱۹۲)
مدینہ ۱۳ صَدَقَہۂ فِطْر ادا کرنے کا اَفضل وَقْت تو یِہی ہے کہ عید کو
صُبحِ صادِق کے بعد عید کی نَمازادا کرنے سے پہلے پہلے ادا کردیا جائے۔اگر
چاند رات یا رَمَضانُ الْمُبارَک کے کسی بھی دِن بلکہ رَمضان شریف سے پہلے
بھی اگر کسی نے ادا کردیا تب بھی فِطْرہادا ہوگیا اور ایسا کرنا بالکل
جاءِز ہے۔(عالمگیری ،ج۱،ص۱۹۲)
مدینہ ۱۴اگر عید کا دِن گُزر گیا اور فِطْرہ ادا نہ کیا تھا تب بھی فِطْرہ
ساقِط نہ ہوا۔بلکہ عُمْر بَھر میں جب بھی ادا کریں ادا ہی ہے(ایضاً)
مدینہ ۱۵ صَدَقَہۂ فِطْرکے مصَا رِف وُہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں۔یعنی جِن کو
زکوٰۃ دے سکتے ہیں اِنہیں فِطْرہ بھی دے سکتے ہیں اور جن کو زکوٰۃ نہیں دے
سکتے اُن کو فِطْرہبھی نہیں دے سکتے۔ (عالمگیری ،ج۱،ص۱۹۴)
مدینہ ۱۶ساداتِ کِرام کو صَدَقَہۂ فِطْر نہیں دے سکتے۔
صدقہ فطر کی مقدار آسان لفظوں میں
’’ایک سو پَچھتَّر روپے اَٹَھنّی بھر‘‘(یعنی دوسیر تین چھٹانک آدھا
تَولہ،یا دوکِلو اور تقریباً پچاس گرام) وَزن گیہوں یا اُس کا آٹا یا اتنے
گیہوں کی قیمت ایک صَدَقَہۂ فِطْر کی مِقدار ہے۔
فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔۔جاری ہے
یا اللہ عزوجل ماہ رمضان کے طفیل برما کے مسلمانوں
کی جان و مال ،عزت آبرو کی حفاظت فرما۔اٰمین
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے |